شاعر مشرق علامہ اقبالؒ ایک عہد ساز شخصیت
تحریر:غلام مصطفی
بیسویں صدی کو اقبال کی صدی کہا جاتاہے کیونکہ اقبال ایک عہد ساز شاعر اور مفکر ہیں اوریہ بہت بڑے اعزاز کی بات ہے۔ انہوں نے شاعر ی میں بھی بالکل منفرد راستہ اختیار کیا۔ اقبال نے اپنی شاعری کے اعلیٰ وارفع خیالات سے اپنے عہد کے علاوہ آئندہ آنیوالے شعر وادب پر بھی دورس اثرات مرتب کئے اور یہی وجہ ہے کہ آج ایک صدی سے زائد کاعرصہ گزر جانے کے باوجود پوری دنیا میں نہ صرف اقبال کو پڑھاجا رہاہے بلکہ اس عالمگیر شاعر کے افکارو خیالات پر تحقیق وادب کا ایک مستقل شعبہ قائم ہوچکا ہے جو ”اقبالیات“کے نام سے موسوم ہے۔
برصغیر پاک وہند میں علامہ اقبال سب سے پہلے مفکرِ پاکستان اور قومی و ملی شاعری کے حوالے سے جانے جاتے ہیں اور یہی ان کی خاصیت و انفرادیت بھی ہے۔علامہ اقبال کی شاعری اور افکارو نظریات کو جامع و مختصر لیکن نہایت سہل انداز میں پیش کرنے کے لیے ان پر کئی کتب لکھی گئی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کی سوچ،شخصیت اور ارتقاء کو نمایاں کرنے کے لیے کئی لوگوں نے اہم کردار اد کیا ہے تاکہ اقبال کی سوچ اور فکر کو ایک عام آدمی تک پہنچایا جا سکے۔اقبال کے بعدشعرا وادب سے رکھنے والی شخصیات نے اقبال کے پیغام کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کیاہے جو ہمیشہ جاری وساری رہے گا۔اس عظیم مفکر نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو بیدار کیا اور انہیں اپنا کھویا ہوا وقار بحا ل کرنے کی ترغیب دی۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے وقت کے مسلمانوں نے بھی ان کی آواز پر لبیک کہا اور پھر برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے لیے ایک علیحدہ ریاست کے قیام کو ممکن بناکردکھایا۔اقبال شاعری کیساتھ ساتھ مضامین،مقالہ جات،خطبات،لیکچرز وغیرہ میں اہم موضوعات و رحجانات سے متعلق اپنی رائے بھی دیتے تھے اور اسے ثابت کرنے کے لیے ہرممکن دلائل پیش کرتے جس کی وجہ سے انہیں باقی لوگوں میں نمایاں حیثیت حاصل ہے۔
علامہ محمد اقبال 9نومبر1877 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور 21اپریل1938کو60سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ عقل سلیم سے سرشار یہ لافانی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ انہوں نے ایجوکیشن سکاچ مشن کالج سے (ایف۔ اے) کیا،گورنمنٹ کالج سے (B.A.، M.A.) کیا، کیمبرج یونیورسٹی سے (B.A.) کیا اور میونخ یونیورسٹی سے(پی ایچ ڈی) کی ڈگری حاصل کی۔ وہ فارسی اور اردو کے بہترین شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ فلسفی، مقالہ نگار اس کے علاوہ دیگر ڈگریوں کے حامل تھے۔ ان کی شاعری اسلامی اوصا ف کی علمدار ہے، اگر ان کی شاعری کا باریک بینی سے جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوتاہے وہ ایک ولی اللہ تھے، ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں لوگوں نے ان کے فلسفوں، شاعری اور تحریروں سے فائدہ اٹھایا ہے، انہیں پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتاہے کہ جیسے وہ علم وادب کا ایک ایسا چراغ ہیں جسے جلانے کے لیے لاکھوں شمعیں ہر وقت ان کے ارد گرد منڈلاتی پھرتی ہیں، اندھیروں میں سحر کاانتظار کرنے والی قومیں پیچھے رہ جاتی ہیں، اگر رات ہے تو آپ رات کو ہی چراغ جلا کر پڑسکتے ہیں، صبح ہونے کاانتظار کرنا ضروری نہیں ہے، کچھ سیکھنا چاہتے ہو تو سب سے پہلے ادب سیکھو تاکہ آگے بڑھنے کاراستہ آسانی سے سمجھ آجائے۔ اس وقت انسان ترقی کی ان منازل کو طے تیزی سے طے کررہاہے جس کا تصور بھی کبھی محال تھا، آج کی تیزرفتار ترقی نے جہاں انسان کے لیے آسانیاں پیدا کی ہیں وہیں ان کے لیے دیگر مشکلات بھی بڑھادی ہیں۔ کتنے افسوس کی با ت ہے کہ آج کا مسلمان روز گار کے حصول کے لیے امریکہ تک توجاسکتاہے، لیکن عرش پر لے جانے والی قریب ترین مسجد میں عبادت کرنے نہیں جاتا، انسان کو اپنے دنیا میں آواری کے مقاصد کو کبھی نہیں بھولنے چاہیے، اللہ کی بنائی ہوئی ہر چیز میں حکمت موجود ہے، اسی طرح قرآن کے ہر ہر حرف میں علم کا سمندر موجود ہے، جنہیں پانے کے لیے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے، جس نے قرآن کو سمجھ لیا، اس نے علم کو پالیا، علم کی ساری منزلیں قرآن ہی سے شروع ہوتی ہیں، قرآن ہمیں اتنی معلومات فراہم کرتاہے اگر ہم اس کے حرف بہ حرف کی تشریح کریں اور اس پر تحقیق کریں تو قیامت آسکتی ہے لیکن ہماری تحقیق مکمل نہیں ہوسکتی، لہٰذا آپ جتنا قرآن سے استفادہ حاصل کرسکتے ہیں کریں۔
قرآن انسان کے علم میں ایک ایسا نور پیداکرتاہے جس کے باعث آپ اپنے سے میلوں دور اندھیروں میں پوشیدہ کسی بھی چیز کو دیکھ کر سمجھ سکتے ہیں۔ آپ کبھی بھٹکیں گے نہیں اگر کامل ایمان کے ساتھ اسے سمجھنے کی کوشش کریں تو یہ آپ کے سامنے ایسے ایسے راز فاش کرے گا جس کاتصور بھی کبھی آپ کے ذہن سے نہیں گزرا ہوگا۔ غرض یہ ہے کہ علم کوحاصل کرنے کے لیے علم والوں سے لگاؤ لگانا ہوگا، انہیں سمجھنا ہوگا، جس طرح کسی لائن کو پڑھنے کے لیے آپ کو حرف بہ حرف سیکھنا پڑتاہے اسی طرح اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے لیے آپ کو اللہ والوں سے سیکھناہوگا، ہر شخص اپنی منزل کا تعین اپنے اردگرد کے ماحول اور ذہنی سوچ کے مطابق کرتاہے، اس کاماحول اس کی ذہن سازی کرتاہے، اس لیے اچھے ماحول میں بیٹھنے کو اپنا وطیرہ بنالیں، تاکہ اچھائیوں کو جان سکیں اور اچھے برے کی پہچان ہوسکے۔علم کوحاصل کرنے کے لیے علم والوں کے پاس جانا ضروری ہے، آج ہم نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ ہر شخص خود عالم بن چکاہے، خود مفتی بن چکاہے، خود پروفیسر بن چکاہے، اب ہر شخص ہرقسم کے فیصلے کرنے کاماہر بن ہوچکاہے، لیکن یہ سارے معاملے اس سے قبل اس طرح نہیں ہوا کرتے تھے، معاشروں کے کچھ اصول ہوتے ہیں، جنہیں اپنانے کی ضرورت ہے، تاکہ معاشرے میں استحکام پیدا ہو، آپ علم ضرور حاصل کریں لیکن اس علم حاصل کرنے کے بعد روشنی بنیں، کانٹیں نہ بنیں، اندھیرے نہ بنیں، ملک وقوم کی خوشحالی کے لیے اپنی روشنی کو پھیلائیں تاکہ رات کے اندھیروں میں بھی لوگوں کو جینے کاحوصلہ میسر آسکے انہیں جینے کی امید دلائیں اپنے مشن کو نیکیوں کے حصول کاذریعہ بناڈالیں،پھردیکھیں آپ کے اکاؤنٹ میں نیکیوں کا اس قدر ذخیرہ جمع ہوجائے گا جو مرنے کے بعد جب آپ کو معلوم ہوگا تو آپ کادل باغ باغ ہوجائے گا آپ تمنا کریں گے کاش دنیا میں گزارا ہوا ایک ایک لمحہ اللہ کی راہ میں گزار دیتا۔
علامہ اقبال کے کنبہ کاتعلق کشمیری پنڈت (ساپرو قبیلہ) سے تھا جس نے 15 ویں صدی میں اسلام قبول کیاتھا۔ 19 ویں صدی میں جب سکھ سلطنت کشمیر فتح کررہے تھے، تو ان کے دادا کا کنبہ پنجاب منتقل ہوگیا۔
(جاری ہے)