ہسپانیہ پہ کیوں حق نہیں؟
اسرائیلی وحشت و بربریت اپنے نقطہ کمال پر اور امریکہ اسرائیل گٹھ جوڑ،عالمی برادری اور امت مسلمہ پر عیاں ہو چکا باوجود اس کے کہ غزہ میں ہر سو قیامت صغریٰ کہ لاشیں بے گور و کفن، ہر گھر میں صف ماتم، کہ جنازے اٹھانے والا کوئی نہیں اور زمین شہدا کے خون سے رنگین، اشکوں کا سیل رواں اور ہر سو شام غریباں، مگر مسلم حکمران اب تک روایتی بے حسی کا شکار، کئی ایک کو اسرائیلی اور بعض کو امریکی ناراضگی کا خطرہ، انہی خدشات اور ذلت پر مبنی مفاہمتی پالیسی نے عالم اسلام کو بزدل بنا رکھا ہے کہ جنگ نہیں مگر موقف تو مشترکہ ٹھوس اور جاندار،مسائل بات چیت سے ہی حل ہوتے ہیں اور اب تو امریکہ سمیت مغربی ممالک کے عوام بھی کھلم کھلا اسرائیلی جارحیت پر سراپا احتجاج کہ غزہ کے شہدا کے مقدس خون نے عالمی سطح پر عوامی ضمیر بیدار کر دیا مگر مسلم ممالک کے ضمیر کو بیدار کرنے کے لیے مزید کتنی قتل و غارت گری درکار ہو گی!!! کیونکہ امت کا جسد واحد تو فالج زدہ ہو چکا کہ جسے درد کا احساس ہی نہیں رہا تو دوسری طرف ہماری بدقسمتی کہ ہم اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی مغربی تنظیموں سے انصاف کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔
مسلم اقوام نے کبھی سوچا کہ اقوام متحدہ نے اپنے قیام سے لیکر آج تک مسلم ممالک کے تنازعات میں کبھی مثبت کردار ادا کیا؟کیا اقوام متحدہ کی چھتری تلے لیبیا، عراق، افغانستان میں آتش و آہن کی بارش اور لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام نہیں کیا گیا؟المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے چیئرمین برادرم عبدالرزاق ساجد نے بجا کہا کہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری فلسطین بارے اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام رہی، اس سوال کا جواب بھی کسی کے پاس نہیں کہ کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ 70 سالوں سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود کیوں حل طلب ہے؟بھارت اور اسرائیل کو عالمی برادری کیوں لگام نہ دے سکی؟اقوام متحدہ کے دوہرے معیارات طشت ازبام ہو چکے مگر اس کے باوجود باضمیر اقوام حرکت میں آتی ہیں اور نہ او آئی سی اس سے سبق سیکھتی ہے، اس نااہلی کا خمیازہ عالم اسلام کو گزشتہ دو دہائیوں کے دوران دس لاکھ سے زائد مسلمانوں کے قتل عام اور فلسطین و کشمیر میں بدترین مظالم کی صورت میں سہنا پڑھ رہا ہے۔ہر چند کہ طوفان الاقصیٰ غزہ کے مظلوموں کی دہاہیاں اور دنیا بھر کے ذی روح انسانوں کا ضمیر اسرائیل کو ٹھکانے لگا رہا ہے اور دنیا بھر کے عوام کا بیدار ہوتا ضمیر اسرائیلی وجود کے لیے خطرہ بنتا جا رہا ہے مگر سروں پر کفن باندھے حماس کے مجاہدین امت کی بے ضمیری کا قرض اپنے خون سے اتار رہے ہیں۔ اسرائیل کی بالا دستی اور آئرن ڈوم کا زعم تو حماس کے سربکف مجاہدین نے پہلے روز ہی توڑ دیا اور کم و بیش پانچ عشروں سے عربوں کے اذہان پہ نقش اسرائیلی بالادستی کا بت پاش پاش کر دیا اب تو یہودی سرمایہ دار بھی دھڑا دھڑ ملک چھوڑ کر دیگر ممالک میں جائے پناہ کی تلاش میں، مگر انسانوں کا بیدار ہوتا ضمیر ان کو کسی سمت چین نہیں لینے دے رہا اور ان ممالک کے عوام بلا تفریق قوم و مذہب ان کے ناپاک وجود کو اپنی سرزمین پر قبول کرنے کو تیار نہیں۔
اسرائیلی جارحیت اور کھلی بربریت کی امریکی حمایت کے بعد کمزور ممالک بالخصوص عربوں کو جان اور مان لینا چاہیے کہ دنیا صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے،اقوام متحدہ طاقتور ممالک کی لونڈی اور غیر مسلم ناجائز ریاست کی پناہ گاہ،اس بات سے انکار نہیں کہ جذبہ ایمانی مسلمان کا زیور مگر عربوں کی عسکری پس ماندگی جارحیت مزاجوں کی عقل ٹھکانے لگانے میں رکاوٹ،ان حالات میں مسلم ممالک کی ذمہ داری کیا ہے اس کو جذباتیت کی بجائے زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر سمجھنا چاہیے مسلم حکومتیں اسرائیل کا معاشی مناقطعہ کیوں نہیں کرتیں؟مسلم ممالک کے مادی وسائل، اعلیٰ دماغ، جفا کش افرادی قوت اور قدرت کی بے پناہ فیاضیاں یہ سب مشترکہ طور یا او آئی سی کے پلیٹ فارم سے کیوں مجتمع نہیں ہو پا رہیں؟سائنس وٹیکنالوجی میں مہارت کے حصول میں رکاوٹ کیا ہے؟ حکمران طبقات کی ذہنی پس ماندگی، کرپشن اور عیاشیاں شاید انہیں اس نہج پر سوچنے نہیں دیتی۔کیا مسلم ممالک روز مرہ استعمال کی لا تعداد مصنوعات بین الاقوامی معیار کے مطابق متعارف کرا کے سات ارب سے زائد آبادی کو اپنی مارکیٹ نہیں بنا سکتے؟
صرف عسکری میدان میں مقابلہ ہی جہاد نہیں تعلیم و تربیت اور علوم و فنون کے ساتھ معاشی و صنعتی مسابقت بھی اسی زمرہ میں آتی ہے۔ غزہ کی موجودہ صورتحال پرجنگ زدہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں میں مصروف المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے چیئرمین عبدالرزاق ساجد کا کہنا تھا کہ 75 سالہ قضیہ کا منصفانہ حل اقوام عالم کی ذمہ داری تھی مگر وہ اس میں بری طرح ناکام رہے۔آج غزہ میں آتش و آہن کا بازار گرم، لاتعداد لاشیں تدفین، ہزاروں زخمی ادویات اور بچے خوراک کے منتظر۔انکا کہنا تھا کہ حالات ہماری سوچ سے بھی زیادہ گمبھیرکہ اسرائیل نے امدادی کارکنان کا بھی وہاں پہنچنا ناممکن بنا دیا ہے۔اس سے قبل کہ انسانی المیہ جنم لے عالمی برادری کو غزہ میں فوری جنگ بندی کے لیے ٹھوس اور واضح موقف اختیار کرنا چاہیے کہ اقوام متحدہ اگر ایک ملک کی جارحیت کو نہیں روک سکتی تو اس تنظیم کا قیام بے سود ہے۔نامور مذہبی سکالر و طالب اقبال ڈاکٹر علی وقار کا کہنا تھا کہ ہماری نوجوان نسل کو شاید نہیں معلوم کہ اسرائیلی پناہ گزین کی حیثیت سے ارض فلسطین پر آئے اور پھر رہشہ دوانیوں اور مسلم ممالک کی بے حمیتی کے باعث قابض ہو گئے۔ دوئم قومیت پرستی نے مسلم امہ کے وجود کو نقصان پہنچایا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ کم از کم وہ اور انکا ملک محفوظ ہے۔ مسلمانوں کی اسی سوچ سے عراق، شام، لبنان، افعانستان اور فلسطین برباد ہوئے۔ عظمت رفتہ کے لیے مسلم حکمرانوں کو اُمت کے تصور پر آنا ہو گا،او آئی سی کو روایتی تنظیم کی بجائے نیٹو کی طرز پر عسکری اتحاد میں تبدیل اور تنظیم اپنی کرنسی میں تجارت کو فروغ دیکر اپنے وجود کو جائز ثابت کر سکتی ہے۔اس میں دو رائے نہیں کہ اسرائیل کا قیام اُمت مسلمہ کے قلب میں خنجر کی طرح ہے۔نظام مدارس شعبہ امتحانات کے ناظم معروف مذہبی سکالر پروفیسر عین الحق بغدادی نے ایک جملے میں اپنا اور قوم کا درد سمو دیا کہ رقبہ، آبادی کے لحاظ سے معمولی اور وجود کے اعتبار سے ناجائز ریاست بڑی بڑی مملکتوں کے سروں پر جوتے رسید کر رہی ہے۔ فلسطینی مسلمانوں بارے اقبال ؒنے کیا خوب کہا
ہے خاک فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پہ کیوں حق نہیں اہل عرب کا
مقصد ہے ملوکیت انگلیس کا کچھ اور
قصہ نہیں نارنج کا یا شہد و رطب کا