اربوں ڈالر سے بننے والی موت کی شاہرائیں

ملیحہ سید
ہفتے میں دو یا تین بار صبح گھر سے آفس جاتے ہوئے فیروز پور روڈ خاص طور پر جنرل ہسپتال کے آس پاس سے گزرتے ہوئے دو تین ٹریفک حادثات نظروں سے گزرتے اور دل دھلا کر رکھ دیتے ہیں۔فوراً سے بیشتر بھتیجے کا صدقہ دیتے ہوئے اگلا سفر شروع کرتی ہوں اور شاید ایسے واقعات لاہور کی ہر دوسری سڑک پر ہوتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک خطرناک کار حادثہ گذشتہ دنوں لاہور کے علاقے ڈیفنس فیز سیون میں رات کے وقت پیش آیا۔جب کار کے ذریعے کرتب دکھانے والے نوجوان ڈرائیور سے گاڑی بے قابو ہو گئی اور سامنے سے آنے والی کار سے ٹکرا گئی۔ریسکیو سروس نے تمام چھ افراد کو طبی امداد کے لیے فوری طور پر قریبی ہسپتال منتقل کیا مگر وہ جانبر نہ ہو سکے۔ریسکیو حکام کے مطابق جاں بحق ہونے والوں میں 45 سالہ رخسانہ، 4 سالہ عنابیہ، 4 ماہ کا حذیفہ، 27 سالہ محمد حسین، 30 سالہ سجاداور 23 سالہ عائشہ شامل ہیں۔حادثہ ڈرائیور کی تیز رفتاری، غفلت اور زگ زیگ کے باعث پیش آیا، ڈرائیور کی شناخت افنان شفقت کے نام سے ہوئی جو خود ابھی آٹھویں جماعت کا طالب علم ہے۔ پولیس نے ڈرائیور کو حراست میں لے کر مقدمہ درج کرلیا، پولیس نے حادثہ کا باعث بننے والی گاڑی کو بھی تحویل میں لے لیا۔جاں بحق ہونے والے افراد کی تدفین کی جا چکی ہے مگر اس کم عمر ڈرائیور کی غفلت، لاپرواہی یا پھر بڑوں کی بگڑی ہوئی اولادیں خاندان کے خاندان اجاڑ کر رکھ دیتی ہیں۔
پاکستان میں ہر پانچ منٹ میں ایک شخص ٹریفک حادثے کا شکار ہو جاتا ہے، عالمی ادارہ صحت کے مطابق ملک میں ٹریفک حادثات کے باعث سالانہ 28 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوتے ہیں۔روڈ سیفٹی کے حوالے سے پاکستان کا شمار بد ترین ممالک کی فہرست میں نمایاں ہے،نیشنل ٹرانسپورٹ ریسرچ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں زیادہ تر ٹریفک حادثات انسانی غلطی کی وجہ سے ہوتے ہیں، جس میں ڈرائیورز کی غفلت سب سے نمایاں ہے۔سب سے زیاد ہ ٹریفک حادثات خیبر پختون خوا، اس کے بعد پنجاب، اسلام آباد اور پھر سندھ میں رپورٹ ہوتے ہیں، مگر اندرون سندھ میں حادثات کی بڑی وجہ سڑکوں کی خستہ حالت ہے۔اس حادثہ کے بعد ایک بار پھر سے قیمتی و ننھی جانوں کے تحفظ کے پیش نظر کم عمر ڈرائیورز کیخلاف کریک ڈاؤن کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ننھی اور قیمتی جانوں کے تحفظ کے پیش نظر شہر میں 190 مقامات پر ناکہ بندی کی گئی اور 18 سال سے کم عمر ڈرائیونگ پر گاڑی موٹرسائیکل چلانے پر تھانے میں بند کیے گئے، اس کے علاؤہ بھاری جرمانے کا حکم بھی دیا گیا۔سی ٹی او لاہور مستنصر فیروز کے مطابق شہر بھر میں بغیر ہیلمٹ موٹرسائیکلسٹ کے خلاف سخت کارروائی کی جا رہی ہے، حادثات کی وجوہات میں بڑی وجہ کم عمری میں موٹرسائیکل،گاڑی چلانا ہے، کم عمری میں ڈرائیونگ کرنے سے حادثات کا اندیشہ رہتا ہے۔سی ٹی او لاہور کا کہنا ہے کہ والدین دیا رکھیں اپنے بچے کی حادثاتی نقصان کے والدین خود ذمہ دار ہوں گے، چھٹی کے روز بچوں کی بڑی تعداد موٹرسائیکل، گاڑی و دیگر وہیکل لیکر سڑکوں پر دندناتی پھرتی ہے۔ 18 سے کم عمر ڈرائیونگ پر بچوں کے مستقبل کے پیش نظر انہیں بند نہیں کیا جائے گا،والدین ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔
ایک رپورٹ کے مطابق لاہور میں رواں سال اسی ہزارسے زائد ٹریفک حادثات کے دوران تین سو پینتالیس افراد جاں بحق ہوئے،ان میں سب سے زیادہ موٹرسائیکل سوار شامل ہیں۔ حکام نے 50 مقامات کو ہاٹ سپاٹ قرار دیکر حادثات کی دو بڑی وجوہات کا تعین کیا،حادثات کے حوالے سے ہاٹ سپاٹ قرار دیئے جانے والے سرفہرست پانچ علاقوں میں نشترکالونی،کاہنہ، ملتان روڈ، ہربنس پورہ اور ٹاؤن شپ شامل ہیں۔ کشادہ سڑکوں اور انڈرپاسز کے شہر میں پچاس مقامات کو ہاٹ سپاٹ قرار دیکر ٹریفک پولیس اس نتیجے پر پہنچی کہ ون وے کی خلاف ورزی اور روڈانجینئرنگ میں نقائص دو ایسی وجوہات ہیں جو حادثات میں مسلسل اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ ہاٹ سپاٹس پر نوے فیصد حادثات ون وے اور دیگر خلاف ورزیوں پر ہوئے ٹریفک پولیس حکام کے مطابق شہریوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ستر لاکھ وہیکلز کے شہر لاہور میں ایک دن میں اوسطاً 255 ٹریفک حادثات ہوئے۔ ریسکیو ذرائع کے مطابق خونی سڑکوں پر ہر ایک منٹ پچیس سیکنڈ بعد ایک حادثہ ہو رہا ہے۔ سیف سٹی اتھارٹی نے ای چالاننگ فعال ہوتے ہی ایک دن میں ٹریفک قوانین کی ایک لاکھ گیارہ ہزار خلاف ورزیوں کو مانیٹر کیا۔ٹریفک پولیس کے مطابق حادثات کی شرح میں کمی لانے کے لیے ایل ڈی اے اور متعلقہ محکموں کو روڈ پراجیکٹس میں نقائص کی نشاندہی کر دی گئی ہے،شہری حادثات سے بچنے کے لیے قوانین پر ہر صورت عمل کریں۔
پاکستان میں گاڑیوں کی تعداد میں 1.5 لاکھ تک اضافہ ہوچکا ہے جب کہ 2030 تک ان گاڑیوں کی تعداد 18 لاکھ تک پہنچ جانے کا امکان ہے۔ پورے ملک میں بڑھتی ہوئی گاڑیوں کی وجہ متعارف کروائی جانے والی وہ مختلف اسکیمیں اور پیکجز ہیں جن کے ذریعے آسان اقساط پر گاڑی و موٹرسائیکل بہ آسانی مل جاتی ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان میں بڑھتی ہوئی گاڑیاں سڑکوں پر ٹریفک حادثات کی شرح میں اضافہ کا سبب ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں سالانہ 35 ہزار لوگ ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہوجاتے ہیں جب کہ 50 ہزار سے زائد افراد زخمی اور عمر بھر کی معذوری سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ حکومتی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر پانچ منٹ کے بعد ٹریفک حادثہ پیش آتا ہے جس میں کوئی نہ کوئی شخص زخمی یا جاں بحق ہو جاتا ہے۔ اگر مختلف صوبوں میں ٹریفک حادثات کی صورت حال دیکھی جائے تو ادارہ شماریات نے پاکستان کے چاروں صوبوں میں 2018-2017 کے کُل حادثات کی تفصیل کچھ اس طرح بیان کی جس میں صوبہ پنجاب میں کُل 5093 حادثات ہوئے جن میں 3371 لوگ جاں بحق، 6772 افراد زخمی ہوئے۔ سندھ میں کُل 848 حادثات ہوئے، جن میں 802 جاں بحق جب کہ 838 افراد زخمی ہوئے۔ خیبر پختون خوا میں کُل 4425 حادثات ہوئے جن میں 1298 جاں بحق جب کہ 6093 افراد زخمی ہوئے، بلوچستان میں 1496 حادثات ہوئے جن میں 313 لوگ جاں بحق اور 624 لوگ زخمی ہوئے اور اسلام آباد میں 259 حادثات ہوئے جن میں 167 لوگ جاں بحق جب کہ 162 لوگ زخمی ہوئے۔ ان حادثات کا تجزیہ کیا جائے تو ان حادثات میں پنجاب سرفہرست ہے کیوں کہ وہاں آبادی باقی صوبوں کی سے زیادہ ہے۔
نیشنل روڈ سیفٹی کے اندازے کے مطابق 2020 میں پاکستان میں سڑکوں پر ہونے والے حادثات 77 فی صد تک بڑھے، اگر حادثات کو روکنے کی کوئی حکمت عملی پیش نہ کی گئی تو پاکستان میں ان حادثات کی تعداد 2030 میں 200 فی صد تک بڑھنے کا خدشہ ہے۔واضح رہے کہ یہ ٹریفک حادثات صرف انسانی جان ہی نہیں لیتی، بلکہ یہ ملکی معیشت پر بھی ایک بوجھ بنتی ہیں، پاکستان میں ہر سال 9 ارب ڈالر سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی وجہ سے زخمی ہونے والے افراد کی طبی امداد اور تباہ حال گاڑیوں کی مرمت میں خرچ ہو جاتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹریفک حادثات کے بڑھنے کا سبب ٹریفک قوانین سے عدم واقفیت، لاپرواہی، گاڑیوں میں ہونے والی تکنیکی خرابیاں ہیں، تاہم ڈرائیورز کی لاپرواہی و غفلت گاڑیوں کی تکنیکی خرابی سے زیادہ خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔