آج کے کالمساجدہ صدیق

تاریخ صرف فتوحات گنتی ہے!

ساجدہ صدیق
(گزشتہ سے پیوستہ)
اگر پرشکوہ محلات، عالی شان باغات، زرق برق لباس، ریشم و کمخواب سے آراستہ و پیراستہ آرام گاہیں، سونے، چاندی، ہیرے اور جواہرات سے بھری تجوریاں، خوش ذائقہ کھانوں کے انبار اور کھنکھناتے سکوں کی جھنکار ہمیں بچا سکتی تو تاتاریوں کی ٹڈی دل افواج بغداد کو روندتی ہوئی معتصم باللہ کے محل تک نہ پہنچتی۔آہ! وہ تاریخِ اسلام کا کتنا عبرت ناک منظر تھا جب معتصم باللہ، آہنی زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑا، چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان کے سامنے کھڑا تھا۔ کھانے کا وقت آیا تو ہلاکو خان نے خود سادہ برتن میں کھانا کھایا اور خلیفہ کے سامنے سونے کی طشتریوں میں ہیرے اور جواہرات رکھ دئیے۔ پھر معتصم سے کہا۔:
”جو سونا چاندی تم جمع کرتے تھے اْسے کھاؤ!“۔
بغداد کا تاج دار بے چارگی و بے بسی کی تصویر بنا کھڑا تھا، بولا: ”میں سونا کیسے کھاؤں؟“ ہلاکو نے فوراً کہا ”پھر تم نے یہ سونا چاندی جمع کیوں کیا تھا؟“۔
وہ مسلمان جسے اس کا دین ہتھیار بنانے اور گھوڑے پالنے کے لیے ترغیب دیتا تھا، کچھ جواب نہ دے سکا۔ ہلاکو خان نے نظریں گھما کر محل کی جالیاں اور مضبوط دروازے دیکھے اور سوال کیا: ”تم نے اِن جالیوں کو پگھلا کر آہنی تیر کیوں نہ بنائے؟ تم نے یہ جواہرات جمع کرنے کی بجائے اپنے سپاہیوں کو رقم کیوں نہ دی، تاکہ وہ جانبازی اور دلیری سے میری افواج کا مقابلہ کرتے؟“۔ خلیفہ نے تاسف سے جواب دیا۔”اللہ کی یہی مرضی تھی“۔ ہلاکو نے کڑک دار لہجے میں کہا: ”پھر جو تمہارے ساتھ ہونیوالا ہے، وہ بھی خدا کی مرضی ہوگی“۔پھر ہلاکو خان نے معتصم باللہ کو مخصوص لبادے میں لپیٹ کر گھوڑوں کی ٹاپوں تلے روند ڈالا، بغداد کو قبرستان بنا ڈالا۔ ہلاکو نے کہا ”آج میں نے بغداد کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا ہے اور اَب دنیا کی کوئی طاقت اسے پہلے والا بغداد نہیں بنا سکتی“۔ تاریخ تو فتوحات گنتی ہے۔ محل، لباس، ہیرے، جواہرات لذیز کھانے نہیں۔ اگر ہم ذرا سی بھی عقل و شعور سے کام لیتے تو برصغیر میں مغلیہ سلطنت کا آفتاب کبھی غروب نہ ہوتا۔ اندازہ کرو جب یورپ کے چپے چپے پر تجربہ گاہیں اور تحقیقی مراکز قائم ہو رہے تھے۔ تب یہاں ایک شہنشاہ دولت کا سہارا لے کر اپنی محبت کی یاد میں تاج محل تعمیر کروا رہا تھا۔ جب مغرب میں علوم و فنون کے بم پھٹ رہے تھے۔ تب یہاں تان سین جیسے گوئیے نئے نئے راگ ایجاد کر رہے تھے۔ جب انگریزوں، فرانسیسیوں اور پرتگالیوں کے بحری بیڑے برصغیر کے دروازوں پر دستک دے رہے تھے، ہمارے اَرباب و اختیار شراب و کباب اور طاؤس و رباب سے مدہوش پڑے تھے۔ تن آسانی، عیش کوشی اور عیش پسندی نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ہمارا بوسیدہ اور دیمک زدہ نظام بکھر گیا، کیونکہ تاریخ کو اِس بات سے کوئی غرض نہیں ہوئی کہ حکمرانوں کی تجوریاں بھری ہیں یا خالی؟ شہنشاہوں کے تاج میں ہیرے جڑے ہیں یا نہیں؟ درباروں میں خوشامدیوں، میراثیوں، طبلہ نوازوں اور وظیفہ خوار شاعروں کا جھرمٹ ہے یا نہیں؟ یاد رکھیے! تاریخ کو صرف کامیابیوں سے غرض ہوتی ہے اور تاریخ عذر قبول نہیں کرتی۔
افسوس صد افسوس!
سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک یہودی عورت نے تو سبق حاصل کر لیا۔ مگر مسلمان اِس پہلو سے نا آشنا رہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی، علوم و فنون پر دسترس رکھنے کی بجائے لاحاصل بحثوں اور غیر ضروری کام میں مگن رہے۔ چنانچہ زوال ہمارا مقدر ٹھہرا۔ تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے۔
سنہ1857 میں جب انگریزوں نے دلی پر دوبارہ قبضہ کر لیا تو کیپٹن ولیم ہڈسن قریباً 100 سپاہیوں کے ساتھ مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو پکڑنے کے لیے شہر سے نکلے۔ جب کیپٹن ہڈسن نے ہمایوں کے مقبرے کا رُخ کیا تو اس وقت تک دلی کی سڑکوں پر موجود کسی بھی باغی نے اُن پر گولی نہیں چلائی۔
ولیم ہڈسن کو یقیناً اس بات کی فکر تھی کہ ہمایوں کے مقبرے کے آس پاس موجود لوگ ان کے ساتھ کیا سلوک کریں گے، اس لیے انھوں نے پہلے ہی خود کو قبر کے قریب موجود کھنڈرات میں چھپا لیا۔
امرپال سنگھ نے حال ہی میں 1857 کی بغاوت پر ’دی سیز آف دلی‘ یعنی ’دہلی کا محاصرہ‘ نامی کتاب تحریر کی اور فی الحال وہ لندن میں مقیم ہیں۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’ہڈسن نے مزار کے مرکزی دروازے سے ملکہ زینت محل سے ملاقات کرنے اور شہنشاہ کو ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کرنے کے لیے اپنے دو نمائندے مولوی رجب علی اور مرزا الٰہی بخش بھیجے۔‘
بادشاہ ظفر نے ابھی تک ہتھیار ڈالنے کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ دو گھنٹے تک کچھ نہیں ہوا۔ ہڈسن کو فکر لاحق ہو گئی اور سوچنے لگے کہ شاید ان کے آدمیوں کو مقبرے کے اندر قتل کر دیا گیا ہے لیکن پھر ہڈسن کے نمائندے یہ پیغام لے کر باہر آئے کہ بہادر شاہ ظفر صرف ہڈسن کے سامنے ہتھیار ڈالیں گے اور وہ بھی اس وقت جب ہڈسن بذات خود جنرل آرچڈیل ولسن کے وعدے کو ان کے سامنے دہرائیں گے اور وہ وعدہ یہ تھا کہ بادشاہ کی جان بخشی کر دی جائے گی ابتدا میں جب انگریز دہلی میں داخل ہوئے تو شہنشاہ نے قلعہ کے اندر اپنے محل میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ 16 ستمبر 1857 کو خبر آئی کہ برطانوی فوج نے قلعہ سے چند سو گز کے فاصلے پر باغیوں کے اڈے پر قبضہ کر لیا ہے اور وہ قلعے میں صرف اس لیے داخل نہیں ہو رہے کہ ان کے پاس فوجیوں کی تعداد کم ہے۔
19 ستمبر کو بادشاہ نے اپنے پورے خاندان اور عملے کے ساتھ محل چھوڑنے اور اجمیری گیٹ کے راستے پرانے قلعے میں جانے کا فیصلہ کیا۔ 20 ستمبر کو انگریزوں کو خفیہ طور پر اطلاع ملی کہ بادشاہ بہادر شاہ ظفر پرانے قلعہ سے نکل کر ہمایوں کے مقبرے پہنچ گئے ہیں۔
میں نے امرپال سنگھ سے پوچھا کہ ایک طرف تو انگریز باغیوں کو بے رحمی سے پھانسی دے رہے تھے لیکن وہ بادشاہ ظفر کی جان بخشنے کے لیے کیوں تیار تھے؟
اس پر انہوں نے جواب دیا کہ ’ایک تو بہادر شاہ بہت بوڑھے تھے اور وہ اس بغاوت کے برائے نام رہنما تھے۔ دوسرے انگریز دہلی میں دوبارہ داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے، لیکن شمالی ہند کے دیگر حصوں میں ابھی تک لڑائی جاری تھی اور انگریزوں کو خوف تھا کہ اگر بادشاہ مارا گیا تو شاید باغیوں کے جذبات بھڑک اٹھیں۔ چنانچہ ولسن نے اتفاق کیا کہ اگر بادشاہ ہتھیار ڈال دیں تو ان کی جان بخشی جا سکتی ہے۔‘
ولیم ہڈسن نے اپنی کتاب ’ٹوئلو ایئرز آف سولجرس لائف ان انڈیا‘ میں ایک عینی شاہد برطانوی افسر کی طرف سے اپنے بھائی کو لکھے گئے خط کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ’ملکہ زینت محل (ہمایوں کے) مقبرے سے سب سے پہلے باہر آئی تھیں۔ ان کے بعد بادشاہ بہادر شاہ ظفر پالکی میں سوار نکلے تھے۔‘
ہڈسن نے آگے بڑھ کر بادشاہ سے ہتھیار ڈالنے کے لیے کہا۔ بادشاہ ظفر نے ان سے پوچھا، کیا آپ ہی ہڈسن بہادر ہو؟ کیا آپ مجھ سے کیے گئے وعدے کو میرے سامنے دہرائیں گے؟‘
کیپٹن ہڈسن نے جواب دیا کہ ’ہاں، سرکار آپ کو یہ بتاتے ہوئے بہت خوشی محسوس کر رہی ہے کہ اگر آپ ہتھیار ڈال دیتے ہیں تو آپ کی، زینت محل اور ان کے بیٹے کی جان بخش دی جائے گی۔ لیکن اگر آپ کو بچانے کی کوشش کی گئی تو میں اس جگہ کتے کی طرح آپ کو گولی مار دوں گا۔‘
پھر بوڑھے بادشاہ نے اپنے ہتھیار ہڈسن کے حوالے کیے جو انھوں نے اپنے اُردلی کے حوالے کر دیے۔

جواب دیں

Back to top button