دھواں اُٹھے لُدھیانے، آلودہ ہو لاہور!
محمدانور گریوال
لیجئے جناب! سموگ کا حل تلاش کر لیا گیا، اِس سے قبل تو بس حفاظتی انتظامات پر زور تھا۔ باقیات اور کوڑا کرکٹ وغیرہ کو آگ لگانے سے روکا جاتا تھا۔ کُوڑے کے ساتھ ”کرکٹ“ کو آگ لگانے کی بات نہ جانے کیوں کی جاتی ہے، حالانکہ یہ واقعہ رونما کبھی نہیں ہوا۔ شایدبہتری کی امید بندھی رہتی ہے، اس دفعہ نہیں تو اگلی دفعہ ہی سہی، چلیں اب ہارے ہیں تو پھر کبھی جیت جائیں گے۔ اب بھی ورلڈ کپ میں امیدوں کے چراغ کبھی جلتے ہیں تو کبھی ٹمٹمانے لگتے ہیں، اور بعض اوقات تو بجھ ہی جاتے ہیں۔ خیر کرکٹ کو آگ لگانے کی نوبت شاید کبھی نہیں آئے گی، کیونکہ اِس کے ساتھ بے شمار لوگوں کی دلچسپیاں اور مفادات وابستہ ہیں، دوسرا یہ کہ اگر کرکٹ کوآگ لگا دی گئی تو آلودگی میں مزیدبے پناہ اضافے کے امکانات پیدا ہو جائیں گے، دکھائی دینے والے دھوئیں کے علاوہ دل و جگر سے نکلنے والا دھواں بھی ماحول کو مزید خراب کرنے کا موجب بنے گا۔
بات چلی تھی سموگ کے حل کی، پہنچ گئی کرکٹ کو آگ لگانے تک۔ پنجاب کے محکمہ تحفظِ ماحولیات نے پنجاب حکومت کو بتایا ہے کہ انہوں نے گوگل سے معلوم کیا ہے اور گوگل پر تصویریں محکمہ نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں، کہ بھارت کے شہر لدھیانہ اور جالندھر میں فصلوں کی باقیات کو آگ لگائی گئی ہے، جس کی وجہ سے لاہور فضائی آلودگی کا شکار ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگرچہ پنجاب کے اضلاع لاہور، گوجرانوالہ، شیخوپورہ اور حافظ آباد میں بھی یہی کارِ خیر سرانجام دیا جارہا ہے، مگر یہاں تو ہم ڈپٹی کمشنر کے ذریعے فصلوں کی باقیات کو آگ لگانے کا دھندہ بند کروا سکتے ہیں، مگر بھارت سے آنے والی ہواؤں کو نہیں روک سکتے۔ اس لیے حکومت پنجاب بھارت کو خط لکھے کہ وہ اپنے متعلقہ شہروں کے کسانوں کو آگ بھڑکانے سے روکے، تاکہ نفرت کی آگ کو مزید بھڑکنے سے روکا جا سکے اور فضائی آلودگی میں بھی کمی لائی جا سکے۔
دھوئیں کو روکنے کے لیے پنجاب حکومت کئی سال سے اقدامات کرتی آرہی ہے۔ دھواں دینے والی گاڑیوں پر برہمی کا اظہار کیا جاتا ہے، فصلوں کی باقیات اور کچرے وغیرہ کو جلانے سے منع کیا جاتا ہے، دھواں اُگلنے والی فیکٹریوں اور بھٹہ جات کو بند کیا جاتا ہے، یا پھر بھٹوں کے لیے نئی ٹیکنالوجی متعارف کروائی جا رہی ہے، کہ زِگ زیگ ٹیکنالوجی سے دھواں ضرر رساں نہیں رہتا۔ اکثربھٹے بند کر دیئے جاتے ہیں، ورنہ بھاری جرمانے ادا کرنے پڑتے ہیں، فیکٹریاں اور ملیں ویسے ہی بہت کم ہو چکی ہیں، بھٹہ جات اور فیکٹریاں بند ہونے سے مزدور بھی بے روزگار ہو جاتے ہیں اور مصنوعات اور اینٹیں بے حد مہنگی ہو جاتی ہیں۔ ہاں البتہ محکمہ ماحولیات اور اُس کے اہلکاروں کی آمدنی میں معقول اضافہ ہو جاتا ہے۔ محکمہ کو جرمانے کی صورت میں آمدنی ہو جاتی ہے اور اہلکاروں کو معاملہ نظر انداز کرنے کی خوشی میں کچھ نذرانہ مل ہو جاتا ہے۔ سموگ جب ختم کرنے میں ناکامی ہو جاتی ہے، تو پھر ہمارے پاس آخری حل یہی رہتا ہے کہ ماسک کو لازمی قرار دے دیا جائے، اُس کی بھی صرف سکولوں کے بچوں اور اساتذہ پر پابندی ہوگی، رہے عوام توانہیں حالات نے کافی سخت جان بنا دیا ہے۔
اگر لدھیانہ اور جالندھر کی آلودگی لاہور کا ماحول خراب کرتی ہے، تو لاہور، شیخوپورہ، گوجرانوالہ اور حافظ آباد سے اٹھنے والے دھوئیں کے بادل کہاں برستے ہیں، یہ کِن شہروں کا ماحول آلودہ کرتے ہیں؟ کیونکہ ہوائیں دھوئیں کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہیں۔ ڈپٹی کمشنر صاحبان تو بلا مبالغہ نہایت طاقت ور اور بااختیار ہستیاں ہوتی ہیں، پورے ضلع کے مالک۔ ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی بیوروکریٹ ترقی کے جتنے بھی زینے چڑھ جائے، اُس کا سب سے سنہری دور ڈپٹی کمشنر کا دورانیہ ہوتا ہے، زندگی بھر اُسی دور کی مثالیں دی جاتی ہیں اور اسے یاد کیا جاتا ہے، وجہ اس کی یہی ہے کہ انگریز کے زمانے سے صوبے میں دو عہدے ہی طاقتور رہے ہیں، ایک گورنر اور دوسرا ڈپٹی کمشنر۔ انگریزوں کی اِس سنت پر پون صدی گزرنے کے باوجود جوں کا توں عمل درآمد ہو رہا ہے۔ مگر آلودگی اور دھوئیں کو روکنے کے معاملہ میں ڈی سیز بھی ناکام رہے ہیں۔
فضائی آلودگی میں بھارت کے دارالحکومت دہلی اور لاہور میں بڑا سخت مقابلہ جاری ہے، کبھی لاہور پہلے نمبر پر ہوتا ہے تو کبھی دہلی پہلی پوزیشن حاصل کر لیتا ہے، مگر مجال ہے کہ یہ دونوں اہم اور بڑے شہر کسی تیسرے شہر کو اِس مقابلے میں قریب بھی پھٹکنے دیں۔ لاہور والوں نے تو لدھیانہ اور جالندھر پر آلودگی کا الزام دھر دیا، یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ دہلی کی اوّل پوزیشن میں کس شہر کا تعاون شاملِ حال ہے؟ نہ جانے لدھیانہ اور جالندھر ہی دہلی اور لاہور کے مقابلے کا موجب ہوں، ہوا کا رُخ دہلی کی طرف ہوگیا تو وہ اول آگیا، رخ ذرا دوسری طرف مڑا تو لاہور سبقت لے گیا، یوں دہلی یا لاہور کا کوئی کمال نہیں بلکہ اصل کارنامہ تو لدھیانہ اور جالندھر کا ہے۔بھارت کے دو اضلاع کا ذکر ہے تو پاکستان میں یہ خدمت چار اضلاع سرانجام دے رہے ہیں۔اس ضمن میں پاکستان پھر بھی آگے ہے۔
بھارت ہر سال اگست ستمبر میں خاص طور پر دریائے ستلج میں پانی چھوڑ دیتا ہے، جس سال پانی زیادہ ہو تو پاکستان میں تباہی بھی اسی حساب سے پھیلتی ہے، اِس سال بھی یہی ہوا۔مگر پاکستان کے پاس کوئی قانونی اور اخلاقی دباؤ ایسا نہیں تھا جو بھارت پر ڈال کر ستلج کو سارا سال ہی تھوڑا بہت رواں دواں رکھا جاسکے، اور سیلاب کے دنوں میں بہت زیادہ پانی چھوڑنے سے روکا جا سکے۔ جب ہم بھارت سے اتنی بڑی تباہی روکنے کے لیے کچھ نہیں کہہ سکتے تو یہ دو شہروں کی فصلوں کی باقیات کا دھواں کیسے رکوا سکتے ہیں؟اور خاص طور پر ایسی صورت میں جب اپنے ہی شہروں کا دھواں روکنے میں ہم لوگ کامیاب نہیں ہو سکے۔ یقینا اپنے اداروں کے اِس دھوئیں کا تجزیہ تو ضرور کروایا ہو گا کہ اِس میں کون کون سے عناصر شامل ہیں۔ ممکن ہے عوام کے ارمانوں کے جلنے کا دھواں بھی اِس میں شامل ہو، یا کچھ دھواں حالات سے تنگ لوگوں کے دل و دماغ جلنے سے اٹھ رہا ہو۔ دھواں جیسا بھی ہے، یہ طے ہے کہ کسی کے پاس اس کا علاج نہیں، اگر ہے تو وہ کرنا نہیں چاہتا۔ اُدھر بھارت کے جواب کا انتظار ہے۔ مگر جواب سے پہلے ایک اہم بات یہ ہے کہ خط لکھنا پڑے گا، جس کا ابھی فیصلہ ہو رہا ہے۔