ایلون مسک کی امریکا پارٹی الیکشن جیتے بغیر بھی ٹرمپ کیلئے خطرہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایلون مسک کی نئی سیاسی جماعت بنانے کے منصوبے کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے نظرانداز کر دیا ہے، لیکن امریکی ارب پتی کے اعلان سے کانگریس میں اپنی معمولی اکثریت بچانے کی کوشش کرنے والے ریپبلکنز کے لیے خطرہ نمایاں ہوگیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق مسک نے اختتامِ ہفتہ پر ’امریکا پارٹی‘ کے قیام کا اعلان کیا تھا، یہ اعلان اُس وقت سامنے آیا جب ٹرمپ نے ایک وسیع ملکی پالیسی بِل پر دستخط کیے، جس پر مسک نے تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے خسارہ غیر حقیقی انداز میں بڑھے گا۔
مسک نے ابھی تک پالیسی کی تفصیلات پیش نہیں کیں، لیکن توقع ہے کہ وہ اگلے سال کے وسط مدتی انتخابات میں ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ کی چند نشستوں کو نشانہ بنائیں گے، جہاں موجودہ ریپبلکنز نے ٹرمپ کے بل کے حق میں ووٹ دیا ہے، حالاں کہ وہ مالی ذمہ داری کا پرچار کرتے رہے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار اور سابق ریپبلکن امیدوار میٹ شو میکر (جو ایک سابق انٹیلیجنس افسر بھی ہیں) نے کہا کہ ایلون مسک کی امریکا پارٹی ایک ایسا غیر یقینی عنصر ہے جو 2026 کے وسط مدتی انتخابات کو بالخصوص ریپبلکنز کے لیے ’الٹ پلٹ‘ کر سکتا ہے، کانگریس میں معمولی اکثریت کے ساتھ، ریپبلکنز کو فکر مند ہونا چاہیے۔
دنیا کے امیر ترین شخص، ایلون مسک، کئی ہفتوں سے ایک نئی جماعت کے امکان کا عندیہ دے رہے تھے، جون میں اُنہوں نے ایک غیر رسمی سوشل میڈیا پول چلایا، جس میں 5.6 ملین ووٹرز میں سے 80 فیصد نے نئی جماعت کے فیصلے کی حمایت کی۔
ماضی کی تیسری جماعتوں کے برعکس، اُن کے پاس تقریباً لامحدود وسائل ہیں، اور ایک ایسا رہنما ہے جو نوجوان امریکی مردوں کے ایک بڑے طبقے کے لیے ایک مہم جو نابغہ اور سپر اسٹار کی حیثیت رکھتا ہے۔
شو میکر نے اے ایف پی کو بتایا کہ مسک کا برانڈ اُن ناراض آزاد خیال نوجوان، ٹیکنالوجی سے وابستہ ووٹرز کو متاثر کرتا ہے جو سوئنگ ڈسٹرکٹس میں ریپبلکنز کی حمایت کر سکتے ہیں۔
ایلون مسک کی ذاتی دولت کا تخمینہ تقریباً 405 ارب ڈالر لگایا جاتا ہے، اور مسک نے سیاست میں بڑے پیمانے پر اخراجات کا مظاہرہ بھی کیا ہے، اُنہوں نے ٹرمپ کی 2024 کی مہم پر 277 ملین ڈالر خرچ کیے تھے۔
تاہم حالیہ عرصے میں وسکونسن کی سیاست میں اُن کی مداخلت (جہاں اُنہوں نے 2 کروڑ ڈالر خرچ کیے مگر اُن کا امیدوار ریاستی سپریم کورٹ کے انتخاب میں بُری طرح ہار گیا) نے اس بات کو واضح کیا کہ دولت اور شہرت سیاست میں ہر بار کامیابی کی ضمانت نہیں ہوتی۔
اور پھر ایک اور چیلنج یہ ہے کہ وہ امریکا کے دیہی علاقوں میں حمایت کیسے حاصل کریں گے، جہاں ووٹرز مسک کی سلیکون ویلی کی ’ٹیک برو‘ ثقافت کا حصہ نہیں۔
ٹائم میگزین کے 2021 کے پرسن آف دی ایئر، مسک کبھی امریکیوں کے ایک وسیع طبقے میں مقبول تھے، لیکن اُن کی مقبولیت اس وقت کم ہوئی جب وہ ٹرمپ انتظامیہ میں ’کاسٹ کٹر انچیف‘ کے طور پر شامل ہوئے۔
مشہور امریکی پولسٹر نیٹ سلور کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، مسک کی نیٹ فیور ایبیلٹی منفی 18.1 ہے، جب کہ ٹرمپ کی نسبتاً کم منفی 6.6 ہے۔
واشنگٹن کالج میں سیاسیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر فلیویو ہیکل نے کہا کہ اگرچہ ہر کسی کو ایک ہی خانے میں رکھنا مناسب نہیں، لیکن آج کے سیاسی ماحول میں ریپبلکن بیس اور میگا (MAGA) تحریک کافی حد تک ایک ہی چیز بن چکے ہیں۔
فلیویوہیکل نے کہا کہ ایلون مسک کی ٹرمپ کے ساتھ حمایت حالیہ تنازعات کے باوجود بھی غیر متزلزل رہی ہے، اس لیے یہ سوچنا مشکل ہے کہ مسک کی کوئی بھی سیاسی کوشش ایسے ووٹروں کو متاثر کر سکے گی جو ٹرمپ کے حامی ہیں۔
اگرچہ کئی ریپبلکن اور ڈیموکریٹس نے پارٹی تبدیل کر کے خود کو آزاد قرار دیا ہے، لیکن جدید امریکی تاریخ میں تیسری جماعتوں کی کامیابی بہت کم رہی ہے۔
نیویارک اسٹیٹ کی کنزرویٹو پارٹی (1970 کی دہائی میں) اور فارمر-لیبر پارٹی (1930 کی دہائی میں) ہی وہ چند چھوٹی جماعتیں ہیں جنہوں نے گزشتہ ایک صدی میں سینیٹ کی نشستیں جیتی ہیں۔
چھوٹی جماعتوں کو 20ویں صدی کے اوائل میں ایوان نمائندگان میں کچھ کامیابیاں ملی تھیں، لیکن 1950 کی دہائی سے اب تک صرف ایک نشست جیتنے میں کامیاب ہوئیں۔
اے ایف پی نے جن ماہرین سے بات کی، اُن سب نے اس بات پر زور دیا کہ امریکی نظام میں تیسری جماعتوں کے لیے راستے میں بے شمار رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں، جیسے کہ مخصوص تعداد میں دستخط، فیس، اور مختلف ریاستی ضوابط۔
سیاسی حکمت عملی کے ماہر میٹ کلنک نے یاد دلایا کہ ’2024 کے اوائل میں ’نو لیبلز‘ پارٹی جس نے صدارتی انتخابات میں ایک درمیانی راہ اختیار کرنے کا دعویٰ کیا تھا؟ وہ بری طرح ناکام ہو گئی تھی۔
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ کانگریس میں نشستیں جیتنا شاید ممکن نہ ہو، لیکن مسک ٹرمپ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، یا تو ووٹ تقسیم کر کے یا صدر کے حمایت یافتہ امیدواروں کے مخالفین پر پیسہ لگا کر ایسا کرنے کے قابل ہوں گے۔
پی آر فرم ’ریڈ بنیان‘ کے سی ای او ایوان نیرمین نے کہا کہ ایلون کی پارٹی شاید نشستیں نہ جیتے، لیکن وہ ریپبلکنز کو بہت نقصان پہنچا سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قریبی مقابلے والے اضلاع میں، اگر دائیں بازو کے ووٹوں میں سے چند بھی چھن گئے تو کنٹرول ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔