شاردا و مضافات کا سیاحتی مستقبل
خیرزمان راشد
زمین کے قدرتی ماحول کے فطری توازن کے لیے ہر نوع کی بقا اور ایک حد تک اس کی بڑھوتری لازمی ہے۔ جمادات، نباتات خودکار نظام کے تحت مناسب حد تک رہتے ہیں۔ لیکن انسانی آبادیوں میں اس قدرتی ماحول کو جو نقصان پہنچتا ہے۔ اس کے لیے انسانوں کو خود کو شش کرنا ہوتی ہے۔ انسانی تہذیب کے مشینی اور پھر اس سائبر دور نے قدرتی ماحول کو بہت نقصان پہنچایا اور کئی انواع کو ناپید کردیا ہے۔ اور کئی خطرے میں ہیں۔ اس صورت حال کے حوالے سے ایک عالمی حساسیت بھی موجود ہے۔
لیکن ریاستوں کی ناقص کارکردگی اور باہمی مناقشوں اور کاپوریٹ مفاد کی وجہ سے اس نقصان کا ازالہ کماحقہ نہیں ہو پارہا۔ حالانکہ انسانی دنیا میں اس صورت حال کے حوالے سے بنیادی شعور اور اقدامات کے ساتھ ازالے کے لیے بھی قانون سازی اور تحرک موجود ہے۔ ماحول کا فطری توازن مقامی اور عالمی سیاحت کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس کالم میں وادی نیلم کے تاریخی قصبہ شاردا کے حوالے سے چند معروضات عرض ہیں۔
یہ بات یقینی ہے کہ مستقبل قریب میں شاردا ایک کوریڈور اور سیاحتی مرکز ہوگا۔ لیکن امکان ہے کہ آر پار راستے کھل جاتے ہیں تو سیاحت اور زائرین کی مشترکہ آمدورفت اس کی اہمیت اور بھی بڑھا دے گی۔ یوں اس خطے کی سیاحتی اور زیاراتی اہمیت تقاضا کرتی ہے کہ یہاں کے سیاسی اور سیاحتی ماحول کو آلودگی، بے ہنگم تعمیرات جنگلات کے کٹاؤ اور ادویاتی جڑی بوٹیوں کے غیر دانشمندانہ استعمال سے بچایا جائے۔جس کے لیے لوگوں کے شعور کی بیداری اداروں اور اہل سیاست کو متوجہ کرتے رہنا لازمی ہے۔
اس وقت شاردا میں یہاں کے ماحول کو چند بڑے خطرات درپیش ہیں۔ سب سے بڑا خطرہ جنگلات کا کٹاؤ اور قدرتی ایکو سسٹم کی تباہی ہے۔ اس تباہی میں 1990 کے بعد پندرہ سال تک فائرنگ اور خشک سالی بھی ایک وجہ رہی۔ جنگلات بارودی ماحول کی وجہ سے بھی متاثر ہوئے، ان اثرات سے درخت خشک ہونے لگے اور قدرتی سدا بہار اور بلندی کے درخت اور پودے ریڈ زون میں شمار ہوئے۔ اس دوران آتش زدگی کے واقعات بھی اس نقصان میں اضافہ کرتے رہے اور لوگوں کا جنگلات پر انحصار بھی نقصان کی بڑی وجہ بنا۔
نیلم میں نئے جنگل کے لیے حکومت کا شعبہ تجدیدِ جنگلات پہلے سے موجود تھا لیکن اسی کی کارکردگی تسلی بخش نہ تھی۔وہ گزشتہ پچاس سال سے تجدید کی پالیسی میں ناکام رہا جس کی وجہ کرپشن اور سیاسی عمل دخل کے علاوہ تجدید جنگلات کا روایتی طریقہ کار ہے۔ اس لیے کہ یہ طریقہ جنگلات کے نقصان کو کم کرنے میں محدود پیمانے پر ہی مفید رہتا ہے۔ یہ دیر پا اور پائیدار حل نہیں۔ جنگلات اور اس کے ایکو سسٹم کو بچانے کا واحد پائیدار حل قدرتی جنگلات کو بچانا ہے۔ جس میں عوامی شعور اور شرکت سے حکومت اور متعلقہ محکمہ جات کی خوش دلی اور ذمہ داری سے شمولیت ناگزیر ہے۔بد قسمتی سے محکمہ جنگلات نے کبھی بھی جنگل بچانے کے لیے سنجیدہ منصوبہ اپنے سسٹم کا حصہ نہیں بنایا۔ ان کی دلچسپی کاٹنے سے رہی جو کہ آمدن کا ایک یقینی ذریعہ ہے۔ شاردا و مضافات میں بھی محکمہ اور وزارت اسی اصول پر کاربند رہی۔یہاں برفانی موسم چار سے چھے ماہ تک رہتا ہے۔ اس دوران لوگ جنگلات سے ایندھن حاصل کرتے ہیں۔ اور مکانات کی تعمیرات کا انحصار بھی زیادہ تر جنگلات کی لکڑی پر ہے۔ اب جنگلات کے اس استعمال کے ساتھ جدید مشینری اور سڑکوں کے جال کی وجہ سے سمگلنگ کے لیے ایک ٹمبر مافیا بھی وجود میں آ چکی ہے۔ یوں سیاسی اور محکمانہ عمل دخل اور سہولت کاری کے باعث جنگلات کے اس نقصان میں تیزی آچکی ہے۔ اس کے لیے بارہا متبادل پلان کے لیے تحریک کی گئی۔کچھ این جی اوز نے بھی تعاون پیش کیا لیکن جن لوگوں کی آمدن اور ضرورتوں کا انحصار اس جنگلات پر ہے۔ وہ ہمیشہ آڑے آتے رہے۔
شاردا و مضافات میں قدرتی جنگلات کی کمی کے باوجود سیاحت کا پوٹینشل بہت زیادہ ہے۔ یوں سیاحت کے فروغ کے بڑھتے امکان کے ساتھ یہاں سیاحت مافیا بھی سرگرم ہوگی۔ جو آج آلودگی اور بے ہنگم اور بڑی عمارات کی تعمیر کے لیے ماحول اور جنگلات کا صفایا کر رہی ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ ماحول کو بگاڑنے میں ادارے مقامی لوگوں کے علاوہ مظفرآباد اور اسلام کی طرف کے کچھ سرمایہ کار بھی شامل ہیں۔پانی کی روایتی گزرگاہوں میں رکاوٹ پیدا کرنا کس قدر نقصان دہ ہے۔یہ اب ہر شخص جانتا ہے، لیکن سرگن اور کیل سے آنے والے کشن گنگا کے سنگم پر ایک بیورو کریٹ وجاہت رشید بیگ نے ایک مقامی آدمی سے زمین لے کر اس پر دریا کی گزرگاہ میں تعمیرات شروع کردیں۔ لوگوں اور میڈیا کی مخالفت اور احتجاج کے باوجود یہ تعمیرات جاری ہیں۔ایسے ہی نالہ سرگن میں میتاں والی سیری دریا متصل ایک اور شخص انعام الرحمن ہے، جس نے کچھ زمین خرید کر اور باقی خالصہ سرکار پر نگاہ رکھ کر قبضہ شروع کردیا ہے۔کھری گام کی طرف بھی کشن گھاٹی کے بالکل سامنے سردار قمر الزماں صاحب نے دریا پر قبضہ جمالیا ہے۔ ایسے ہی سرگن لسیاں کے مقام پر ایک پارٹی نے دریا اور ایک نالہ کے درمیاں کا بہت بڑا رقبہ لے کر کام شروع کردیا۔۔ اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کچھ مقامی بھی ان کے ساتھ ہیں۔ یہ بڑے سرمایہ دار ماحول کا کتنا شعور رکھتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں۔ البتہ البتہ یہاں کے قدرتی ماحول کو تباہ کرنے کی ایک بڑی بنیاد رکھ چکے ہیں۔ سیاحتی علاقے میں کنکریٹ کے پہاڑ کھڑے کرنا اس علاقے کے قدرتی حسن اور ماحول کے لیے زہرناک ہے۔ صرف یہی نہیں کسی ممکن حادثے میں یہ تعمیرات بہت زیادہ تباہی کا باعث ہوتی ہیں۔ شاردا میں یہ سب تعمیرات دریا کے کنارے اور دریا یا پانی کے راستوں میں تعمیر کی جا رہی ہیں۔
اس حوالے سے مقامی لوگوں کے بھی تحفظات ہیں اور چند لوگوں کے فوائد بھی ہیں، لیکن ماحول کے حوالے سے احساس رکھنے اور کام کرنے والے احباب اس پر متفق ہیں کہ یہ مقامی لوگوں کی حق تلفی کے ساتھ آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے خطرہ ہے۔یہ تعمیرات یہاں کے قدرتی ماحول کو خراب کر رہی ہیں۔ ان عمارتوں کا سیوریج سسٹم دریا میں گرتا ہے۔ تعمیرات اور بالن کے لیے بھی یہ لوگ جنگل سے لکڑی لاتے ہیں۔ ریپر اور کچرا بڑھنے لگا ہے۔ قدرتی سبزہ قریباً کم ہوتا جا رہا ہے۔ جنگلات بھی مسلسل ہر سال کم ہو رہے ہیں اور جنگلی حیات کے لیے خوف کا ماحول ہے۔
پانی کی گزرگاہ پہ کنسٹرکشن اور خاص طور پر بھاری تعمیرات مستقبل کی کسی سیلابی صورت میں تو بہت خوفناک جائیں گی، اور پانی اپنے راستوں سے ہٹ کر نقصان کرے گا۔ضروری ہے کہ سیاحتی علاقوں کے لیے کنسٹرکشن پالیسی نافذ ہو۔ ماحولیات کے ماہرین اور وزارت کی اپروول کے بغیر سیاحتی اور کاروباری عمارات کی کوڈ لاگو کیا جائے۔ پانی کی گزرگاہ اور جنگلات کے قریب صرف عارضی اور کیمپنگ سہولت ہو۔اس حوالے سے مقامی غیر مقامی کی تفریق بالکل نہ ہونی چاہیے۔ ستم یوں ہوتا ہے کہ مقامی لوگوں کے پاس وسائل نہیں ہوتے اور ان کی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ وہ واجبی سی قیمت پر زمیں دے دیتے ہیں۔
لینڈ مافیا سیاحتی علاقوں میں چند کنال خرید کر آس پاس شاملات پر قبضہ کر کے وہاں فوری تعمیرات شروع کردیتی ہیں۔ ایسی ہر واردات میں علاقے کے چند باثر محکمہ مال اور انتظامیہ ساتھ شامل ہوتی ہے۔ یہ سب وقتی فوائد ہیں اور دیر پا نقصانات ہیں۔اس حوالے سے عمومی شعور کی کمی محکمانہ کرپشن نہ اور مفاد پرستی بہت بڑا خسارہ کرتی ہے۔شاردا و مضافات کے پہاڑ دریا درخت اور پتھر یہاں کے قدرتی ماحول کا زیور اور حصہ ہیں۔ وادی اپنے قدرتی اثاثوں کے ساتھ وادی کہلاتی ہے۔ جنگل سبزہ دریا کھلا آسماں اور صاف ستھرا ماحول قدرت کا سنگھار ہے۔ فطرت کو بچانے کی ہر کوشش ایک مقدس فریضہ ہے۔ اس لیے کہ انسانی عمل دخل سے فطرت کو بہت نقصان پہنچتا ہے۔ اس زمانے میں جب قوانین ضوابط اور ریاستیں اتنی طاقتور نہیں تھیں۔ لوگوں نے ماحول کو بچانے کے لیے اسے عقیدے کا درجہ دیا۔ہندوستان کے قدیم مذاہب میں فطرت سے وابستگی اور بقا ایک مذہبی عقیدہ ہے۔ حتی کہ درختوں کو بچانے کے لیے عورتوں نے بھی جاں کی بازی لگائی ہے۔ قدرت کا حسنِ انتظام ہے کہ انسان جہاں ابتدا سے ہی فطرت کے لیے نقصان کی وجہ بنتا رہا ہے۔ وہیں اسے بچانے اور محفوظ رکھنے والے بھی موجود رہے ہیں۔ درختوں پودوں دریاؤں ماحول اور قدرتی وسائل کی تقسیم ہوچکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ قدرتی اثاثوں میں ہماری آنے والی سب نسلیں حصہ دار ہیں۔ ہم صرف اپنے حصے کا خرچ کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ فطرت دوستی اور فطرت کے ساتھ نہ چھیڑنا انسان کے مہذب ہونے کی علامت ہیں۔ شاردا جو مستقبل کا تہذیبی ورثہ ہے۔ سیاحتی سے ایک مرکزی حیثیت کی حامل وادی ہے۔اس کے قدرتی ماحول کو نقصان پہنچانا اور یہاں دریاؤں کے کنارے بے ہنگم تعمیرات کے ذریعے ماحول اور سیاحتی سپاٹ کو کاروباری لالچ کی وجہ سے تباہ کرنا ناقابل معافی جرم اور قدرت کے خلاف جنگ ہے۔شاردا کو بچانے کے لیے مقامی غیر مقامی کی عصبیت سے ہٹ کر آواز اٹھانی چاہیے۔ یہاں کے لیے مخصوص بلڈنگ کوڈ مرتب ہوں اور ہر کمرشل تعمیر سے پہلے باقاعدہ ماحول دوست کنسٹرکشن کا سرٹیفکیٹ لیا جائے۔ماحول کے حوالے سے جائزہ اور منظوری ان بلڈنگ کوڈ میں شامل ہو۔دریاؤں کے سنگم اور کناروں پر صرف عارضی تعمیرات کی اجازت دی جائے اور وہ بھی کم سے کم ماحول کو متاثر کرنے کی گارنٹی کے ساتھ شاردا کی جڑواں وادی سرگن جہاں پہلے سے ایک نیشنل پارک موجود ہے لیکن اسے فعال نہیں سمجھا جا رہا۔ اب اسے وسعت دے کر شاردا کو بھی شامل کیا جائے اور بین الاقوامی معیار کا نیشنل پارک اور علاقے کو تاریخی ورثہ قرار دے کر محفوظ کر لیا جائے۔یہ مستقبل کی ضرورت اور یہاں کی نسلوں کی بقا کی ضمانت ہے۔