بس! پانچ سال اور……
احمد خان
اگرچہ عام انتخابات کے انعقاد پر گزشتہ کئی ما ہ سے زور و شور سے لے دے ہو رہی تھی، اب مگر عام انتخابات پر چھا ئے شکوک کے بادل عدالت عظمیٰ نے صاف کرد ئیے ہیں، ایوان صدر اور الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کی تاریخ قوم کے نام کر دی ہے، آٹھ فروری کو طو ھاً کر ھا ً بلکہ لا زماً عام انتخابات ہو ں گے چونکہ عدالت عظمیٰ نے اہل خبر اور اہل قلم کو آٹھ فروری پر قائم رہنے کے احکام صادر فر ما ئے ہیں، سو آٹھ فروری کو ملک میں عام انتخابات ہو ں گے، عام انتخابات کی تاریخ سامنے آنے کے بعد سیاسی جماعتوں کے سر براہو ں اور سیاسی جماعتوں کے امید واروں نے پھر سے عوام سے رابطے بحال کر نے کے سو جتن شروع کر دئیے ہیں، ہر سیاسی جماعت اپنے اپنے اطوار اور انداز سے عوام کو سہانے سپنے دیکھا نے کے لیے پر تول رہی ہے، وہ سیاسی جماعتیں جو اقتدار کی کئی کئی باریاں لے چکی ہیں بلکہ کچھ احباب کے خیال میں جن کی اقتدار سے یاریاں رہی ہیں وہ سیاسی جماعتیں عوام کے سامنے پھر سے سے جھولیاں پھیلا نے کے لیے میدان میں اترچکی ہیں کہ پھر سے اگلے پانچ سال کے لیے اقتدار ہمارے نام کیجیے، ان سیاسی جماعتوں سے بس اتنا سا سوال ہے کہ کئی بار اقتدار میں آکر آپ نے عوام کے لیے کیا کار ہا ئے نما یاں سرانجام دئیے؟
آپ نے اقتدار میں آکر عوام کے زخموں پر مر ہم رکھنے میں کیا کردار ادا کیا، کیا ان سیاسی جماعتوں نے اقتدار میں آکر عوام کی زندگیاں آساں کیں، کیا ان سیاسی جماعتوں نے اقتدار میں آکر گرانی کے بے قابو جن کو بوتل میں بند کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں ما رے، بے روزگاری کے سیلا ب بلا خیز کے آگے بند باندھنے میں ان سیاسی جماعتوں نے کیا زریں کر دار ادا کیا؟ زراعت، صنعت، امن و امان اور ملکی معیشت کو ان سیاسی جماعتوں نے اقتدار میں آکر کتنی بار چار چاند لگائے؟ بار،بار،باریاں لینے والی سیاسی جماعتوں کے دور اقتدار میں کیا ہوتا رہا؟ گراانی میں کمی کے بجا ئے ہو ش رُبا بڑھوتری ہو تی رہی، ملک کا ہر شعبہ کمال کے بجا ئے زوال کی سیڑ ھیا ں اُتر تا رہا، روزگار کے محدود مواقع ان سیاسی جماعتوں کی غفلت اوراقرباپروری کی وجہ سے پھلنے پھو لنے کے بجا ئے سکڑتے رہے۔
انہی سیاسی جماعتوں کی عوام دشمن پالیسیوں اور اقدامات کی وجہ سے سرکار کے زیر کمان روزگار کے مواقعوں کو اب تالے لگ چکے، کاروبار کا حال خستہ تر ہے، تجارت کے شعبے کا کو ئی پرسان حال نہیں، کا رخانے اور فیکٹریاں بند ہورہے ہیں، قصہ مختصر بار،بار کی باریاں لینے والی سیاسی جماعتوں نے ملک کو ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف دھکیلا ہے، جن حکمرانوں کے دل میں ملک اور قوم کا درد ہو تا ہے،جن حکمرانوں کے دل میں اپنے ملک اور اپنے عوام کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ مو جزن ہوتا ہے، وہ سالوں کے بجا ئے چند ماہ میں ہی اپنے عوام کی بھلائی کے لیے وہ کچھ کر لیتے ہیں جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اغیار کی ترقی کے انبار کو پر ے کیجیے، اپنے اسلاف کی روشن نظیر اپنے سامنے رکھ لیجیے، شیر شاہ سوری محض چند سال ہندوستان کے حکمران رہے لیکن انہو ں نے قلیل عرصہ اقتدار میں عوام کی آسانی کے لیے کیا کیا کا رہائے نما یاں سر انجام دئیے، ان کے باقی عوامی خدمات کو ایک طرف رکھ لیجیے صرف ایک جرنیلی سڑک کو لے لیجیے، ایک شیر شاہ سوری کہ جنہو ں نے طویل جر نیلی سڑک ہندوستاں کو تحفہ میں دی، ادھر ہمارے باریاں لینے والے حکمراں ہیں کہ جن سے اقتدار میں جر نیلی سڑک کی مر مت ڈھنگ سے آج تک نہ ہو سکی، جن احباب کا جر نیلی سڑک سے گزر ہوتا ہے وہ اچھی طر ح جا نتے ہیں کہ سال کے بارہ ماہ اس سڑک کی مر مت جاری رہتی ہے، بڑے شوق سے اقتدار حاصل کر نے کے لیے عوام کے سامنے پنا دامن وا کیجیے، بڑے ذوق سے اقتدار بار بار اپنے نام کیجیے، لیکن عوام کی آنکھوں میں دھول جھو نکنے کے لیے ہی سہی کچھ تو عوام کے دکھو ں کا مداوا بھی کیجیے،یہ کیا کہ اقتدار میں آنے کے بعد اپنا الو سیدھا کیا اور پانچ سال کا عرصہ اقتدار کا لطف لینے کے بعد پھر سے عوام سے فر ما ئش کہ ہمیں اگلے پانچ سال کے لیے پھر سے اقتدار کی غلام گر دشوں میں پہنچانے کے لیے اپنے کندھے پیش کر دیجیے، آخر یہ تما شا کب تلک چلتا رہے گا، خدا را اب اس بچہ جمہورا طر ز کے تما شے کو ختم کر نے کی دل سے سبیل کیجئے، عوام کی آسانی کے لیے عوام کے مسائل کے حل کے لیے ٹھوس منشور کے ساتھ عوام سے رجوع کیجیے اور اگلے پانچ سالو ں میں عوام کی ایسی خد مت کیجیے کہ عوام کے سارے کے سارے مسائل اگر حل نہ سکیں کم از کم عوام کے بنیادی مسائل تو کسی حد تک حل ہو جا ئیں، اس دنیا میں عوام کو دھوکا دیا جا سکتا ہے لیکن روز حساب عوام کے حقوق کے باب میں اللہ کریم کو دھو کا دینا کسی طور ممکن نہیں، اپنے دلو ں سے دنیا کا حرص نکال کر عوام کی خدمت کا جذبہ اپنے دلوں میں جا گزیں کیجئے،اسی میں سیاسی جماعتوں اورملک و قوم کا بھلا ہے۔