آج کے کالماحمد خان

سیاسی پِچ کا قضیہ

احمد خان

قبلہ رانا صاحب چاہے حکومت میں ہو ں یا نہ ہوں غضب کا گرجتے برستے ہیں ، حکمران اتحاد میں جب وزیر داخلہ تھے تب بھی اپنے سیاسی حریفوں کے کڑاکے نکالا کر تے تھے، جب سے انتخابات کی ہوا نے زورپکڑا ہے اب جناب رانا صاحب پھر سے گرج برس کا منصب سنبھال کر اپنے سیاسی مخالفین کی سینوں پر مونگ دلتے نظر آرہے ہیں۔رانا صاحب کے قول مبارک کے مطابق آنے والے انتخابی معرکے میں مسلم لیگ نون ایوان زیریں کی 125نشستیں اپنے نام کر ے گی ، سیدھے سبھا ئو رانا صاحب کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ آنے والی حکومت مسلم لیگ نون کی بنے گی۔ رانا صاحب سیاست کے پرانے گرو ہیں انہو ں نے اتنا بڑا دعویٰ کیا ہے تو کچھ سوچ کر ہی کیا ہو گا ، بجا کہ مقتدر حلقوں کی جانب سے مسلم لیگ نون کی راہ میں کو ئی رکاوٹ حائل نہیں بلکہ شعوری کہیے یا لا شعوری مسلم لیگ نون کی راہ میں جو رکا وٹیں کسی نہ کسی طور حائل تھیں مقتدر حلقوں نے وہ رکاوٹیں بھی مسلم لیگ نون کی راہ سے ہٹا دی ہیں اب مسلم لیگ نون کے لئے سیاسی صورت حال ’’ مرزا یار ‘‘ والی ہے البتہ مسلم لیگ نون کا کئی حلقوں میں مسلم لیگ نون سے مقا بلہ ہے ، صورت احوال کچھ یو ں ہے کہ کئی حلقوں میں مسلم لیگ نون کے امیدوار اس پو زیشن میں نہیں کہ وہ قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں جیت سکیں لیکن مسلم لیگ نون کے امید وار بضد ہیں کہ انہیں ہی جماعت پارٹی ٹکٹ سے سر فراز کر ے ، گر مسلم لیگ نون قومی اور صوبائی اسمبلی میں اپنے امیدواروں کو ٹکٹ دیتی ہے ایسے حالات میں مسلم لیگ نون کے لئے ان حلقوں میں جیتنا کا فی حد تک ناممکن ہے ، دل چسپ امر یہ ہے کہ عین انہی قومی اور صوبائی حلقوں میں مسلم لیگ نون کے ٹکٹ کے ایسے امید وار موجود ہیں جو آسانی سے قومی اور صوبائی حلقوں کی نشستیں جیت کر مسلم لیگ نون کی جھولی میں ڈال سکتے ہیں، ان حلقوں میں مسلم لیگ نون کی اعلیٰ قیادت کو پارٹی ٹکٹ دیتے وقت اعلیٰ درجے کی سیاسی بصیرت اور فہم و فراست سے کا م لینا ہوگا اگر پارٹی ٹکٹ کی تقسیم میں مسلم لیگ نون کی قیادت نے اہلیت اور امید وار کی سیاسی ساکھ کو مد نظر رکھ کر ٹکٹ تقسیم نہ کیے پھر جناب رانا کی پیش گوئی اور جناب شیخ کے ماضی کے ’’ طو طافال ‘‘ کے نتائج یکساں نکل سکتے ہیں ، یعنی مسلم لیگ نون جس طر ح سے ’’ مرزایار ‘‘ خود کو سمجھ رہی ہے زمینی حقائق اتنے بھی مسلم لیگ نون کے لئے موافق نہیں سو مسلم لیگ نون کی قیادت کو پرانا طرزعمل ترک کر کے انتخابی سیاست کے ’’ طور طریقوں ‘‘ کو سامنے رکھ کر ہر حلقے میں امیدوار کھڑ ے کر نے ہوں گے بلکہ قوم کو ایک جامع اور قابل عمل منشور بھی دینا ہوگا ، ہر قدم پر ’’ جم ‘‘ کر اگر مسلم لیگ نون کھیلنے کی خو اپنائی اس صورت جناب رانا کا فرمان سچ ہو بھی سکتا ہے ، دوسری جانب پی پی پی کی قیادت مسلسل کہتی سنا ئی دے رہی ہے کہ مسلم لیگ نون کے لئے راستے آساں کیے جا رہے ہیں جب کہ پی پی پی کے رستے میں کانٹے بچھا ئے جارہے ہیں ، گزشتہ کالموں میں بھی تواتر سے گزارش یہی رہی ہے کہ انتخابات کی شفافیت کے لئے ضروری ہے کہ ہر سیاسی جماعت کے لئے انتخابی مہم اور جیتنے کے یکساں مواقع فراہم ہو ں ، مسلم لیگ نون، پی پی پی، تحریک انصاف اور دوسری سیاسی جماعتوں کو انتخابی معرکہ میں کھل کر مواقع فراہم کیے جا ئیں اب کے بار بھی 18ء کی غلطی آنے والے انتخابات میں دہرا ئی گئی اس سے ملک میں سیاسی استحکام کے بجا ئے سیاسی عدم استحکام کو ہوا ملے گی ، ملک
جمہوریت اور جمہور کی فلاح اور بقا اسی میں ہے کہ ذاتی پسند و ناپسند کو پس پشت ڈال کر تمام سیاسی جماعتوں کو عوام کے پاس جانے کے برابر مواقع ملیں ، ہر سیاسی جماعت عوام کے سامنے اپنے نظریات اور منشور کا پر چار کر ے پھر عوام جس سیاسی جماعت کو چاہیں تخت نشیں کر یں ، گر چہ ماضی میں من پسند اور لاڈ پن سے چند افراد کے تو وارے نیارے ہو ئے لیکن اس طرز عمل سے ملک اور عوام کا اچھا بھلا زیاں ہوتا رہا، سو سیاسی پِچ کی ناہم واری کا گلہ پی پی پی سمیت جو سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں ان کی صدا نہ صرف سنی جائے بلکہ ان کی جائز شکایات کا ازالہ بھی کیا جائے تاکہ آنے والے انتخابات میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے، جو سیاسی جماعت جیتے اس کی جیت پر کو ئی انگلی نہ اٹھائے جو سیاسی جماعت ہارے اسے اپنی ہار پر شائبہ نہ ہو، عام انتخابات کی شفافیت سے دراصل ملک میں سیاسی استحکام آسکتا ہے اور سیاسی استحکام میں ملک اور عوام کی ترقی اور آسانی کا راز مضمر ہے، لگے چند دہائیوں میں ’’ سیاسی ہا ئو ہو ‘‘ سے سیاست دانوں کا شاید اتنا کچھ نہیں بگڑا لیکن سیاست میں بے ہنگم ہلچل سے ملک اور عوام کی حالت زار بہت خستہ تر ہو ئی سو اب ملک اور عوام کے بھلے کا نہ صرف سوچا جا ئے بلکہ عملا ً ملک اور عوام کی فلا ح کی خاطر ٹھوس اقدامات بھی کیے جا ئیں۔

جواب دیں

Back to top button