’مسلح فوجی اور ایک نہتی لڑکی‘: جنوبی کوریا میں مارشل لا کے خلاف مزاحمت کی علامت بننے والی ’آہن‘
جنوبی کوریا میں منگل کی رات کو جب اچانک مارشل لگایا گیا تو اس کے بعد پیش آنے والے واقعات میں سے چند ایسے مناظر بھی تھے جو ملک کی تاریخ کا اہم حصہ بن چکے ہیں۔
ایسا ہی ایک منظر جس نے جنوبی کوریا سمیت دنیا بھر میں لوگوں کی توجہ حاصل کی وہ مسلح فوجیوں کے سامنے ڈٹ جانے والی ایک خاتون تھیں۔ ان فوجیوں کو جنوبی کوریا کی پارلیمنٹ کے باہر اس مقصد سے تعینات کیا گیا تھا کہ وہ اراکین اسمبلی کو اندر نہ داخل ہونے دیں۔
لیکن یہ خاتون کون تھیں؟
35 سالہ آہن گوی ریونگ جنوبی کوریا کی حزب مخالف جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کی ترجمان ہیں۔ ان کی وائرل ہو جانے والی فوٹیج میں دیکھا گیا کہ وہ ایک فوجی کی بندوق پکڑ کر جیسے چھیننے کی کوشش کر رہی ہیں۔ تاہم وہ ایسا کرنے میں ناکام رہتی ہیں اور اس دوران فوجی اہلکار کی جانب سے ان پر گولی نہیں چلائی جاتی۔
اس ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد پاکستان میں بھی سوشل میڈیا پر ان خاتون کا تذکرہ ہوا اور حال ہی میں اسلام آباد میں تحریک انصاف کے احتجاج سے موازنہ کیا گیا۔ تحریکِ انصاف کے حمایتی اکاؤنٹس کی جانب سے یہ تبصرہ کیا گیا کہ ’جنوبی کوریا میں فوج کی جانب سے تحمل کا مظاہرہ کیا گیا۔‘
واضح رہے کہ تحریک انصاف کا الزام ہے کہ 26 نومبر کو پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران مبینہ طور پر سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے فائرنگ کے نیتجے میں 12 افراد ہلاک ہوئے۔ تاہم پاکستان کی وفاقی حکومت نے فائرنگ ہونے کے ساتھ ساتھ ہلاکتوں کی بھی تردید کی ہے۔
آہن گوی ریونگ نے بتایا کہ ’میں نے کچھ سوچا نہیں، میں بس یہ جانتی تھی کہ ہم نے ہی اس کو روکنا تھا۔‘
ایک جانب جنوبی کوریا کی فوج قومی اسمبلی کے باہر تعینات ہو رہی تھی تو دوسری جانب آہن بھی مارشل لا لگنے کی خبریں سنتے ہی پارلیمنٹ کے باہر پہنچی تھیں۔
اس سے قبل ملک کی سب سے بڑی حزب اختلاف جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ، لی جائی میونگ، نے اراکین اسمبلی کو پارلیمان پہنچنے کی درخواست کی تھی تاکہ مارشل لا کے خلاف ووٹ ڈالا جائے اور انھوں نے عام شہریوں سے بھی التجا کی کہ وہ پارلیمان پہنچ کر احتجاج کریں۔
انھوں نے کہا تھا کہ ’ٹینک، بکتر بند گاڑیاں اور بندوقوں سے لیس فوجی ملک پر حکومت کریں گے، میرے ہم وطنو، قومی اسمبلی پہنچو۔‘
جنوبی کوریا کی نوجوان نسل کی اکثریت کی طرح مارشل لا کا لفظ ہی ان کے لیے اجنبی تھا۔ یاد رہے کہ جنوبی کوریا میں آخری بار سنہ 1979 میں مارشل لا لگایا گیا تھا۔
آہن کہتی ہیں کہ جب انھوں نے یہ خبر سنی تو پریشانی کا احساس ان پر حاوی ہو گیا۔
جنوبی کوریا میں مارشل لا کے تحت سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے اور میڈیا کو بھی کنٹرول کیا جاتا ہے۔ خلاف ورزی پر وارنٹ کے بغیر گرفتاری کا اختیار ہوتا ہے۔
آہن کو یاد ہے کہ وہ تقریبا رات 11 بجے کے بعد اسمبلی پہنچی تھیں جہاں سب سے پہلے انھوں نے آفس کی لائٹ بند کر دی تاکہ کوئی ان کی موجودگی سے واقف نہ ہو جبکہ باہر انھیں ہیلی کاپٹر گردش کرتے دکھائی دے رہے تھے۔
مرکزی عمارت تک رسائی حاصل کرنے پر انھوں نے دیکھا کہ اسمبلی کا عملہ اور عام شہری فوجیوں کے سامنے کھڑے ہیں اور تناؤ موجود ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جب میں نے مسلح فوجیوں کو دیکھا تو مجھے ایسا لگا جیسے تاریخ واپس لوٹ رہی ہے۔‘
آہن اور ان کے ساتھیوں کی کوشش تھی کہ فوجیوں کو عمارت میں داخل ہونے سے روکا جائے جہاں مارشل لا کے خلاف ووٹ ڈالا جانا تھا۔
انھوں نے عمارت میں داخل ہونے کے دروازے اندر سے بند کر دیے اور فرنیچر سمیت جو بھاری شے دکھائی دی، اسے دروازے کے سامنے رکاوٹ کے طور پر رکھ دیا۔
ایسے میں فوجی عمارت میں داخل ہونے کے ارادے سے آگے بڑھے تو آہن ان کے سامنے کھڑی ہو گئیں۔ وہ اعتراف کرتی ہیں کہ ’سچ یہ ہے کہ میں پہلے خوفزدہ تھی لیکن میں نے سوچا میں خاموش نہیں رہ سکتی۔‘
رات ایک بجے اسمبلی میں مارشل لا ہٹانے کی قرارداد منظور ہوئی جس کے تین گھنٹے بعد صدر نے اپنا فیصلہ واپس لینے کا اعلان کیا۔ افراتفری کا ماحول ختم ہوا تو آہن کچھ دیر کے لیے اسمبلی میں ہی سو گئیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’میں صبح باہر نکلنے سے ڈر رہی تھی کیوں کہ ٹیکسیاں نظر نہیں آ رہی تھیں اور رات کے طوفان کے بعد حقیقت میں لوٹنا مشکل لگ رہا تھا۔‘
آہن نے وہی سیاہ لباس اور جیکٹ پہنچ رکھا تھا جس میں انھیں منگل کی رات دیکھا گیا۔ اس دوران ایسے لمحات بھی آئے جب جذبات ان پر حاوی ہو گئے۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ بہت دکھ اور مایوسی کی بات ہے کہ 21ویں صدی کے جنوبی کوریا میں ایسا ہوا۔‘