لمز کے طالبعلم اور جناب وزیراعظم!
ساجدہ شکیل
زندگی میں کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ تمام لوگ اندھے ہو جائیں،اپنی بینائی سے محروم ہوجائیں یا پھر کانے ہو جائیں اور اپنا الو سیدھا کرتے جائیں اور کوئی دیکھ نہ سکے۔ایک حساس انسان اگر کچھ کر نہیں سکتا تو ایک الگ بات ہے مگر وہ دیدہ گریہ سے کام ضرورکر لیتا ہے۔کبھی یہ نہیں ہوا کہ ہوا کہ کل کائنات کے انسان بہرے پن کا شکار ہو جائیں اور نقار خانے میں طوطی کی آواز کوئی نہ سنے۔کبھی ایسا نہیں ہوا کہ عوام کی عقل و خرد الجھاہٹ کا شکار ہو جاؤ اور صرف آپ ہی اپنے مطابق سوچتے جائیں اور جو جی آتا جائے وہ کرتے جائیں اور اپنی ہی سوچ و فکر کو اپنے ہی خیالات کا پیرہن پہناتے جائیں۔فرعون نے اپنے عہد میں پیدا ہونے والے ہر بچے کو تہہ و تیغ کروا دیا تھا مگر جس بچے نے اس کا تخت،تختے میں تبدیل کرنا تھا اسے اس کے محل میں پروان چڑھایا۔
تاریخ گواہ ہے کہ اسی بچے نے فرعون کو غرقِ آب کیا اور جس کی مثال آج تک دی جاتی ہے۔جانوروں میں ہاتھی دنیاکا طاقتور جانور ہے اور چیونٹی دنیاکی کمزور ترین مخلوق ہے۔چیونٹی ہاتھی کی سونڈ پر کاٹے تو ہاتھی کو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔مچھر دنیا کا حقیر ترین حشرات الارض میں ہے مگر اس نے نمرود جیسے ظالم کے دماغ میں گھس کر اسے روزانہ کی بنیادوں پر اپنے سر پر”چھتر“یا ”لتر“کھانے پر مجبور کر دیا۔دنیا میں اس طرح کی لاکھوں مثالیں ہیں جو بڑے بڑے فرعونوں،نمرودوں،حکمرانوں،بیوروکریٹوں اور ظالموں کو اپنا گریبان دکھانے اور اپنی اصل دکھانے کے لیے موجود ہیں۔میر درد نے ایسے نہیں کہا تھا کہ
دردِدل کے واسطے پیدا کیا انساں کو
ورنہ اطاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرّوبیاں
انسان جب اپنی اصل نہیں سیکھتا تو زوال اس کا مقدر بن جاتا ہے اور جب کسی نااہل کے ہاتھ آجاؤے تو ملک کو قوم کی تباہی مقدر میں لکھی جا چکی ہوتی ہے۔اگر بندر کو ماچس کی تیلی جلانی آجاتی تو آج جنگل کے جنگل بھسم ہو جاتے اور آگ کبھی گل گلزار نہ ہوتی۔
پچھلے دنوں لمز یونیورسٹی میں نگران وزیر اعظم کی بوکھلاہٹ دیدنی تھی۔ہم بھی وہاں موجود تھے ہم نے دیکھا چرچا تیرا والی بات صادق آئی۔لمز یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس نے اپنے شعور،اپنی خر دعقل اور کمال جرأت کی دلیرانہ تاریخ رقم کردی۔انہوں نے وہ کام جو ہمارے نامی گرامی ریڈی میڈ عوام نہ کر سکے جو ہمارے آباء نہ سکے۔ طالب علموں نے یہ بات ثابت کر دی کہ رب ذوالجلال نے علامہ محمد اقبالؒ کی یہ بات اور دعا قبول فرمالی ہے:
خرد کو…… غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
ان شاہینوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہمارا بسیرا پہاڑوں کی چٹانوں پر بھی ہو سکتا ہے اور ہماری دنیا آسمانوں سے بھی آگے ہے جو ابھی ہم نے مسخر کرنی ہے۔
طالب علموں کے سادہ سادہ سے سوال سن کر نگران وزیراعظم کا رنگ پیلا پڑ گیا بلکہ خون بھی خشک ہونے لگ گیا حالانکہ ان کے اندر خون کی کمی بھی نہ تھی۔ اوسان خطا ہوگئے۔دماغ میں گھنٹیاں بجنے لگ گئیں۔کانوں سے دھواں نکلنے لگ گیا۔ چہرے پر بارہ بج گئے حالانکہ ان کے تو پہلے ہی اپنے بارہ بجے ہوئے ہیں۔ چودہ طبق روشن ہوگئے بلکہ سولہ طبق روشن ہونے کے قریب ہو گئے۔ پیروں تلے سے زمین نکل گئی بلکہ سانس نکلنے کے لیے تیار ہو گئی۔ ہاتھوں اور پیروں دونوں کے طوطے اڑگئے۔ عمران خان کے دیے ہوئے شعور نے کاکڑ کو حواس باختہ کردیا بلکہ بے حال کردیا۔ وہ کرسی پر کبھی دائیں اور کبھی بائیں پہلو بدلتے رہے بلکہ کرسی ہی تو ان کی پسندیدہ چیز ہے جس کے لیے انہیں مدتوں محو منتظر رہنا پڑتا ہے۔ ہاتھ ملتے رہے۔کف افسوس ملتے رہے اور بار بار پانی پیتے رہے بلکہ پانی پانی ہوتے رہے جو اس سے پہلے وہ کبھی نہیں ہوئے ہوں گے۔ سوچ سوچ کر پریشان و حیران ہو رہے تھے کہ میں تو انہیں ممی ڈیڈی کلاس کے برگر بچے سمجھ رہا تھا۔ لیکن۔ یہ تو مسائل زدہ عوام، اقتصادیاتی بد حالی، 90 روز میں انتخابات کے انعقاد کی بات کر رہے ہیں اتنا شعور ان میں کہاں سے آگیا۔یہ عقل مند کیسے ہو گئے۔ہم تو اس عوام کو اندھا،گونگا اور بہرہ سمجھتے تھے۔ ان گستاخوں نے تو مجھے وضاحتوں کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔میرے پاس تو ان کے سوالوں کے جوابات ہی نہیں۔حالانکہ یہ سچے ہیں۔ یہ طالب علم تو عوامی و سیاسی، قومی و بین الاقوامی اور آئینی و قانونی معاملات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ میں انہیں نادان اور بے خبر سمجھتا رہا لیکن یہ توبخوبی جانتے ہیں۔ انہیں مطمئن کرنا آسان نہیں۔ وہ آئیں بائیں شائیں کرتے رہے اور ادھر سے اْدھر کی ہانکتے رہے۔ نگران وزیر اعظم طالب علموں کو 9 مئی کا لولی پوپ دے کر بھی مطمئن نہ کر سکے۔
لمز کے جوانو! تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں۔تم ہی اس قوم کے مسیحا ہو۔تم ہی اس قوم کے نباض ہو مگر آپ ابھی انہیں بد تمیز اور گستاخ کہہ رہے ہو کل انہیں باغی اور دہشت گرد قرار دیکر ان کے گھروں پر تاتاریانہ دھاوے بول کر چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کرنے سے باز رہیے۔انہوں نے ٹھیک سوچا ہے اور سچ کہا ہے۔یہ ان کا حق ہے اور یہ ان کا فرض بھی ہے۔ہمیں اس بات کی خوشی ہونی چاہیے کہ ہم نو نہالان وطن قوم و ملک کے لیے سوچنے کے قابل ہو گئے ہیں اور ان کا درد ان کے دل میں موجود ہے۔