ایڈیٹوریل

متحدہ عرب امارات سے اربوں ڈالرز کے معاہدے

پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان توانائی،پورٹ آپریشنز پراجیکٹس،ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ،فوڈ سکیورٹی، لاجسٹک، کان کنی، ایوی ایشن اور بینکنگ اینڈ فنانشل سروسز سمیت دیگر شعبوں میں 20تا 25 ارب ڈالرزکےایم اویوز پر دستخط ہو گئے ہیں۔سمجھوتوں پر دستخط کی تقریب میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور وفاقی وزراءبھی موجود تھے۔ علاوہ ازیں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے ابوظہبی میں متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان سے ملاقات کی، جس میں جنرل سید عاصم منیر بھی موجود تھے۔دونوں رہنماؤں نے پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان دوطرفہ اسٹریٹجک تعاون اور بات چیت کو مزید مستحکم کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔بلاشبہ پاکستان متحدہ عرب امارات کے ساتھ اپنے برادرانہ تعلقات کو سب سے زیادہ ترجیح دیتا ہے اور تعلقات کو خاص طور پر اقتصادی محاذ پر ایک نئی سطح تک لے جانے کا خواہشمند ہے۔اسی لئے پاکستان اس برادرانہ اقدام کا گرمجوشی سے خیرمقدم کرتا ہے اور اماراتی بھائیوں کی جانب سے پاکستان میں خاطر خواہ اور نمایاں سرمایہ کاری میں گہری دلچسپی کو خوش آمدید کہتا ہے جو اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی صورت میں ظاہر کی گئی ہے ۔دونوں برادر اسلامی ممالک میں تجارت، توانائی، انفراسٹرکچر، پٹرولیم اور دیگر اہم شعبوں سمیت دوطرفہ اقتصادی تعاون کو مضبوط بنانے پر اتفاق موجود ہے اور گاہے بگاہے اِس معاملے میں پیش رفت ہوتی رہتی ہے مگر نگران وزیراعظم اور سربراہ پاک فوج جنرل عاصم منیر کے حالیہ دورے میں ہونے والی اہم پیش رفت موجودہ معاشی حالات خصوصاً دیگر غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ہماری طرف راغب کرنے کے لئے اہم موڑ ہے، کیونکہ اِس سرمایہ کاری کی وجہ سے دوسرے ممالک اور غیر ملکی سرمایہ کاری ہمارے یہاں سرمایہ کاری کے لئے متوجہ ہوں گے توہمیں روزگار کی فراہمی سمیت کئی اہم شعبوں میں فائدہ حاصل ہوگا۔ اِس میں قطعی دو رائے نہیں کہ پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے برادرانہ تعلقات ہمیشہ سے اقوام عالم کے لئے مثالی رہے ہیں کیونکہ دونوں ملکوں نے ہمیشہ ایک دوسرے کے مفاد کو مقدم رکھا ہے مگر دوسری طرف متحدہ عرب امارات کی قیادت ہمیں یہ سبق بھی دیتی ہے کہ قیادت کا ویژن ہو تو صحرا بھی گل و گلزار بن جاتے ہیں ، ملک و قوم کے لئے کچھ کرنے کی حقیقی لگن ہو اور کج بحثی میں الجھنے کو برا سمجھا جائے تو پوری دنیا کے لئے خود کو مثالی ملک بنایا جاسکتا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی قیادت نے اپنے بہترین ویژن اور ان تھک کوششوں سے اپنے ملک کو پوری دنیا کے لئے توجہ کا مرکز بنادیا ہے مگر افسوس کہ سات سے زائد دہائیوں سے اُن مسائل میں اُلجھے ہوئے ہیں جو لاحاصل اور اُن کا نتیجہ تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ دنیا کی بڑی معاشی طاقتیں اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لئے دبئی کا رخ کرتی ہیں، سرمایہ کار محفوظ سرمایہ کاری کے لئے دبئی پہنچتے ہیں، دبئی کا امن و سلامتی ہر کسی کے لئے مثالی ہے، بلکہ ترقی یافتہ ممالک چاہ کر بھی اپنے ملکوں کو دبئی کی طرح آئیڈیل نہیں بناسکے۔ دبئی کی قیادت نے جب تیل کے قدرتی ذرائع کم ہوتے دیکھے تو فوراً فیصلہ کرلیا کہ اِس صحرا کو دنیا کے لئے پرکشش بنانا ہے تاکہ پوری دنیا سے لوگ کھینچے چلے آئیں، لہٰذا بہترین منصوبہ بندی اور نیک نیتی نے متحدہ عرب امارات کو اُن ممالک کی فہرست میں شامل کردیا ہے جو غریب ممالک کی امداد کرتے ہیں مگر دوسری طرف ہم ہیں، تمام تر قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ہمارا کوئی پرسان حال نہیں، ہم نے چین، متحدہ عرب امارات اور ملایئشیا اور اِن جیسے ممالک سے کچھ نہیں سیکھا، جنہوں نے ترقی کی ٹھانی تو پھرپیچھے مڑ کر نہیں دیکھا مگر ہم ہیں کہ ہماری ترقی، خوش حالی ، تعلیم ، صحت، معیشت غرضیکہ ہر شعبے کو ریورس گیئر لگا ہوا ہے، بہرکیف ہم نے مدد نہیں مانگی اور سرمایہ کاری پر توجہ مرکوز رکھی ہے یہ بھی اچھا فیصلہ ہے، مگر ہم دبئی کی قیادت سے وہ لگن اور جذبہ بھی مستعار لے لیں جو وہ اپنے ملک و قوم کی ترقی کے لئے بروئے کار لائے تو ہم کسی الجھن کا شکار ہوئے بغیر اُن پر من و عن اور سر دھڑ کی بازی لگاکر عمل کریں تو کوئی بعید نہیں کہ ہمارے عوام فاقہ کشی سے باہر نکل آئیں اور ہم معاشی سرگرمیوں کے اعتبار سے دنیا کے لئے پرکشش ملک بن جائیں، مگر جب ہم اپنے وسائل کی بے دردی سے لوٹ ماراور اپنی حالت زار دیکھتے ہیں تو بہترین ویژن کی قیادت کا قحط محسوس ہوتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button