زرداری صاحب کی ‘معنی خیز خاموشی (حصہ دوم)
یوسف بھٹی
سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور الیکٹیبلز کے شوق میں سندھ، کراچی میں نون لیگ کا متحدہ قومی موومنٹ سے اتحاد نون لیگ کا ایک اور پیچیدہ سیاسی فیصلہ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ایم کیو ایم سے کبھی بھی خوش نہیں رہی ہے۔ ایم کیو ایم بنوانے کی تاریخی غلطی جنرل ضیاءالحق نے کی تھی جو فوج ہی کے لئے درد سر بنی رہی۔ اگرچہ اس غلطی کی تلافی کے لئے پہلی بار پیپلزپارٹی کے دور میں وفاقی وزیر داخلہ جنرل نصیراللہ بابر نے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کیا اور دوسری بار میاں نواز شریف کے دور میں فوج نے آپریشن کلین اپ کیا تھا۔ اسی دور میں ایم کیو ایم کے ’’را‘‘ سے خفیہ مراسم اور’’جناح آباد‘‘ کے پلان سامنے آئے تھے۔
سندھو دیش کے بانی جی ایم سید نے الطاف حسین کو نفرت اور تعصب پر مبنی یہ نعرہ رٹایا تھا کہ سندھی مہاجر بھائی بھائی، نسوار اور دھوتی کہاں سے آئی۔ کراچی پاکستان کو ستر فیصد ریونیو دیتا تھا مگر پھر ایم کیو ایم نے پنجابیوں، پٹھانوں اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں کے خلاف ایک عرصہ تک جو قتل و غارت گری مچائے رکھی اور جس طرح کراچی کا امن و امان اور معیشت تباہ ہوئی وہ پورا پاکستان جانتا ہے، بلکہ صوبائی اور نسلی عصبیت کو جتنی ہوا ایم کیو ایم نے دی اس کی پاکستان میں اور کوئی مثال نہیں ملتی کہ الطاف حسین نے اپنے کارکنوں کو سبق پڑھایا کہ ٹی وی اور وی سی آر فروخت کر کے اسلحہ خریدو۔ سندھ کے شہروں کی دیواروں پر چاکنگ کی جاتی تھی اور انسانی تصویریں بنائی جاتی تھیں جن کے نیچے لکھا ہوتا تھا کہ’’حقوق یا موت‘‘۔ اندرون سندھ بسوں میں مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کئے جاتے اور پوچھا جاتا تھا کہ تم کون ہو۔ اگر مسافر پنجابی یا پٹھان ہوتا تو ان کے ساتھ زیادتی کی جاتی تھی، تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا اور بعض دفعہ قتل تک کر دیا جاتا تھا۔اگرچہ اب ایم کیو ایم کی باگ ڈور امن پسند گروپ کے ہاتھوں میں ہے اور حالات بدل گئے ہیں۔ اس کے باوجود کراچی میں الطاف حسین کے ووٹ آج بھی موجود ہیں۔ لہٰذا نون لیگ، ایم کیو ایم سے سیاسی مفاد کی خاطر الحاق کرنے میں بہت جلد بازی کر گئی ہے۔ یہ اتحاد اسٹیبلشمنٹ سے نون کے مستقبل میں ہونے والے اختلافات کی بنیاد بھی بن سکتا ہے کہ میاں نواز شریف ماضی میں تینوں بار فوج سے شدید اختلافات کی وجہ سے رخصت ہوتے رہے ہیں۔ کچھ بعید نہیں کہ ماضی کی یہ تاریخ ایک دفعہ پھر دہرائی جائے گی۔ ایم کیو ایم نے پہلے عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد میں اتحادی حکومت کا ساتھ دیا تھا اور شہباز شریف کو وزیراعظم بنوایا تھا۔ اب اس نے سندھ میں پھر مسلم لیگ سے اتحاد کر لیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نون اور ایم کیو ایم کا یہ انتخابی اتحاد بظاہر پیپلزپارٹی کے خلاف ہے اور یہ کتنا کامیاب ہو گا ابھی اس کے بارے میں تبصرہ کرنا قبل از وقت ہے۔پاکستان مسلم لیگ نون اور متحدہ قومی موومنٹ نومبر کے پہلے ہفتہ میں ہونے والے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے اعلان میں کہا گیا کہ دونوں جماعتیں کراچی میں 2013 کے عام انتخابات کے نتائج جیسی صورتحال چاہتی ہیں۔ یاد رہے کہ ماضی میں متحدہ قومی موومنٹ اپنے قیام سے لے کر تین بار مسلم لیگ نون کی اتحادی جماعت رہی اور تینوں ادوار میں اسے آپریشن کا سامنا کرنا پڑا۔ 2013 کے آپریشن کے دوران ایم کیو ایم دھڑوں میں بٹ گئی جو رواں سال، لندن گروپ کو چھوڑ کر، ایک بار پھر متحد ہو گئی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان ڈاکٹر فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال کے دھڑوں کے انضمام کے بعد پہلی بار عام انتخابات میں حصہ لے گی۔ لیکن سینئر تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے پاس محدود آپشن ہیں اور وہ ایک کمزور پارٹنر ہے۔ آصف علی زرداری بصیرت افروز اور معاملہ فہمی ) کے حامل سیاست دان ہیں اور مستقبل کے ایسے سیاسی امکانات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ اسی لئے انہوں نے اعلان کیا ہے کہ ہمارے خلاف سندھ اور کراچی میں جو بھی اتحاد ہو رہا ہے ہم اسے خوش دلی سے قبول کرتے ہیں اور ہم اس کا مقابلہ سیاسی میدان میں کریں گے۔
بظاہر ایم کیو ایم کی قیادت نے اس سیاسی جماعت (نون لیگ) کی طرف قدم بڑھایا ہے جس کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات سردست بہتر نظر آتے ہیں۔ اس بات کا دہرا امکان ہے کہ ہو سکتا ہے ماضی کے برعکس ایم کیو ایم کے آگے چل کر اسٹیبلشمنٹ سے معاملات ٹھیک ہو جائیں یا یہ بھی امکان ہے کہ حسب ماضی میاں صاحب کی اسٹیبلشمنٹ سے پھر ان بن ہو گئی تو اس سے ایم کیو ایم اسٹیبلشمنٹ سے مزید دور ہو جائے گی۔ یہاں پیپلزپارٹی کے ‘کو چیئرمین آصف علی زرداری ہی ایسے بزرگ سیاستدان ہیں جو اپنی سیاسی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے ‘خاموشی کے ساتھ اپنے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کے لئے ایسی ہموار پچ تیار کرنے میں مصروف ہیں کہ انہیں جونہی اپنے سیاسی پتے استعمال کرنے کا موقع ملے گا وہ بلاول بھٹو زرداری کو آگے نکل کر کھیلنے کی باری دیں گے جس کا اشارہ خود بلاول بھٹو زرداری بھی یہ کہہ کر دے چکے ہیں کہ،اب بزرگ سیاستدان آرام کریں اور نوجوان قیادت کو سیاست کرنے کا موقع دیں۔ بلاول بھٹو زرداری یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ کراچی میں ہونے والے جلسے سے اپنی والدہ کے نامکمل سفر کو مکمل کریں گے۔ پہلے انہوں نے کراچی اور پھر انہوں نے خیبر پختونخوا میں بڑے سیاسی جلسوں سے خطاب کیا۔ جبکہ ان کے مدمقابل وزارت عظمیٰ کے امیدوار اور نون لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف نے لاہور کے 21اکتوبر کے جلسے کے بعد ابھی تک کوئی جلسہ نہیں کیا جس کے بارے یہ بھی کہا جا رہا ہے میاں صاحب درون خانہ واپس لندن جانا چاہتے ہیں اور وہ اس مد میں گومگو کی کیفیت کا شکار ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال اور دیگر سیاسی معاملات پر اپنے تند و تیز بیانات اور ٹویٹرپر پیغامات کی وجہ سے ذرائع ابلاغ میں موضوع
بحث ہیں۔ کراچی کے جلسے کو ملک میں پیپلز پارٹی کی بہت بڑی طاقت کے مظاہرے کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ بلاول بھٹو زرداری 21ستمبر 1988ء کو پیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش کے تین ماہ بعد ہی ان کی والدہ بینظیر بھٹو پاکستان اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بن گئ تھیں۔ 18 اکتوبر 2007ء کو بینظیر بھٹو اپنی آٹھ سالہ جلاوطنی ختم کر کے وطن واپس آئیں۔ کراچی ہوائی اڈے سے لاکھوں افراد کے جلوس میں ان کا قافلہ جب کار ساز کے مقام پر پہنچا تو یہاں ہونے والے دو بم دھماکوں سے یہ سفر وہیں رک گیا تھا۔ اس واقعے میں پیپلزپارٹی کے ڈیڑھ سو سے زائد کارکن ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے تھے۔ اس کے بعد خود محترمہ بےنظیر بھٹو 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کے بعد اسلام آباد واپس جاتے ہوئے لیاقت باغ میں ایک بم حملے میں شہید ہو گئی تھیں۔بلاول بھٹو زرداری کا بیانیہ ہے کہ وہ کراچی اور لیاقت باغ میں ہونے والے جلسے سے اپنی والدہ کے نامکمل مشن کو مکمل کرنے کا مقصد لے کر سیاست کے میدان میں آئے ہیں۔