پنجاب میں سموگ خطرناک حد تک پہنچنے کا امکان

آئندہ ہفتے کے دوران وسطی اور جنوبی پنجاب گوجرانوالہ، ملتان، لاہور، بہاولپور،فیصل آباد میں سموگ کا خطرناک حد تک پہنچنے کا امکان ہے۔پنجاب کی نگران حکومت نے سموگ کی سطح میں اضافے کے بعد اِس کی روک تھام اور شہریوں کی صحت کے لیے کئی اقدامات کا اعلان کیا ہے کیونکہ ماحولیاتی ماہرین نے اس صورت حال کو انسانی جانوں کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا ہے کہ لاہور ڈویژن، گوجرانوالہ اور حافظ آباد میں دفعہ 144نافذ کر دی گئی ہے،9نومبر کوسرکاری چھٹی ہے، جمعہ 10نومبرکو بھی تعطیل کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ہفتہ، اتواربھی چھٹی ہوتی ہے،اِس ماحولیاتی اور ہیلتھ ایمرجنسی کے دوران تعلیمی ادارے، سرکاری و نجی دفاتر، سینما، پارکس اورریسٹورنٹ بند رہیں گے جبکہ مارکیٹیں ہفتے کو بند رکھی جائیں گی، فیکٹریاں، شادی ہال، بیکریاں،فارمیسی، پبلک ٹرانسپورٹ اور کنسٹرکشن بند نہیں ہوگی، لاہور کی زمین کو ماحولیاتی ریسٹ کی اشد ضرورت ہے۔جمعہ کو مارکیٹیں بند کرنے کے بارے میں تاجروں سے مشاورت کی جائے گی۔ 4دن سرگرمیاں معطل کرنے کے فیصلوں کا مقصد سموگ کے لیول کو کم کرنا ہے۔ فیصلہ اسی ایک ہفتے کے لیے نافذ العمل ہوگا۔اس دوران محسن نقوی نے بتایا کہ انڈیا میں پاکستان سے 4گنا زیادہ فصلوں کی باقیات جلائی جاتی ہیں، جس سے سموگ بڑھتی ہے۔ سرحد پار فصلوں کی باقیات جلانے کا براہ راست اثر ہم پر پڑ رہا ہے۔ اِس میں قطعی دو رائے نہیں کہ سموگ کے خاتمے کے لیے حکومتی سطح پر ایک دہائی سے زائد عرصے سے اقدامات کئے جارہے ہیں لیکن اب حالات اِس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ہمیں ایسے فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں جن کے نتیجے میں ہمیں تعلیم، کاروبار اور دوسری سرگرمیاں ترک کرکے گھروں میں بیٹھنا پڑ رہا ہے، کیونکہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق فضائی آلودگی کے باعث دنیا بھر میں ہر سال لاکھوں افراد اپنی جان گنواتے ہیں اور ان میں زیادہ تعداد کم اور متوسط آمدن کے افراد ہیں جو اس آلودگی کا زیادہ سامنا کرتے ہیں۔اسی طرح یونیسف کے مطابق پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی 10 اموات میں سے ایک موت کی وجہ آلودگی ہے اور پاکستان میں ہر سال سوا لاکھ سے زیادہ افراد فضائی آلودگی سے متعلق بیماریوں کے باعث اپنی جان کھودیتے ہیں کیونکہ زیادہ دیر تک فضائی آلودگی میں سانس لینے سے سانس کی تکلیف، پھیپھڑے متاثر ہوتے ہیں، حلق کی انفیکشن، دل کی بیماریاں اور اوسط عمر میں کمی واقع ہوتی ہے۔اِس سے زیادہ بدترین حالات کیا ہوسکتے ہیں کہ ایک طرف ہم موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سیلاب، غیر متوقع بارشوں کے سلسلہ کی وجہ سے تباہی کا شکار ہورہے ہیں، جب یہاں سے جان بچتی ہے تو سموگ کا عفریت سامنے آجاتا ہے، حالانکہ ریاستی ادارے بلکہ عدلیہ تک سموگ کو قابو کرنے کے اقدامات کی کڑی نگرانی کرتی ہے مگر اِس کے باوجود ہر سال سموگ عذاب کی طرح آجاتی ہے اور اِس زہریلے دھویں میں سب کچھ کھوجاتا ہے، حد نگاہ کم سے کم ہوجاتی ہے، آمدورفت کے ذرائع جامد ہوجاتے ہیں اور سموگ سے متاثرہ افراد سے ہسپتال بھر جاتے ہیں، کیونکہ سب سے زیادہ متاثر ہی وہی لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے بہرصورت روٹی روزی کے لیے کھلے آسمان تلے رہنا ہوتا ہے، اگرچہ حکومتی دباؤ کے بعد ہمارے ادارے آلودگی پیدا کرنے والی صنعتوں اور دوسرے ذرائع کے خلاف متحرک ہوتے ہیں مگر یہ مشق سال بھر ایسی تندہی سے جاری رہتی تو ایک دہائی میں سموگ ختم نہ بھی ہوتی تو یقیناً یہ صورت حال نہ ہوتی جس کا ہم سامنا کررہے ہیں، بالفرض سموگ کے خاتمے کے لیے ہم سو فیصد اقدامات کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو پھر یہ عذاب ختم ہونے والا نہیں کیونکہ پڑوسی ملک بھارت میں باقاعدگی سے فصلوں کی باقیات جلائی جاتی ہیں جس کی آلودگی نہ صرف پنجاب بلکہ اب سندھ تک پھیل رہی ہے، یہ عجیب دشمن ہے، کبھی سرحدوں سے حملہ آور ہوتا ہے، کبھی دہشت گرد بھیجتا ہے، کبھی آبی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتا ہے اور اِن دنوں میں ہمیں سموگ سے مارنے کے لیے فصلوں کی باقیات جلاتا ہے، چونکہ نقصان ہمارا ہوتا ہے اور ہم ہی پریشان ہیں اِس لیے بھارت اِس شرمناک حرکت پر بغلیں بجاتا ہے۔ بہرکیف وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ایسے متبادل ذرائع پر غور کریں جن کے ذریعے ہم دھویں اور آلودگی سے محفوظ رہ سکیں خصوصاً فیکٹریوں کے ساتھ ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ کے زیادہ سے زیادہ استعمال پر بھی غور کرنا چاہیے کیونکہ ہمارے ملک میں پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے اور حکومتی عدم توجہی کے باعث لوگ انفرادی ٹرانسپورٹ استعمال کرنے پر مجبور ہیں، یقیناً ہم ایسی غلطیوں پر قابو پاکر اپنی مشکلات کم کرسکتے ہیں جس سے فضائی آلودگی اور پٹرولیم مصنوعات کے درآمدی بل میں کمی سمیت کئی فوائد حاصل ہوں گے۔