عام انتخابات اور پولیس کی کارکردگی
عامر رانا
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک میں عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دیا جو خوش آئند اقدام ہے، اس حوالے سے قومی اداروں کی عام انتخابات کے شفاف انعقاد کے لیے ذمہ داریوں کے حوالے سے آئندہ چند روز میں شیڈول جاری کرنے کی بھی تیاریاں اب تیزی سے شروع کر دی گئی ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے علامیہ کے بعد تمام اداروں کو اب الیکشن کمیشن آف پاکستان کو براہ راست انتخابات کے حوالے سے جواب دہ ہونا ہو گا۔ شفاف اور منصفانہ انتخابات کے لیے جنرل الیکشن کی تاریخ طے ہو جانے کے بعد سرکاری فنڈز کا ترقیاتی سکیموں پر خرچ بند کرنے کے ساتھ بھرتیوں اور تمام سرکاری اداروں میں ٹرانسفر پوسٹنگ پر پابندی عائد ہو جاتی ہے اس حوالے سے مراسلے نگران حکومتوں اور قومی اداروں کے وفاقی اور صوبائی حلقوں کو بھی کر دیئے جاتے ہیں مگر کسی ناخوشگوار واقعہ پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کو آگاہ کرکے اجازت کے بعد ٹرانسفر پوسٹنگ یا کسی سکیم پر قومی خزانے سے رقم خرچ کی جاسکتی ہے یہ وہ اقدامات ہیں جو عام انتخابات کا اعلان ہونے کے بعد ماضی میں ہوتے رہے ہیں تاہم اس بار کیا اقدامات ہوں گے ابھی اس کا اعلان نہیں ہوا۔
ملک میں عام انتخابات کے اعلان پر جہاں سیاسی جماعتوں اور ان کے کارکنوں میں جوش و جذبے کی لہر دوڑ پڑتی تھی اس بار شاید عام انتخابات کے اعلان کے بعد ملک بھر میں وہ ابھی تک نظر نہیں آئی۔ سیاسی جماعتوں کے انتخابی دفاتر امیدواروں کے ڈیرے خوب رونق جما لیتے مگر وہ بھی ابھی تک نظر نہیں آرہے۔ بہرحال سیاسی جماعتوں کی اپنی تیاری ہوتی ہے مگر سب سے اہم ذمہ داری پولیس پر عائد ہوتی ہے جس نے سب سے اہم کردار ادا کرنا ہوتا ہے اور پورے انتخابی سسٹم کو سکیورٹی کی ذمہ داری پولیس بھی پولیس کی ہی ہوتی ہے، پولنگ اسٹیشن کے انتخاب سے لے کر پولنگ کروانے تک ووٹر حقوق سے انتخابی رزلٹ تک،کامیابی سے نئی حکومت کی حلف برداری تک کا سفر پولیس کی نگرانی میں ہونا ہوتا ہے، یوں سمجھ لیں کہ عام انتخابات کا اعلان ہی صرف الیکشن کمیشن نے کرنا ہوتا ہے باقی سب سے اہم کام اور رونق اور بھاگ دوڑ کا سیاپا پولیس کو اٹھانا پڑتا ہے جس کے لیے پولیس کی اہمیت بہت اہم ہے۔
پولنگ کے عمل کے بعد سب سے بڑا فنڈ پولیس کو دیا جاتا ہے اس بار بھی شاید ایسا ہی عمل ہو گا مگر اس عمل سے قبل شاید الیکشن کمیشن آف پاکستان کو چند اقدامات کی ضرورت ہے باقی صوبوں کے حوالے سے کچھ کہہ نہیں سکتا مگر پنجاب پولیس میں عام انتخابات کے لیے سیاسی وابستگیوں سے ہٹ کر تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ آئی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور سمیت لاہور، گوجرانوالہ، راولپنڈی، ملتان، سرگودھا، بہاولپور، شیخوپورہ اور ساہیوال ڈویژن کے افسران کو ان کی سیاسی چھاپ کے باعث ہٹانے کی ضرورت ہے۔ اگر شفاف انتخابات کا انعقاد چاہیے کیونکہ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور پر تحریک انصاف سمیت مسلم لیگ قاف کے تحفظات ہیں اس کے علاوہ سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ پر بھی سیاسی واابستگی رکھنے اور مسلم لیگ نون سے ذاتی تعلقات کا شور ہے۔ آر پی او گوجرانوالہ سمیت آر پی او ملتان اور فیصل آباد بھی انہی مسائل کا شکار ہیں باقی الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اپنی رائے خود قابل احترام ہے۔عام انتخابات سے قبل ہم ان تعینات پولیس افسران کی کارکردگی کے حوالے سے سو اختلافات رکھیں یہ الگ معاملہ ہے مگر پنجاب پولیس سال 2023میں کارکردگی کے حوالے سے چند اور اہم مسائل کا شکار رہی جس میں سب سے اہم مسئلہ لاء اینڈ آرڈر کا رہا۔ سال 2023میں سب سے زیادہ مقدمات دہشت گردی جیسے واقعات رونما ہوئے جس میں سابق وزیر اعظم سے لے کر وفاقی و صوبائی وزراء اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پر درج مقدمات سے جناح ہاؤس کینٹ میں بلواء جیسے واقعات کا رونما ہونا جس میں پولیس کا کردار انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور بلوائیوں کو روکنے سمیت پولیس انٹیلی جنس کی سب سے بڑی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ بعدازاں بلوائیوں اور درج مقدمات میں شامل افراد کی گرفتاریوں سے لے کر ان کے نامکمل چالانوں میں پولیس کی کارکردگی پر کئی سوالات نے جنم لیا مگر ہم ان واقعات کو بھی الگ کر دیتے ہیں رواں سال کے ان دس ماہ کے دوران پنجاب پولیس جہاں قومی املاک کے تحفظ میں ناکام رہی وہاں عوام کی عزت جان مال کے تحفظ میں بھی کامیابی حاصل نہ سکی اور پنجاب پولیس کے موجودہ افسران بھی شہری تحفظ میں نہ صرف روایتی طریقے استعمال کرتے رہے بلکہ ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے سوشل میڈیا پر سب اچھا دکھا کر حکومتی شاباشی کے سوا کچھ نہ سمیٹ سکے۔ عوامی قربت اور عوامی مثبت رویہ پنجاب پولیس کے لیے اب بھی ایک خواب کے سوا کچھ نہیں ہے۔
دیکھا جائے تو پنجاب پولیس اس سال انتہائی طاقت ور اور زور آور ہونے کے باوجود گذشتہ سال 2022کے مقابلے میں زیادہ وسائل اور فنڈز رکھتی تھی مگر کرائم گراف نیچے لانے میں ناکام رہی ایک رپورٹ کے مطابق اس سال کے دس ماہ میں ہی کرائم گراف گذشتہ سال کی نسبت 30فیصد زیادہ رہا جس کو ہم مہنگائی یا پولیس کی کمزور پٹرولنگ یا معاملہ سیاسی بھاگ دوڑ سمجھیں کچھ بتانا مشکل ہے۔ رواں سال 2023کے پہلے 10ماہ کے دوران مقدمات کی تعداد ساڑھے تین لاکھ سے تجاوز کرگئی جبکہ سنگین نوعیت 1لاکھ 56ہزار842درج ہوئے۔انویسٹی گیشن پولیس 35فیصد مقدمات کے چالان بھی مکمل نہ کرسکی، سال کے پہلے 10ماہ کے دوران ڈاکوؤں نے ڈکیتی مزاحمت پر 17افراد کو لوٹنے کے بعد بے رحمی سے قتل کردیا۔گزشتہ سال2022میں 14افراد ڈکیتی مزاحمت پر قتل ہوئے، اغواء برائے تاوان کی10وارداتیں گزشتہ سال 2022میں 7وارداتیں، دیرینہ عداوت،لڑائی جھگڑے، غیرت سمیت دیگر وجوہات کی بنا پر خواتین، مردوں اور بچوں سمیت 388افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا،گزشتہ سال 2022میں 407افراد قتل،رواں سال اقدام قتل کے 930جبکہ گزشتہ سال 2022میں 861واقعات، ڈکیتی کے 67 اور گزشتہ سال 2022میں 85واقعات، راہزنی کی 16982وارداتیں جبکہ گزشتہ سال 2022میں 13870وارداتیں،رواں سال جھپٹا مارنے کے 20467مقدمات گزشتہ سال2022میں 10810واقعات،کار چھیننے کی 16وارداتیں گزشتہ سال 2022میں 27،موٹرسائیکل چھیننیکی1356وارداتیں،2022میں 1062وارداتیں، وہیکل چھیننے کی50گزشتہ سال2022میں 44وارداتیں، موٹر سائیکل چوری کی 25362وارداتیں گزشتہ سال 2022میں 23111وارداتیں، متفرق چوری کی 82794وارداتیں گزشتہ سال 2022میں 75596وارداتیں ہوئی یہ وہ کرائم ہے، جو رجسٹرڈ ہوا مگر جو درج نہ ہو سکا وہ الگ ہے۔ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور خود ایک انتہائی دبنگ اور ذمہ دار انسان ہیں مگر ان کی دریا دلی ان کے محکمہ کے افسران پر ہی جچتی سنورتی۔عام انتخابات کا عمل قومی حقوق کا مسئلہ ہے اس لیے ضرورت تو اس امر کی ہے کہ الزامات کی زد میں آنے والے تمام افسران کو ہٹا کر ان افسران کو عام انتخابات تک لگایاجائے جو کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہ رکھتے ہوں آخر میں پھر انہی الفاظ کا انتخاب کروں گا کہ جناب چیف الیکشن کمیشن انتہائی ذمہ دار اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے شرسار ہیں وہ جیسا چاہیں۔