تعلیم، ڈگری یا کردار سازی
ڈگریاں تو تعلیم کے اخراجات کی رسید ہیں
علم تو وہی ہے جو کردار سے جھلکتا ہے
ہماری کردار سازی میں تعلیم کی اہمیت کو کسی طور پر بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ علم وہ نور ہے جو ہمیں اندھیرے میں روشنی دکھاتا ہے، علم ہمیں شعور عطا کرتا ہے، سوچنے،سمجھنے، پرکھنے کی حس سے نوازتا ہے، اچھے بُرے کی تمیز اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے، علم ہمیں جینے کے انداز سکھاتا ہے، ہمیں ممتاز بناتا ہے، یہی نہیں علم ہمیں انسانیت کے اعلیٰ درجے پر فائز کرتا ہے، مگر جب ہم تعلیم کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں اساتذہ، تعلیمی نظام اور تعلیمی ادارے آتے ہیں، اگر بات کریں تعلیمی نظام کی تو یہ انتہائی فرسودہ بلکہ بوسیدہ ہو چکا ہے۔ بدلتے وقت کے ساتھ اس نظام میں بھی تبدیلیوں کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہم پڑھی لکھی، قابل اور ہنرمند قوم تشکیل دے سکیں، جو ان تمام مسائل کا بخوبی مقابلہ کر سکے،جو ان کو وقت کے ساتھ درپیش آتے ہیں اور وہ کہیں بھی کسی بھی سطح پر کسی بھی فیلڈ میں مار نہ کھائیں بلکہ اپنے علم اور ہنر سے مشکلات کو مات دے سکیں۔
پرائیویٹ تعلیمی ادارے اکثر فیس لینے کے چکر میں ہوتے ہیں لیکن پھر بھی کچھ بڑے ادارے اپنا نام بچانے کے لئے محنت کرتے نظر آتے ہیں۔ محنت صرف یہاں تک ہوتی ہے کہ غیر نصابی سرگرمیاں زیادہ کی جائیں تاکہ کہہ سکیں کہ ہم کردار سازی اور شخصیت کے نکھار میں اپنا اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور نصاب کو جلد سے جلد ختم کرایا جائے، اس کو یاد کروانا، سمجھانا، لکھنا، پڑھنا سب سکھانا والدین کی ذمہ داری ہوتا ہے، آج کل ہر جگہ چاہے سکول، کالج یا یونیورسٹی ہوصرف اور صرف نمبروں کی دوڑ چل رہی ہے اور رٹہ سسٹم اپنے عروج پر ہے۔ استاد جیسے معزز پیشے کو مذاق بنا لیا گیا ہے۔ اس پیشے کی اہمیت کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ہمارے پیارے نبی کریمؐ کو معلم بنا کر بھیجا گیا۔ استاد کو علم کا خزانہ سمجھا جاتا تھا اور وہ اپنے شاگردوں کو بے لوث علم بانٹتے تھے۔ پھر اسی طرح ان کی عزت و احترام اور تقدس کا معیار بھی ہوتا تھا۔ استاد کے سامنے آنکھ اٹھا کر بات نہیں ہوتی تھی۔ مار بھی کھاتے تھے لیکن اُف تک نہ کرتے تھے۔ والدین بھی اپنا کردار بخوبی نبھاتے تھے کہ استاد غلط ہو ہی نہیں سکتا جبکہ آج جب بچہ کوئی شکایت لے کر آتا ہے تو والدین استاد کی برائی میں زمین آسمان ایک کر دیتے ہیں بلکہ شکایت کا پلندہ اٹھا کر سکول پہنچ جاتے ہیں۔ پھر بدلتے وقت کے ساتھ ترجیحات بدلنے لگیں۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے، کے تحت اب ہر بندہ استاد بننے لگا ہے۔ حال یہ ہے کہ جس کو نوکری نہ ملی وہ استاد بن گیا۔ جب استاد کی بھرتیوں کا یہ معیار ہو گا تو کیسے تعلیم و تربیت ہو گی یہ خود اندازہ لگا لیں۔
اب اگر تربیت کی بات کریں تو والدین کا یہ موقف ہے کہ اتنے مہنگے سکولوں میں بچے کو کیوں ڈالا ہے ہم اتنی فیسیں کیوں بھر رہے ہیں جب سکول والے تربیت نہیں کر سکتے اور سکول والے کہتے ہیں کہ ہم پڑھائیں یا تربیت کریں؟ تربیت والدین کہ ذمہ داری ہے بلکہ سکول میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ بچہ کس گھرانے سے آیا ہے اور اس کی تربیت کیسی کی گئی ہے۔ آج کل ہم بچوں کے دماغوں میں ہوش سنبھالتے ہی یہ بھرتے ہیں کہ پڑھو، پڑھو گے نہیں تو نمبر نہیں آئیں گے، فیل ہو جاؤ گے، افسر نہیں بن سکو گے، تعلیم کا مقصد صرف اچھی نوکری حاصل کرنا ہے اور اس کے بعد ڈھیر سارا پیسہ کمانا ہے، مطلب نمبر پورے آنے چاہئیں، مرو یا جیو سمجھ آئے یا نہ آئے بس رٹہ لگاؤ، امتحان میں اول آؤ اور میرٹ بناؤ کیونکہ اچھے کالج یا یونیورسٹی میں تبھی داخلہ ملے گا، جب میرٹ پر آؤ گے، ورنہ تم ناکام و ناکارہ ہو، نمبروں کی اِس دوڑ میں بچوں کا ذہن مفلوج ہو کر رہ گیا ہے اور وہ چھوٹی سی عمر میں بہت سنجیدہ اور بیمار نظر آتے ہیں۔ ہم بچے کو اس کا بچپن چھین کر ڈھائی سے تین سال کی عمر میں اس کے وزن سے دگنا بھاری بستہ کندھوں پر ڈال کر، فیڈر ہاتھ میں پکڑا کر روتے ہوئے بچے کو سکول میں داخل کروا دیتے ہیں جبکہ اس کی پہلی درسگاہ تو ماں کی گود ہونی چاہیے، بس وہیں سے مقابلہ شروع ہو جاتا ہے، مقابلہ آگے بڑھنے کا، نمبر زیادہ لینے کا، لیکن یہ کوئی نہیں سوچتا کہ اُس ننھی سی جان پر کیا گزر رہی ہے۔
بچے پر پڑھائی کا اس قدر دباؤ ہوتا ہے،سکول سے آ کر ہوم ورک کرنا، سبق یاد کرنا، اس سارے میں وہ ہنسنا، بولنا، کھیلنا ہی بھول جاتا ہے۔ ان حالات میں جو چیز سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے وہ ہے کردار سازی، بچے کی تربیت، بچہ رٹہ مار کر نمبر تو حاصل کر لیتا ہے لیکن اس کی شخصیت میں خلاء رہ جاتا ہے اس محبت کا، وقت کا جو وہ اپنے بزرگوں کے ساتھ گزارتا اور رشتوں کی چاشنی کو محسوس کرتا، بات کیسے کرنی ہے، اُٹھنا بیٹھنا، چھوٹوں، بڑوں، بزرگوں، رشتے داروں، محلے داروں اور اجنبی لوگوں سے کیسے ملنا ہے، بات کرنی ہے، رکھ رکھاؤ کیسے کرنا ہے، تہذیب، سلیقہ سب ناپید ہو تا جاتا ہے۔
آپ نے سنا ہو گا جتنی بڑی دکان اتنا ہی پھیکا پکوان، جی بالکل اسی طرح جتنا بڑا اور مہنگا سکول اتنے ہی طلباء بدتمیز اور بد تہذیب نظر آتے ہیں کیونکہ درسگاہوں میں کردار سازی نہیں کی جاتی بس نصاب ختم کروانے کی دوڑ ہوتی ہے تاکہ جو فیس وہ لے رہے ہیں یا والدین کو سبز باغ دکھا رہے ہیں ان میں سرخرو ہو سکیں۔ تعلیمی نظام جو کسی بھی معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے اس کے حالات اس قدر کشیدہ، مایوس کن ہیں تو خود سوچیں کہ ہمارا اور ہمارے ملک کا مستقبل کیسے نوجوانوں کے ہاتھ میں ہو گا۔ یہ جو معاشرے میں بگاڑ دیکھنے کو مل رہا ہے، یہ سب اسی کی بدولت سے ہے کہ ہم تربیت پر نہیں صرف ڈگری کے حصول کے لئے تگ و دو کر رہے ہیں۔ ہم بات کو سمجھنے کے لئے نہیں بلکہ سامنے والے کو منہ توڑ جواب دینے کے لئے سنتے ہیں۔ بات بعد میں کرتے ہیں اور گالم گلوچ، لڑائی جھگڑا پہلے کرتے ہیں، گریبان پکڑنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے، توں تاں کر کے بات کرنے اور منہ پھٹ جواب دینے کو ہم اپنی شان سمجھتے ہیں۔ درگزراور مصلحت کے تحت خاموش ہو جانا، بڑوں اور بزرگوں کو عزت دینا ہم نے اپنے بچوں کو سکھایا ہی نہیں۔ ہم نے سکھایا ہے تو جواب دینا، اپنے مطلب کے لیے جھوٹ بولنا، لڑنا، پیسے کی پوجا کرنا، عزتوں کے ساتھ کھیلنا، کسی کی کمزوری سے فائدہ اٹھانا اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے دوسروں کا حق غضب کرنا۔
تعلیم یافتہ، سمجھدار ہونے کے باوجود قانون توڑنا، سڑک پر چلتی گاڑی سے کوڑا کرکٹ باہر پھینکنا، تھوکنا، جگہ جگہ گندگی کا ڈھیر لگانا، اپنی غلطی یا گناہ کی ذمہ داری قبول نہ کرنا،وعدہ خلافی کرنا، دوسروں پر الزام عائد کرنا، لوگوں کی عزت اورپگڑی اچھالنا، ہماری روش بنتا جا رہا ہے۔ یہی ہمارے سیاستدان،قانون دان اور افسران کرتے ہیں۔ اپنی جیبیں گرم کرنا اور لوگوں کا حق مارنا، ان کے خون پسنے کی کمائی پر قبضہ جمانا، دلیری سے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ میں تبدیل کرنا، سارا کا سارا معاشرہ ایک ہی ڈگر پر چل رہا ہے، کوئی اپنا فرض نبھانے اور ذمہ داری اٹھانے کو کسی کے راز کی پاسداری کرنے کو تیار نہیں بلکہ اس کو اچھالنے اور وائرل کرنے میں ہی فخر محسوس کرتے ہیں۔
پہلے پڑھے لکھے شخص کو اس کی نفاست اور انفرادیت کی بدولت ہم مجمع میں بھی پہچان لیتے تھے لیکن اب حال یہ ہے کہ تہذیب چھو کر بھی نہیں گزرتی، کسی کی شکل پر نہیں لکھا ہوتا کہ کتنا اور کہاں سے پڑھا ہے،یا کس گھرانے سے تعلق ہے، بلکہ ہمارا اٹھنا، بیٹھنا، بات کرنے کا سلیقہ، اخلاق و کردار، شخصیت کی جازبیت، پہننے،اوڑھنے کا ڈھنگ، رویہ اور برتاؤ بتاتا ہے کہ ہمارا تعلق کس خاندان سے ہے اور تربیت کن بنیادوں پر کی گئی ہے۔
تعلیم کا مقصد ڈگری کا حصول نہیں بلکہ کردار سازی اور شعور کی منزلیں طے کرنا ہونا چاہیے، کیونکہ تعلیم کی شمع ہی شعور اور آگاہی فراہم کرتی ہے۔ انسان کے کردار کو اپنے نور سے نکھارتی ہے، علم تو ہمیں دانائی اور طاقت ور ہونے کے درجے پر فائز کرتا ہے۔ ہم تعلیم یافتہ اور ڈگری یافتہ تو ہو گئے لیکن انسانیت کی قدروں اور معیار سے گر گئے ہیں۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ کے بقول: علم تلوار سے زیادہ طاقتور ہے۔
ہم اسناد، ڈگریوں کا ڈھیر اس لئے لگاتے ہیں کہ دوسروں پر اپنی معتبری ثابت کر سکیں، انگریزی بول کر رعب جھاڑ سکیں، لوگوں کو مرعوب کر سکیں، دولت کا ڈھیر لگا سکیں، ملک سے باہر جا سکیں تاکہ اپنے ملک کے مسائل سے فرار حاصل کر سکیں۔ اب وقت کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی سوچ کواوراپنے فرسودہ تعلیمی نظام کو تبدیل کریں اور یہ کام ہم سب نے مل کر کرنا ہے، ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہماری دولت، ہمارا جمع کیا گیا مال و زر سب اسی دنیا میں رہ جائے گا یاد رہے گا تو ہمارا کردار جو مر کر بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ رہے گے۔ تعلیم یافتہ ہونے سے زیادہ انسان اور انسانیت کا ہونا ضروری ہے۔
بقول علامہ اقبال:
منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر
مل جائے تجھ کو دریا تو سمندر تلاش کر
طلباء ہی پاکستان کا مستقبل اور معمار ہیں، اگر ان کی تربیت اعلی معیار پر نہیں ہو گی تو ہماری آنے والی نسلیں بھی تباہ ہو جائیں گی۔ نظام تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے تمام اداروں، والدین اور حکومت کو مل کو کام کرنا ہو گا ورنہ تعلیم یافتہ معاشرہ ڈگریاں ہاتھ میں پکڑ کر تباہی کے دھانے پر آ کھڑا ہو گا اور پھر پچھتاوے کے سوا ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں آئے گا۔