آج کے کالممحمد انور گریوال

’’صاحب‘‘ کہنے پر پابندی اور مسئلہ توند کا!

محمد انور گریوال

کسی بھی صاحب بہادر کو اب ’’صاحب‘‘ نہیں کہا جاسکے گا، یہ پابندی کسی حکومت یا ادارے نے نہیں، پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ قاضی القضاء قاضی فائز عیسیٰ نے لگائی ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ خیبر پختونخوا میں ایک بچے کے قتل کے مقدمہ میں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کیس کی تفصیل ڈی ایس پی صاحب بتائیں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ ڈی ایس پی صاحب نہیں، آپ لوگوں نے صاحب، صاحب کہہ کر سرکاری افسران کا دماغ خراب کر رکھا ہے، یہ نالائق ڈی ایس پی ہے۔ سرکاری افسروں کے ساتھ صاحب کے لفظ پر پابندی لگاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے آزادی کے حصول کی نفی ہوتی ہے، صاحب کا لفظ افسروں کو احتساب سے بالاتر بناتاہے۔ خیبر پختونخوا کی پولیس کو انہوں نے سب سے نالائق قرار دیا، چیف جسٹس کے اِن ریمارکس کے بعد پنجاب پولیس میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہوگی، اور خیالوں ہی خیالوں میں وہ خود کو سپر ہیرو تصور کرنے لگ گئی ہوگی۔صاحب کا لفظ نہ جانے کس نے ایجاد کیا تھا، جس نے بھی کیا بہت کمال کیا، یہ خاص لفظ ہر کسی کے نام کے ساتھ نہیں لگایا جاتا، مخصوص، بڑے اور اہم ناموں کے ساتھ ’’صاحب‘‘ کا دُم چھلّا لگتا ہے اور وہیں جچتا ہے۔ انگریز نے چونکہ ہندوستان کے لوگوں کو اپنا غلام بنا کر رکھا تھا، جِن کی تہذیب کی ہم مثالیں دیتے اور تعریفیں کرتے نہیں تھکتے، اُن کے اندر منافقت اور نفرت (اسے جہالت بھی کہا جا سکتا ہے) اِس قدر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی کہ انہوںنے ’’یہاں‘‘ اور’’ وہاں ‘‘کے معاملات میں زمین و آسمان کا فرق قائم کر رکھا تھا، یہاں وہ ظالم، جابر اور آزاد حکمران کی حیثیت سے رہتے تھے تو وہاں قاعدہ اور قانون کے پابند شہری بن کر۔ خیر وقت گزر گیا، مگر وہ خاص عہدے جو انسانوں پر حکومت چلانے والے تھے، ایسی کرسیوں پر بیٹھنے والوں کو ’’انگریز بہادر‘‘ یا ’’صاحب بہادر‘‘ کہا جاتا تھا۔ پھر یہ لفظ ہر طاقتور سرکاری عہدے کے لئے استعمال ہونے لگا، ہندوستانی غلاموں کے لئے انگریز عہدیدار’’ صاحب بہادر‘‘ ہی تھے۔
انگریز تو ربع صدی قبل ہندوستان کو تقسیم کرکے اپنے وطن لوٹ گئے، مگر اُن کی کرسیوں پر بیٹھنے والوں نے اپنی روش نہیں بدلی۔ انگریز دور میں دو عہدے نہایت ہی طاقتور اور بااختیار ہوتے تھے، ایک گورنر اور دوسرے ڈپٹی کمشنر۔ اِ ن عہدوں پر بیٹھنے والے اب بھی انگریزوں کی سی ہی طاقت اور اختیار رکھتے ہیں۔ کس کی مجال ہے کہ ڈپٹی کمشنر کی اجازت کے بغیر اُس کے دفتر میں قدم بھی رکھ سکے؟ ملاقاتیوں کو دروازے پر ہی معلوم ہوگا کہ ’’صاحب‘‘دورے پر ہیں، ’’صاحب‘‘ میٹنگ میں ہیں یا پھر ’’صاحب‘‘ چھٹی پر ہیں۔ جب تک پیشگی اجازت نامہ نہیں لیا، اندر داخل ہونا ممکن نہ ہوگا۔ رہا گورنر تو وہاں تک رسائی کے لئے تو بہت سے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، تب جا کر شرفِ ملاقات نصیب ہوتا ہے، وہ بھی صرف اُتنی دیر جتنی شیڈول میں لکھ دی گئی۔ جہاں سے گورنر نے گزرنا ہو تا ہے، اُن راہوں پر پولیس کی نفری تعینات ہوتی ہے، سڑکیں بلاک کر دی جاتی ہیں، خواہ گورنر کا آبائی شہر ہی کیوں نہ ہو۔ یہ انگریزی عہدے قوم کی گردن پر انگریزوں کی باقیات بن سوار ہیں۔ رویے، طرزِ ملاقات، پروٹوکول، مراعات، اختیارات اور عیاشیوں میں دیسی انگریز ’’ولایتی اور اصلی‘‘ انگریزوں سے کم نہیں۔
مذکورہ کیس میں خیبر پختونخوا کے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے ساتھ موجود ایک پولیس اہلکار سے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’’ آپ کا پیٹ اتنا کیوں بڑھا ہوا ہے، آپ ایک فورس ہیں، ایک زمانے میں بیلٹ ہوتی تھی ۔۔۔‘‘۔ یہ معلوم نہیں ہو سکاکہ’’ توند بردار‘‘ پولیس اہلکار نے کیا جواب دیا، یا خاموشی سے سر جھکائے کھڑے رہنے میں ہی عافیت جانی، اور کسی سخت حکم کا منتظر رہا۔ ایک لمحے کی کہانی ہی تھی، اگر چیف جسٹس توند کو کم کرنے کا حکم جاری کر دیتے، اور اس کارِ خیر کے لئے کچھ معقول مہلت دے دیتے تو حالات بدل سکتے تھے، یوں یہ حکم صرف ایک پولیس اہلکار کے لئے نہ ہوتا اور نہ ہی خیبر پختونخوا کی پولیس کے لئے ہوتا بلکہ پورے پاکستان کی پولیس کو جان کے لالے پڑ جاتے، کیونکہ توند پاکستان بھر کی پولیس کا قومی نشان بن چکا ہے، خاص طور پر ’’پرموٹیئے‘‘ تو اکثر توند والے ہی ہیں۔ جس کسی کی توند بڑھی ہوئی ہوتی وہ اِس حکم کا مصداق ٹھہرتا۔ چیف جسٹس کی اِس بات پر پولیس کو غور کرنا چاہیے کہ پولیس ایک فورس ہے، ظاہر ہے جس فورس نے ڈاکوئوں، چوروں اور جرائم پیشہ لوگوں کو پکڑنا ہے، ان کے ساتھ مقابلے کی نوبت بھی آتی رہتی ہے، ایسے میں توند والے اہلکار کیا کارکردگی ظاہر کر سکتے ہیں؟ یہ نیک کام مشرف دور میں چوہدری پرویز الٰہی نے اپنی وزارتِ علیا کے دور میں بھی کیا تھا، ظاہر ہے جو کہ صرف پنجاب پولیس کے لئے تھا، مگر اپنے ہاں سرکاری حکم بس ایسے ہی ہوتے ہیں ، کہ حکم صادرکر دیا عمل ہوتا رہے گا، نہ دوبارہ پوچھا ، نہ عمل ہوا۔ اب عدالتِ عظمیٰ کی طرف سے حکم ہوا ہے کہ صاحب لوگوں کو ’’صاحب‘‘ نہیں کہنا۔ جو الفاظ مستقل زبان کے ساتھ چِپکے ہوئے ہیں، انہیں الگ کرنا آسان نہیں، نہ چاہتے ہوئے بھی اِ ن ’’صاحب‘‘ کہنے کے عادی لوگوں کی زبان پھسل جائے گی، اور ’’صاحب‘‘ کا لفظ منہ سے نکل ہی جائے گا۔ چلیں زبان کے غوطہ کھانے کی غلطی قابلِ معافی ہے، یقیناً عدالت بھی پیشی پر آنے والوں کی عادت کے پختہ ہونے تک برداشت اور تحمل سے کام لے گی۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ صرف ’’صاحب‘‘ نہ کہنے سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟ کیا یہ لوگ جن کو ’’صاحب‘‘ کہلوانے کی عادت پڑ گئی ہے، یہ ’’صاحب‘‘ کے بغیر اپنے عہدے کا نام سننابرداشت کریں گے؟ امکان یہی ہے کہ جب اُنہیں’ ’صاحب‘‘ نہیں کہا جائے گا ، تو اُن کا غصہ اپنی کیڑے مکوڑوں جیسی رعایا پر اور بھی زیادہ ہو جائے گا، وہ ان کی پہلے سے ہونے والی تذلیل میں مزید اضافہ کر دیں گے، اُن کو بے عزت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔ جب تک ’’صاحب بہادر‘‘ کے رویے اور مزاج میں تبدیلی نہیں آتی ، اُس وقت تک ’’صاحب‘‘ کہنے یا نہ کہنے سے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ البتہ عدالتِ عظمیٰ کے اِس حکم کو’’ بت شکنی‘‘ کی طرف پہلا قدم ضرور قرار دیا جاسکتا ہے۔ اِن بتوں کو توڑنے کے لئے بہت سی چوٹوں کی ابھی اور بھی ضرورت ہے ، تا کہ یہ لوگ عوام کو حشرات الارض کی بجائے انسان سمجھیں۔

جواب دیں

Back to top button