غور و فکر
تحریر /عامر رانا
ملک وہی ترقی کرتے ہیں، جہاں عوام اپنی سرزمین کے لیے ایماندار، ذمہ دار اور مخلص ہوں، مگر عوام سے بڑھ کر کسی بھی ملک کے ادارے اگر اپنے ملک کے لیے ٹھیک نہیں ہوں گے تو عوام یقینا اپنی اناء،غصے اور بدلے جیسے عنصر کو سامنے رکھتے ہوئے اداروں میں کرپشن، بدعنوانی اور اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے ایک کہرام برپا کر دے گی، جو کسی بھی ملک کی بربادی کا پہلا سلسلہ ہو گا اور انتہائی افسوس سے کہوں گا کہ میرا ملک پاکستان گذشتہ 50دہائیوں سے بھی زائد عرصہ سے ایسی ہی بربادی کی جانب رواں دواں ہوا کہ آج محض چند افراد ہی اس ملک کے لیے مخلص لگتے ہیں اور چند ہی ادارے اس ملک پاکستان کی بقاء کے لیے سرگرم ہیں، 75 سال کے اس بڑے سفر نے ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا کہ اس کی مثال بتانا بھی مثال کی توہین ہو گی ملک پاکستان کو کبھی شخصیات کی نذر کرکے قوم کو لڑوایا گیا تو کبھی مذہب اور فرقوں کے نام، کبھی سیاسی جماعتوں کے چکر میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا تو کبھی طاقت ور کو طاقت ور سے لڑوا کر مگر کبھی کسی ادارے شخصیت وہ چاہے سیاسی ہو یا مذہبی، یکجہتی کا سبق کسی نے مسلسل پڑھنے نہیں دیا جس کا نقصان ملک پاکستان کو بدنامی کے سواء کچھ بھی نہ دلا سکا بہرحال یہ بات کہنے میں قطعی طور پر میں خاموشی اختیار نہیں کر سکتا کہ اب یہ ملک جس کی لاٹھی اس کی بھینس جیسی مثال کی طرح ہے، طاقت ور انتہائی طاقت ور اور بااثر ہو چکا ہے کہ پیسے دو اور جو مرضی کرو، اس خوف ناک کیفیت میں بیرون ممالک بیٹھے پاکستانی واپس آنے کا نام نہیں لے رہے، بلکہ کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان میں بیٹھے اپنے قریبی لوگوں کو بھی کسی بھی طرح پردیس میں جہاں ہیں، لے جائیں اور بڑی تعداد میں نوجوان اور کئی خاندان ملک چھوڑ بھی چکے ہیں جو کہ ایک افسوس ناک امرء ہے۔
ادارے چاہے اسے اچھا اقدام جانتے ہوں مگر یہ دنیا بھر میں پاکستان کی سرزمین کے لیے اچھا پیغام نہیں ہے کیونکہ بیرون ممالک جانے والوں کی جانب سے سیاسی پناہ لینے سمیت پاکستان میں سیاسی مذہبی اور جان و مال کے تحفظ کو بنیاد بنا کر یہ ثابت کیا جارہا ہے کہ پاکستان کے برے حالات میں جان و مال کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ہماری خارجہ اور دیگر پالیسیاں حکومت کے لیے ندامت کا باعث بن رہے ہیں،دوسرا ہمیں جو کام دو دہائیوں پہلے کام کرنا چاہیے تھا وہ ہم نے اچانک سے شروع کردیا اور اب اس میں کسی طرح کی نرمی رکھنے کو تیار ہی نہیں کہ افغان شہریوں کو ایک قانونی دھارے میں لاتے، پہلے مرحلے میں ان غیر ملکی افغانیوں کو نکالتے جو کسی بھی طرح کی دستاویزات نہیں رکھتے، اس کے بعد افغان کارڈ پر پاکستان کی اینٹری ڈالنے والے اور تیسرے مرحلے میں تیس چالیس سالوں سے یہاں مقیم پناہ گزینوں کو نکالتے، اس سے نہ تو افغان حکومت کو کچھ شکوہ ہوتا اور نہ ہی غیر قانونی مقیم افغانیوں کو بہرحال عجلت میں کئے فیصلے پر نظرثانی کی ضرورت ہے مگر اس کے باوجود میں یہ ہی کہوں گا کہ سب سے پہلے پاکستان۔
اب بات کرتے ہیں ملک کے کھوکھلے معاشی ڈھانچے کی، توملک پاکستان کے سفید پوش طبقے کو دو وقت کی روٹی کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور سفید پوش اپنا ضمیر بیچنے پر مجبور ہو چکا ہے، اناء پرستی تو اب طاقت ور لوگوں کے حصے میں ہی رہ چکی ہے، سفید پوش خاندانوں کی خواتین اُدھار، بھیک اور نہ جانے کن کن مسائل سے گزرنے پر مجبور ہیں مگر ملک میں سبزی دال کے بھاؤ ہیں کہ نیچے ہی نہیں آرہے، مارکیٹ کمیٹیاں پرائس کنٹرول مجسٹریٹوں کے ٹاوٹ دندناتے پھر رہے ہیں، کرپشن کا بازار گرم ہے، آٹے، گھی کی عوام تک دسترس دور ہوتی جارہی ہے، مقامی حکومتوں کے کان پر جون ہی نہیں رینگتی، بس ریونیو ٹارگٹ کے چکر میں ہی لگے ہوئے لوٹ مار کئے جارہے ہیں، ان سے ہاتھ جوڑ کر التجا ہے کہ سفید پوش طبقے کا سوچیں کیونکہ انتہائی غریب بھیک مانگنے میں لگے ہوئے ہیں اور ان کی کلاس کا کیا ہی کہنا کہ ہر چوراہے اور سڑک پر ان کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے اور ایسے لگ رہا ہے کہ آئندہ وقت میں چوراہوں پر بھیک مانگنے والوں کی قومی اور صوبائی نشستوں پر امیدوار کھڑے ہوں گے اور وہ کچھ حلقوں سے جیت بھی جائیں گے، پھر شہروں کی سڑکوں اورعلاقوں میں بھیک مانگنے والوں کی درخواستوں پر ماڈل سڑکیں اور ٹریفک سگنلز لگائیں جائیں گے۔
دوسرا طبقہ مڈل کلاس سے اوپر کا، اپر کلاس ہے، اس طبقے میں جہاں گریڈ سولہ سے بیس گریڈ کے کرپٹ افسران شامل ہیں، وہاں ایک مافیا اور بھی شامل ہے، اور وہ مافیا سب سے خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے اسے جواء مافیا کہا جاتا ہے، اس مافیا نے چند ہی سالوں میں خود کو لوئر کلاس اورمڈل کلاس سے نکال کر اپر کلاس میں ڈال لیا ہے، اب انہی جواء مافیا کے نوجوان یا تو شعبہ وکالت سے منسلک ہیں یا اپنے بچوں کو بیرون ممالک بھجوا کر اپر کلاس میں شامل ہوگئے ہیں۔ جواء مافیا میں کچھ حصہ پوش کلاس میں شامل ہوچکا ہے جو یا تو گریڈ اٹھارہ سے گریڈ بائیس کے افسران کی بغلوں میں نظر آئے گا یا سیاستدانوں کے سروں پر اس مافیا نے ملک کے ہر ادارے میں اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ اس مافیا نے لینڈ مافیا کی بھی خوف ناک شکل اختیار کر رکھی ہے، ملک میں غیر ملکی کرنسی پر بھی قبضہ جما رکھا ہے جو ایک انتہائی خوف ناک سیکنڈل ہے۔ جواء مافیا کرکٹ اور گھوڑا ریس میں اربوں روپے کی روزانہ لین دین میں ملوث ہے اور ایسے بے دھڑک دیدہ دلیری سے جواء کروا رہے ہیں کہ ایسے ملک کی سٹاک ایکسچینج میں بھی کاروبار نہیں ہوتے جس میں ایف آئی اے اور ہماری قابل احترام پولیس کا اہم کردار ہے، غیر قانونی اور پابندی کا سامنا کرنے والی جواء ایپ اور دبئی سمیت بھارت اور لوکل جواء سافٹ ویئر اورجواء پتی ہر چوتھے موبائل میں موجود ہیں،اس غیر قانونی طریقہ سے کمائی جانے والی اربوں روپے کی کمائی حوالہ ہنڈی کے ذریعے بیرون ممالک کراچی، لاہور، پشاور اورکوئٹہ سمیت سیالکوٹ ائیر پورٹس سے ہو رہی ہیں جسے ”تانگہ پھڑیا“ جیسے نام دے کر روزانہ ڈالر پاؤنڈ اور یورو چند ہزار روپوں میں لاکھوں کی تعداد میں بیرون ممالک بھجوائے جارہے ہیں، اب ان مافیا کی نشاندہی کس ادارے کو نہیں؟ متعدد بار اخبارات میں ان مافیا کے نام چھپ چکے ہیں مگر اب ان کے تعلقات ان بائیس ہزار بااثر افسران سے ہیں جو دوہری شہریت کے حامل ہیں اور اس وقت محکمہ داخلہ کے اہم ترین سیٹوں پر براجمان ہیں، وہ ایف آئی اے ہو یا پولیس وہ جوڈیشری سے ہوں یا بیورکریٹ وہ حکومتی منصب پر ہوں یا ریٹائرڈ مگر ان کا مافیا سے تعلق ضرور نظر آتا ہے، مگر حقیقت تو یہ ہے ہم بحیثیت پاکستانی اس قدر ایماندار ہو چکے ہیں کہ ہمیں اس ملک میں علاج نہیں کروانا اس ملک کے بینکوں میں پیسہ نہیں رکھنا اس ملک کے تعلیمی اداروں میں بچوں کونہیں پڑھانا مگر حکومت اور افسری کی صورت میں اس ملک میں راج ضرور کرنا ہے، حالانکہ ہم چودھری پاکستان میں بنتے ہیں مگر قوانین بیرون ممالک میں مانتے ہیں،وہاں ہماری اوقات دو ٹکے کی نہیں ہوتی، ہم چاہے پاکستان میں کتنی ہی بڑی سیٹ یا منصب پر ہوں، ہماری کرپشن اور غلط کام پر ہمارے ملک کا باشندہ ہی ہمیں بیرون ملک ذلیل کر جاتا ہے، جہاں ہم خاموشی کے سوا کچھ نہیں کر پاتے یہ دوہری شہریت کم دوغلی پالیسی ہے یعنی کہ منافق ہیں اور ایسی صورت حال میں ہم ملک کو کیسے ترقی کرنے دیں گے میرا مقصد سفید پوش طبقے اور ملک پاکستان میں عزت کی زندگی بسر کرنے والوں میں ہرگز مایوسی پھیلانا نہیں اور نہ ہی یہ کہنا کہ یہ ملک رہنے کے قابل نہیں بلکہ میں تو اس طبقے کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں جو اس ملک پاکستان کو کھوکھلا کر رہے ہیں جنہیں سوشل میڈیا پر اپنے اختیارات سے تجاوز دکھانے پر غصہ آتا ہو، جن سیاسی اور سرکاری افسران کو ان کی ذمہ داریوں کی نشاندہی دکھانے پر غصہ آتا ہو، جنہیں لوٹ مار اورغیر قانونی اقدامات دکھانے پر غصہ آتا ہو اور وہاں جی حضوری کرنے والے میڈیا پرسنیلٹی کرپٹ افسران کی شکلیں مسیحا بنا کر پیش کرنے پر شاباش ملتی ہو اس پر افسوس نہ کیا جائے تو کیا جائے۔
نئے سیاسی ڈھانچے پر مشتمل حکومت کو بنانے کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلہ پر الیکشن کمیشن پاکستان نے جو نئی تاریخ دے دی ہے وہ خوش آئند ہے مگر اس نگران حکومت کے صوبائی اور وفاقی سیٹ اپ نے ملک کی معاشی صورت حال کو بہتر کرنے کے لیے جو اقدامات اٹھا رکھے ہیں وہ اپنی جگہ لائق تحسین ہیں مگر وزیر اعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب و وزیر اعلی سندھ سے اپیل ہے کہ ہنڈی حوالہ اور غیر ملکی کرنسی کی سمگلنگ میں ملوث کرکٹ جواء مافیا کہ خلاف بھی افغان غیر قانونی باسیوں کی طرز پر آپریشن کرکے نوجوان نسل کو نہ صرف جواء جیسے جرم سے بچایا جائے بلکہ جواء سے منسلک دیگر جرائم بھی روکے جاسکتے ہیں بلکہ روکنے سے ملکی معاشی بدحالی پر بھی قابو پانے میں بڑی مدد حاصل ہو گی۔