آج کے کالممحمد عثمان کھوکھر

سامراج کا غنڈہ

عثمان کھوکھر

کیا تمام سر برابر ہیں تمہاری دو آنکھیں اور وہ تمہارا چہرہ۔کوئی دوسرا اس کے متبادل ہو سکتا ہے؟ تمہاری مسکراہٹ تمہارے ہونٹ اور تمہارے وجود کی خوشبو۔ کسی دوسرے کے لمس میں کیسے سما سکتی ہے یہ کوئی شاعرانہ خیال نہیں؟ اجتماعی طور پر مظلوم فلسطینیوں کے کرب و الم کے وہ ماتمی جذبات ہیں جنہیں میں محسوس کر رہا ہوں۔ آج مجھے اس کالم میں اس بچے کا ذکر نہیں کرناجس کا باپ اسرائیل کے حملے میں آخری سانسیں لے رہا ہے اور اس کا بیٹا عبداللہ اسی حملے میں زخمی ایک ٹانگ سے محروم ہو کر اپنے دم توڑتے باپ کے چہرے کے بوسے لے رہا ہے، جبکہ اس کی بائیں جانب اوندھی پڑی اس کی ماں کے سر سے بہتا لہو معذور عبداللہ کے پاؤں پر جم چکا ہے۔ ممکن ہے یہ مظلوم ماں کا وہ آخری بوسہ ہو جو وہ اپنے بیٹے کو دنیا سے جاتے ہوئے دینا چاہتی ہو۔
میں سمجھتا ہوں سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر بے موت مرتے فلسطینیوں کے اعداد و شمار کا ذکر بھی فضول ہے کہ اتنے فلسطینی مارے جا چکے، اتنے بچے بھوکے ہیں اور کتنی ہی عورتیں ہیں جو بیوہ ہو گئیں۔ گر تمہارا دل ایک ناحق خون پر نہیں روتا تو پھر ہزاروں لاکھوں بھی مر جائیں تو کیا فرق پڑتا ہے۔ میری آنکھیں منافق چہروں سے اور میرے کان ان خود ساختہ لیڈروں کے قیام امن کے راگ اور بیانات سے بیزار ہو چکے ہیں۔ کوئی شک نہیں عالمی سامراج کی امن و سلامتی کی آرزو اک خواہش اور دعوے کے سوا کچھ نہیں۔ پھر بھی اس میں کچھ ہے تو وہ زبانی دعوے ہی دعوے ہیں۔ جو وہ مسلسل الاپتے جا رہے ہیں، اور ہم سادہ دل یقین کیے بیٹھیں آج نہیں تو کل۔کبھی کوئی درخت جڑ کے بغیر بھی شاخ در شاخ پھیلا ہوا دیکھا ہے آپ نے؟ گر ایسا نہیں تو پھر جان رکھیے امن و سلامتی کی جڑ اور بنیاد عدل اور مساوات ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک امن و سلامتی کی فضاء قائم نہیں کر سکتا، جب تک اس میں عدل نہ ہو، قانون برابری اور وسائل سب کے لیے ایک جیسے نہ ہوں۔ گر ایسا کچھ بھی نہ ہو اور آپ پھر بھی امن و سلامتی کا دعویٰ کریں،تو یہ دعویٰ سراسر غلط اور منافقت ہے جو ہر آنے والے دن کے ساتھ نمایاں سے اور نمایاں ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے لیے کسی مثال کی بھی ضرورت نہیں کیا ہم نہیں جانتے یا ہم نے دیکھ نہیں رکھا؟
کسی امریکی کا کتا بھی مر جائے تو یہ عالمی امن کے داعی اور اقوام متحدہ اور اس جیسی تمام تنظیمیں کتنے کتنے دن اس کی یاد میں شمعیں روشن کیے رکھتی ہیں، اور دوسری طرف ظلم و زیادتی کی لال و سرخ آندھیاں چل رہی ہیں، اور ان سرخیوں میں سارے کا سارا لہو مسلمانوں کا ہے کہیں کوئی آواز نہیں کہیں کوئی ضمیر زندہ نہیں ہو رہا۔ سب کے سب روایتی بیان قیام امن کا راگ الاپتے جا رہے ہیں، اور ظالم اپنی شیطنت بربریت کے ساتھ آگے ہی آگے بڑھتا جا رہا ہے، اور المیہ یہ ہے کہ عالمی غنڈہ بضد ہے کہ یہ تمام تر کارروائی قیام امن کے لیے کی جا رہی ہے اور اس ظلم و زیادتی کی فضاء کے موجب بھی یہی مسلمان ہیں۔
ظالم کی عجیب فطرت ہوتی ہے یہ اپنی عادت اور فطرت میں ایک جیسا ہوتا ہے، آج سے چودہ سو سال پہلے قیام امن کی وہ تازہ اور توانا آواز جو فاران کی چوٹیوں سے اپنے کردار کی دلیل کے ساتھ بلند ہوئی دیکھنے والی آنکھ اور سننے والے کان اس کے عدل اور انصاف کو دیکھنے سننے کے بعد تسلیم کرنے لگے تو اس وقت کے سامراج کو اپنی حکومت اور طاقت جاتی نظر آئی تو اس نے امن،سلامتی، محبت، آشتی، رواداری کی اس توانا آواز کو نقص امن کا نام دے کر پہلے پہل مال دولت حکومت اور عورت کا لالچ دینے کی ناکام کوشش کی جب اس میں کامیاب نہ ہوئے توجان کے دشمن بن گئے اور یہی نہیں تمام وسائل اور جینے کے تمام اسباب چھیننے کے درپے ہوگئے، ایسے میں اس سماج کا ساہو کار سامراجی غنڈہ کعب بن اشرف یہودی جس کے سودی نظام اور کاروبار سے تمام لوگ اور قبیلوں کے سردار اس کے مقروض تھے وہ یہودی مدینہ سے نکل کر مکہ پہنچا اور مشرکین مکہ سے مذاکرات کے بعد مدینہ پر حملہ کرنے کی باقاعدہ دعوت اور مدد کی یقین دہانی کروائی اور پھر لوٹ کر آیا تو اپنے سودی کاروبار اور اپنی عشقیہ شاعری میں انصاری عورتوں کے نام لے لے کر تکلیف پہنچانے لگا، مقصد کچھ اور نہیں شرارت اور فتنے کو ہوا دینا تھی میں کہہ رہا تھا ظالم اپنی فطرت اور عادت میں ایک جیسا ہوتا ہے۔
تاریخ کے اوراق میں دو عالمی جنگوں اور بالخصوص جنگ دوئم میں کس کی سازشیں اور مفادات تھے وہ تاریخ کا علم رکھنے والے خوب جانتے اور سمجھتے ہیں، میرا یہاں سوال ہے خاص طور پر مشرق وسطی پر حملے کس نے کیے اور کس نے کروائے صلیبی جنگوں کا وہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ کم و بیش چار سو سال قتل و غارت کا بازار گرم رکھا گیا مال لوٹا گیا عزتیں پامال ہوئیں اور یہاں تک کے ملک کے ملک لوٹ لیے گئے۔
آخر یہ سب کرنے والا کون تھا، سیدھی اور صاف بات ہے اس وقت کا سامراج اور آج جو ظلم و زیادتی کی فضاء قائم کر دی گئی ہے اس کے پیچھے کوئی مسلمان نہیں آج کا سامراج
ہے۔مزے کی بات ہے کہ ہر دور کے سامراج کا یہ سامراجی غنڈہ اپنے مفاد کے حصول کے لیے اپنا ساہو کاری نظام استعمال کرتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ سے پہلے یورپ کا مزاج یہودیوں کے لیے کس قسم کا تھا، وہ ان سے نفرت کرتے تھے اور یہاں تک کہ ان کو اپنے اندر برداشت نہیں کرتے تھے، لیکن دو سامراج قوتوں کے اوپر اس سامراجی غنڈے نے کچھ اس طرح کی چال چلی کے دونوں قوتیں آمنے سامنے ہتھیار لیے قتل و غارت کرنے لگیں اور ان دونوں کو مالی معاونت کرنے والا ساہور کار کوئی اور نہیں یہی سامراجی غنڈہ تھا۔
میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ یہ سامراجی غنڈہ ہر دور میں چال چلتا آیا ہے اور اس کی کوئی اور وجہ نہیں، مسلمانوں سے وہ حسد اور نفرت ہے، جس کا چناؤ رب العالمین نے کیا، اس لیے جب یہ مدینہ میں تھا تو اس نے مکہ کے مشرکین کے ساتھ اتحاد کیا، اور آج کے دور کا یہ سامراجی غنڈہ ایک بار پھر مشرک مودی کے ساتھ مل کر کشمیر اور فلسطین پر خون کی ہولی کھیلنے میں مصروف ہے، لیکن تمہارے میزائل سے گرتی عمارتیں اور اس میں دم توڑتے مسلمانوں کے لاشے، مرنے سے پہلے پیچھے والو ں کے لیے ایک پیغام دے کر مرتے ہیں اور یہ دیکھو عبداللہ کا باپ کہہ رہا ہے۔ میرے معذور بیٹے تم خبیب و زید کے وارث ہو، تمہیں سولی چڑھایا جائے گا تمہاری موت کو تماشہ بنایا جائے گا، لیکن تم اس سامراجی غنڈے کے سامنے خبیب کی طرح کھڑے رہنا، یہ گولیوں سے تمہارا جسم چھلنی چھلنی کریں گے لیکن تم زید کی طرح استقامت دکھانا، یہ سامراج اور اس سامراج کے نام نہاد دانشور تمہاری حریت تمہاری جرأت کو بے وقوفی گردانیں گے، مگرمیرے بیٹے عبداللہ یاد رکھنا، یہ بے وقوفی نہیں یہ خود ارادیت ہے اور میرے بیٹے تم جانتے ہو خود ارادیت کیا ہے؟خود ارادیت محمد بن مسلمہ ہے، ہاں وہی محمد بن مسلمہ، جس نے سامراج کے سامراجی غنڈے کعب بن اشرف کو سات پہرا بندیوں میں بھی مار ڈالا تھا، میرے بیٹے وعدہ کرو!۔ کیا تم نے دیکھا نہیں کیا تم نے سنا نہیں فلسطینی بچے ان کے جوان اور معذور عبداللہ۔ ہاتھ میں پتھر لیے تمہارے ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہیں کشمیریوں کے بچے جوان تمہاری گولیوں کے سامنے کھڑے ہیں۔خود ارادیت کے اس فیصلے نے عالم اسلام اور مسلم امہ کا درد جگا دیا ہے فیصلہ کن بیٹھکیں ہور ہی ہیں اور ایک ہی رات میں یمن کے میزائل اور راکٹوں نے جدید ٹیکنالوجی رکھنے والے سامراجی غنڈے کی نیندیں اڑا دی ہیں۔
تازہ اطلاع کے مطابق یمن اور حماس نے مل کر اسرائیل کا اینٹی میزائل آئرن ڈوم ہیک کر لیا ہے، گر یہ بات سچی ہے تو پھر خود ارادیت کی یہ جنگ سامراج اور سامراجی غنڈے کے خاتمے پر ہی ختم ہوگی!میرا شعور اسے مسلم اور صہیونی جنگ نہیں مانتا یہ انسانیت کی جنگ ہے، یہ سامراج قوتوں کے سامراجی غنڈے کے خلاف خود ارادیت کی وہ جنگ ہے، جو در حقیقت نیو ورلڈ آرڈر اور اس نظام کے خلاف جنگ ہے جو انسان سے اس کی جمہوری مدنی لسانی مذہبی اور شہری آزادی چھین لینا چاہتاہے۔ گر ہم سامراجی غنڈے کے خلاف کا میاب ہو گئے تو بطور سند لکھ رکھیے، انسانیات اور انسانیت اگلے کئی سو سال فتنوں اور جنگوں سے محفوظ رہے گی۔ گر خدا نخواستہ اس جنگ میں سامراجی غنڈہ جیت گیا تو پھر شیطنت اور بربریت کا ننگا ناچ ہوگا اور دنیا کا نقشہ بدل جائے گا۔
خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button