آپا منزہ جاویدآج کے کالم

خاندان میں مرد کا کردار!

آپا منزہ جاوید

آج اس موضوع پر لکھنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کیونکہ جو دور آج کل پاکستان میں چل رہا ہے۔اس وجہ سے ہر کوئی مجبور ہے، بے بس ہے، اور اپنے حالات بلکہ اپنے آپ سے بھی تنگ ہے۔جب کسی کے گھر بچہ پیدا ہوتا ہے تو اسی دن سے اس پر سب خاندان والوں کی نظریں اور امیدیں شروع ہو جاتی ہیں۔ گھر کا ہر فرد ہی اپنی امیدوں کا چراغ جلا کر بیٹھ جاتا ہے کہ یہ بچہ بڑا ہو کر یہ کام کرے گا وہ کام کرے گا۔ فلاں پیشہ اپنائے گا،اپنا کاروبار کرے گا۔ اپنا خاندان کا نام روشن کرے گا۔ فلاں فلاں وغیرہ وغیرہ
اللہ پاک نے اس مرد کو بڑی خصوصیات سے نوازا ہے۔ مرد چاہے کسی بھی رشتے میں ہو چاہے بیٹا، بھائی، شوہر، باپ۔ دادا، نانا اور گھر کی سربراہ کی حیثیت سے ہر لحاظ سے محافظ اور فضلیت والا ہوتا ہے۔اب اس میں کوئی نئی اور انوکھی بات بھی تو نہیں ہے، اولاد خاص کر لڑکا، اللہ سے بندہ اسی لیے مانگتا ہے کہ یہ ماں باپ اور خاندان کا بازو بنے۔ لڑکا جب اپنا بچپن گزار کر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے تو اس پر ذمہ داریوں کا بوجھ پڑنا شروع ہوجاتا ہے۔ تعلیم و ہنر کے بعد وہ مزدوری کرنے نکل پڑتا ہے۔اور یہاں سے ہی اس کی اصل پریکٹیکل زندگی شروع ہو جاتی ہیں۔انسان کا جہاں دانا پانی لکھا ہو، وہاں اس نے جانا اور کھانا ضرور ہے۔
روزگار کے سلسلے میں مرد اپنا ملک گھر، گاؤں، بیوی، بچے، ماں باپ،بہن بھائی، دوست یار سب کچھ چھوڑ کر دوسرے ایسے ملک میں جا بستا ہے، جہاں کی بولی بھی اسے نہیں آتی۔ یہ مرد ہی ہوتا ہے جو اپنی فیملی کے لیے دوسروں سے جھڑکیاں، بلکہ گالیاں تک کھا لیتا ہے، یہ مرد ہی ہوتا ہے جو خود بھوکا رہ کر اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے گھر والوں، اپنی فیملی کی خواہشات پوری کرتا ہے۔ مرد چاہے جس بھی روپ میں ہو، گھر کی ذمہ داریوں کو بخوبی احسن انداز سے نبھاتا ہے۔ بہن بھائیوں کی شادیاں، ان کے مکانات اور کاروبار بلکہ ان کے اخراجات تک اور اپنے ماں باپ کی خدمت اور ان کی بیماری، نرمی، سستی پر سب اخراجات کا انتظام بھی بخوبی طور پر احسن طور پر سر انجام دیتا رہتا ہے۔
شادی بیاہ، غمی خوشی سب میں برابر کا شریک ہوتا ہے،پر افسوس کچھ چھوٹی سوچ کے لوگ مردوں کو صرف اوباش، نشئی، بدمعاش، بدکار ثابت کرنے پر تلے ہوتے ہیں۔میں مانتی ہوں پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتی،اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں۔پر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ایک کی وجہ سے سب بُرے بن جائیں۔ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں مثلاً وطن عزیز میں جب سخت دھوپ اور گرمی کے موسم میں عورت قطار میں لگتی ہے تو وہاں کھڑے مرد ہی کہتے ہیں بہن پہلے آپ اپنا کام کر الیں۔
پاکستان میں اگر کسی عورت کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے، پاکستان میں سب سے زیادہ احتجاج یہی مرد کرتے ہیں، پاکستان میں جب کوئی غیر ملکی آتا ہے تو ہمارے یہی لوگ ہمارا معاشرہ انہیں عزت دیتا ہے، محبت دیتا ہے، میرے وطن میں جب کسی لڑکی کو اوباش چھیڑتا ہے تو پورا محلہ اسے مارنے آجاتا ہے۔ پر افسوس سب نے مردوں کو پیسہ کمانے والی مشین سمجھ لیا ہے۔ گھر کا سربراہ سمجھتے تو ہیں پر وہ مقام اور عزت اسے نہیں دیتے جس کا وہ حقدار ہوتا ہے۔ بس کام اور اپنے اپنے مقصد کے لیے اس کی عزت کی جاتی ہے۔
پردیس میں محنت مزدوری کرنے والا جب دو دو سال بعد اپنے گھر بھی مسافروں کی طرح آتا ہے تو اسے بھی یہی باتیں سننے کو ملتی ہیں فلاں چیز نہیں لائے فلاں کے لیے کیوں نہیں لائے، اور کبھی قسمت کا مارا پکا کینسل ہو کر اپنے گھر چلا جائے تو ایک دو مہینوں کے بعد اسے یہ باتیں بھی سننے کو ملتی ہے کہ اچھی خاصی نوکری چھوڑ کر یہاں آ کر بوجھ بن گیا، اور جب وہ اپنے پیسوں کا حساب گھر والوں سے پوچھے تو ایک ہی بات بولی جاتی ہے کہ تم نے کیا ہی کیا ہمارے لیے جو آج حساب مانگ رہے ہو، یہی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ آخر میں میرا بھی یہی سوال کہ یہ مرد بیچارے جائیں تو کہاں جائیں اور اپنا دُوکھڑاکس کو سنائیں۔ کیا ہی اچھا ہو، ہمارے ملک میں کارخانے،فیکٹریاں زیادہ ہوں، کاروبار کے مواقعے ملیں اور مرد بھی سُکھ کے ساتھ اپنوں میں دن رات گزار سکے۔
ہاں یہ بھی بات سچ ہے کچھ مرد معاشرے کے ماتھے پے کلنک ہیں مانا کہ کچھ مردوں کا رویہ اپنے خاندان سے، گھروالوں سے، بیوی بچوں سے اچھا نہیں، اللہ ان کوہدایت دے۔ میں نہیں کہتی کہ سب دودھ کے دھلے ہیں یا سب بہت اچھے ہیں، میرا کہنے کا بس ایک مقصد ہے کہ جو بندہ جس مقام کا اہل ہے، اس کو وہ پورا مقام دیا جائے ان کی قدر کی جائے اور مردوں کی قربانیوں کا نہ صرف احساس کیا جائے، بلکہ ان کی اصل قربانیوں کو دوسروں کے لیے مشعل راہ بنایا جائے۔ اور دل سے ان کا احترام کیا جائے۔

جواب دیں

Back to top button