فلسطین کیلئے مسلم حکمرانوں کی بے بسی

مولانا محمد وقاص حیدر
آج امت مسلمہ ایک بہت ہی اہم سوال کو لے کر اقوام متحدہ کے دروازے پر دستک دے رہی ہے، وہ سوال یہ ہے کہ 1948ء سے پہلے اسرائیل کا وجود کہاں تھا! دوسری عالمی جنگ کے بعدجب خلافت عثمانیہ کا اختتام ہوا تو اس وقت یہودیت اس کوشش میں تھی کہ اس کو اپناقومی گھر بنانے کے لئے دنیا کی کوئی اہم ترین جگہ مل جائے، اسی اثناء میں انہوں نے اپنے عالمی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے بیت المقدس کے آس پاس ڈیرے ڈالنے شروع کر دیئے اور وہاں پر اپنا اثر ورسوخ استعمال کر کے اقوام متحدہ کو راضی کیا اور فلسطین کے ایک کونے میں اپنی جگہ بنا لی،قریباًیہ اس وقت کی بات ہے جب خلافت عثمانیہ کی شکست کے بعد فلسطین کا کنٹرول برطانیہ نے سنبھالا اس سرزمین پر اس وقت یہودی آبادی بہت کم تھی اور عرب اکثریت میں تھے۔وقتاً فوقتاً عرب اور یہودیوں کی آپس میں جھڑپیں ہوتی رہتی تھیں، پھر آہستہ آہستہ اقوام متحدہ کے نام پر یہودیت کے پیروکار خناس صفت انسانوں نے یہ فیصلہ کیا کہ یہودیوں کو مستقل طور پر فلسطین میں ایک حصہ دے دیا جائے جہاں پر وہ اپنے مکروہ عزائم کو پایائے تکمیل تک پہنچا سکیں،یہ لگ بھگ 1920ء سے 1940ء کے درمیان کی بات ہے کہ جب یہودی پوری دنیا بالخصوص یورپین ممالک سے ظالم قسم کے یہودیوں کو وہاں آباد کیا گیا اوران میں وہ لوگ بھی تھے جو دوسری عالمی جنگ میں نازی ہولوکاسٹ سے جان بچا کر بھاگے تھے بہر حال یہ ایک الگ موضوع ہے۔
آخر کار 1947ء میں نام نہاد اقوام متحدہ جو کہ یہودیوں کی کٹھ پتلی تھی بلکہ ہے، اس نے متفقہ طور پر فلسطین میں دوریاستی حل کا نعرہ لگاتے ہوئے یہودیوں کو ایک الگ ریاست بنا کر دے دی اور یہودیوں نے اس ریاست کا نام رکھا اسرائیل،اب فلسطین میں یہودیوں اور عربوں کی دو الگ الگ ریاستیں قائم ہو چکی تھیں۔ اسرائیل 1947ء سے لے کر آج تک فلسطینیوں پر مظالم ڈھارہا ہے۔ اس دوریاستی حل کو یہودیوں نے تو قبول کر لیا تھا لیکن عربوں نے اس کو مسترد کر دیا اور مزاحمت شروع کر دی جس کے نتیجہ میں اسرائیل کو اپنا آپ تسلیم کروانا مشکل ہو گیا، 75سالوں سے پوری یہودیت اس مشن پر کام کر رہی ہے کہ کسی طرح اسرائیل کو اسلامی ممالک میں تسلیم کروا لیا جائے اور اس مشن کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے اسرائیلی یہودیوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر پورے عالم اسلام کی معیشت کو قابو کیا اور مسلم حکمرانوں کو پوری طرح خرید لیا تھا، اکتوبر2023ء میں حماس کے حملے سے پہلے تک عرب شہزادوں کے ساتھ اسرائیلی یہودیوں کے مراسم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، خیر عربوں اور یہودیوں کی لڑائی جو کہ شدت اختیار کر چکی تھی اور اس لڑائی میں لاکھوں فلسطینی شہید بھی ہو چکے تھے اور ہزاروں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کردیا گیاتھا۔1949ء میں جب جنگ بندی ہوئی تو فلسطین کابہت سارا حصہ اسرائیل کے قبضہ میں جا چکا تھا اور اقوام عالم اس سارے تماشے کو خاموش تماشائیوں کی طرح دیکھ رہی تھی یہودیوں نے مسلم حکمرانوں کو معاشی طور پر جکڑلیا تھا اور(مزید جکڑ بھی رہے ہیں) جس کی وجہ سے پوری امت مسلمہ کے حکمران سوائے اس نعرے کے کہ”ہم فلسطین کے ساتھ ہیں“ کچھ نہیں کر سکتے، کیوں کہ یہودیوں کی یہ چال مکمل طور پر کامیاب ہو چکی ہے کہ انہوں نے عالم اسلام کی معیشت کو کنٹرول کر لیا ہے اور اسی کے ذریعے اب وہ بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کرنے جا رہے ہیں۔
اب ان کو مسلم حکمرانوں سے کوئی خطرہ نہیں کیوں کہ اگر وہ کوئی بھی قدم اٹھاتے ہیں تو ان کی لگام کو کھینچ دیا جاتا ہے اور وہ بے بس ہو کر یہودیوں کی بولی بولنا شروع کر دیتے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے سامنے جب اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کی گئی تھی تو انہوں نے بے دھڑک ہو کر کہا تھا کہ اسرائیل ایک ناجائز اورحرامی بچہ ہے اور آج بھی وطن عزیز کی عوام مسٹر محمد علی جناح کے وژن کو لے کر پورے ملک میں احتجاج کر رہے ہیں کہ اسرائیل اور اسرائیلی مصنوعات کو ہمارے حکمران کیوں پرموٹ کر رہے ہیں؟ تو اس بات کا جواب جو کہ ہمارے حکمران زبان حال سے دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ”ہم بے بس ہیں“ اور اسی بے بسی کی آڑ میں اسرائیل کے سفاک یہودی مسلح افواج فلسطینی مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہی ہے۔ہماری جماعت مجلس احرار اسلام روز اوّل سے ہی حکومت الٰہیہ کے قیام کا نعرہ لگاتے ہوئے اس بات مطالبہ دہرا رہی ہے کہ مملکت خداد پاکستان عالم اسلام کی قیادت کرتے ہوئے اسلامی بلاک بنانے کا اعلان کرے تا کہ ہم معاشی طور پر مضبوط ہو سکیں اور سودی و یہودی معاشی نظام سے اپنے آپ کا دامن پاک کر کے اللہ اور اللہ کے رسولﷺ سے کیے گئے جنگ کے اعلان سے جان چھڑائی جا سکے اورمسلم حکمرانوں کی بے بسی کا مداوا بھی ہو سکے۔ لیکن بات وہی ہے کہ ”بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے کون“ اسی بے بسی کو بھانپتے ہوئے ڈاکٹر محمد علامہ اقبال مرحوم نے کہا تھا کہ
؎وائے ناکامی متاع کارواں جاتارہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا۔