وہی روایت وہی حربے
احمد خان
سیاست کے سرخیل اپنے مفادات کو مقدم اور اپنے نظریات کو پس پشت ڈال کر پھر سے اُڑان بھر رہے ہیں، سچ پو چھئے تو پاکستانی سیاست فصلی بٹیروں کے ہاتھوں یر غمال بن چکی، سن تیرہ کے انتخابات کا معرکہ ہو یا اٹھارہ کے اعصاب شکن انتخابات یا پھر حالیہ انتخابات کا معاملہ، عام انتخابات میں فصلی بیٹروں کے سب سے زیادہ وارے نیارے رہے، یہ سیاسی فصلی بٹیرے اقتدار کی بُو قبل از وقت ہی سونگھ لیتے ہیں، جیسے سیاست کے یہ ابن الوقت محسوس کر تے ہیں کہ فلا ں سیاسی جماعت کے سر پر اقتدار کی پگ سجنے کے قوی امکانات روشن ہیں، یہ سیاست دان اپنی پرانی سیاسی وفاداریوں کو بائے بائے کہہ کر اس سیاسی جماعت کے مجاور بن جاتے ہیں، عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے ساتھ ذاتی مفادات کی خاطر سیاسی وفاداریاں بدلنے والوں کی پھر سے چاندی ہو گئی، رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے اور پس ماندگی کے حوالے سے پہلے نمبر پر بلو چستان سیاسی وفاداریاں بدلنے کے حوالے سے اب تو شہرت کی بلندیوں کو چھو نے لگا ہے، بلو چستان کے سیاست دان جو ہمیشہ سے بلو چستان کی پس ماندگی کے نام پر خوب واویلا کر تے رہتے ہیں، اقتدار میں آنے کی خاطر بلو چستان کے کوچہ سیاست کے دل بر اقتدار کے حصول کے لیے بلو چستان کی پس ماندگی اور اپنے نظریات کو ردی کی ٹوکری کی نذر کر کے سیاسی وفاداریوں کو بدلنے میں پل کی دیر نہیں لگا تے۔
گزرے ماہ و سال میں بلو چستان کی سیاست کے یہ امام کس کس طر ح سے اپنی سیاست کا قبلہ بدلتے رہے، اس کی نظیر نہیں ملتی، اب جیسے ہی سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوا،بلو چستان کی سیاست کے اماموں نے پھر سے اُڑان بھر نے شروع کر دئیے، اس وقت کی بظاہر سیاست کی تگڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ نون کو بلو چستان کے نامی گرامی سیاست پیارے ہو چکے، کم و پیش باقی تین صوبوں میں بھی ادل بدل کی ہوا تیز ہو تی جارہی ہے، ذاتی مفادات کے اسیری کے حوالے سے شہرت پانے والے سیاست دان خود کو اقتدار کا پر زہ بنا نے کے لیے ہا تھ پا ؤں مار نے میں مگن ہیں، بہت سوں نے اپنا اپنا سیاسی بسیرا تبدیل کر لیا اور جو رہ گئے وہ اپنے مطلب کی سیاسی جماعت کی طرف اڑان بھر نے کے لیے تیاریوں میں ہیں۔
درا صل لمحہ فکریہ بڑی سیاسی جماعتوں کے لیے ہے جن کی قیادت نے اپنے اپنے ماضی سے سبق حاصل نہیں کیا، ہر سیاسی جماعت سیاست کے انہی فصلی بیٹروں پر تکیہ کر تی رہی اور مشکل وقت میں سیاست کے انہی فصلی بٹیروں نے بڑی سیاسی جماعتوں کی پیٹھ میں خنجر گھو نپا، پی پی پی کے اقتدار کے دنوں میں سیاست کے یہ ”طرم خاں“ پی پی پی کے ساتھ تھے، جیسے ہی پی پی پی کا اقتدار ختم ہوا یہ ”طرم خاں“ پی پی پی سے منہ پھیر چکے، اسی طر ح کے سانحہ سے مسلم لیگ نون کو ماضی قریب میں گزرنا پڑا، تحریک انصاف کی ”سیاسی مشہوری“ جس وقت چہار سو تھی مفادات کے اسیر طرم خان عین اسی طر ح سے تحریک انصاف میں شامل ہو ئے، حسب روایت جیسے ہی تحریک انصاف کا اقتدار اپنے انجام کو پہنچا سیاست کے ان ”مہر بانوں“ نے تحریک انصاف کو خدا حافظ کہنے میں دیر نہیں لگائی، سیاست کے ان ”طرم خانو ں“ کی اس ادل بدل نے پورے ملک کی سیاست کو مفادات کی ٹوکری میں تبدیل کر دیا، ہر بڑی سیاسی جماعت اقتدار میں آنے کے لیے عوام پر تکیہ کر نے کے بجا ئے ان سیاست دانوں کو ”ڈارلنگ“ بنا نے کی خو بو اپناتی ہے، ہر بار سیاسی جماعت بدلنے والوں کے سہارے بڑی سیاسی جماعتیں گر چہ اقتدار تو حاصل کر لیتی ہیں لیکن اقتدار میں آنے کے بعد یہ بڑی سیاسی جماعتیں ان ”ڈارلنگ سیاست دانوں“ کے ہاتھوں یر غمال بن جاتی ہیں، پانچ سال کے اقتدار میں ہو نا تویہ چاہیے کہ حکمراں جماعت عوام کی خدمت کے باب میں ریکارڈ پر ریکارڈ قائم کرتی لیکن ایسا نہیں ہوتا۔
حکمراں جماعت ان ”مہمان“ سیاست دانوں کے ہاتھو ں بلیک میل ہوتی ہے، اقتدار کے دوام کی خاطر حکمراں جماعت اپنے اتحادیوں کے مفادات کو پورا کر نے میں اپنی ساری توانائی صرف کر دیتی ہے، جہاں تلک عوام کا تعلق ہے عوام کے مسائل اور مصائب کے حل کے نعروں پر اقتدار میں آنے والی حکمراں جماعت عوام سے کامل طور پر بے نیاز ہو تی ہے، اصل المیہ کیا ہے، جب تک وطن عزیز کی سیاست میں جو ڑ توڑ کی سیاست کا خاتمہ نہیں ہوتا جب تک بڑی سیاسی جماعتیں اقتدار کے حصول کے لیے کامل طورپر عوام پر بھروسہ کر نے کی خو نہیں اپنا تیں اس وقت تک نہ تو ملک میں جمہوریت صحیح معنوں میں مستحکم ہو سکتی ہے نہ ہی عوام کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ چاہے جتنے بار انتخابات کروالیجیے محض انتخابات کروانے سے نہ تو ملک کی ترقی ممکن ہے نہ عوام کے مصائب انتخابات کروانے سے حل ہو سکتے ہیں، جمہویت کو عوام کے تابع کیجیے پھر دیکھئے کیسے عوام کے مسائل حل ہو تے ہیں۔