آج کے کالمملیحہ سید

کیا ہم سب خود کشی کی راہ پر ہیں؟

ملیحہ سید

ہم سب خوشی اور اس کے احساس سے دور غیر محسوس طور پر خود کشی کی راہ پر ہیں۔ ٹھہریں میں کوئی فتویٰ نہیں دے رہی بلکہ ایک مشاہدے کا تجزیہ کرنے جا رہی ہوں۔ اس کی ایک اہم وجہ معاشرے میں خود کشی کا بڑھتا ہوا رجحان ہے جو کہ ناکام افراد سے لیکر کامیاب ترین افراد میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ بھارتی فلم انڈسٹری میں تو یہ رحجان کسی وبا کی صورت داخل ہو چکا ہے جبکہ پاکستان میں بھی گذشتہ کچھ عرصے پہلے ایک خوبصورت نوجوان شاعر اور کامیاب نفسیات دان تک نے موت کو زندگی پر ترجیح دی اور بیٹی کو قتل کر کے خود کشی کر لی۔ معروف عالم دین مولانا طارق جمیل کے صاحب زادے مولانا عاصم جمیل نے بھی خود کو گولی مار کر خود کشی کر لی تھی۔ عاصم جمیل کو بایو پارلر ڈس آڈر تھا۔ یہ ایسی بیماری ہے جو ایک ہی بندے کی شخصیت کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دیتی ہے۔ پل میں زندگی ختم کر دیتی ہے۔ انسان بے بس ہوتا ہے۔ جس کا بھی ڈپریشن و انگزائیٹی ہائی لیول تک پہنچ جاتا ہے وہ اس مرض میں دن رات رہنے لگتا ہے۔ زندگی بوجھ بن جاتی ہے۔ صرف ایک ہی سوچ غالب ہوتی ہے۔ زندگی بیکار ہے۔ ہم یہاں بلا وجہ ہیں۔ یہ لوگ خود کو اس دنیا میں مس فٹ سمجھنے لگتے ہیں، انسان بظاہر چلتا پھرتا ہے لیکن وہ کسی اور ہی دنیا میں ہوتا ہے۔ سوچ کے تانے بانے اس حد تک الجھ جاتے ہیں کہ ان کو سلجھانا کبھی کبھی نا ممکن ہوجاتا ہے۔ کبھی کبھی یہ الجھے تانے بانے کھینچتے کھینچتے ٹوٹ جاتے ہیں اور انسان موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ کبھی نس کاٹ کر، کبھی خود کو گولی مار کر اور کبھی ڈھیر ساری گولیاں کھا کر تو کبھی خود اذیتی کی لذت کوئی اور چن چڑھا دیتی ہے۔
ہم سب خود کشی کی راہ پر ہیں مگر ہر شخص میں خودکشی کا الگ انداز ہے۔کچھ ایسے ہیں جو استعداد رکھنے کے باوجود اچھے کپڑے پہننا چھوڑ چکے ہیں۔ ہم میں سے بہت سارے ایسے ہیں جنہوں نے خواہشیں، آرزوئیں کرنا ترک کر دی ہیں۔ وسائل ہونے کے باوجود کچھ نوجوان اور دیگر افراد علم و حکمت سے آوازار ہیں اور پڑھائی اور مطالعہ چھوڑ چکے ہیں۔ کوئی اپنی وضع قطع کی دیکھ بھال نہیں کر رہا۔بال اور رنگ ؤ روپ اجاڑ بیٹھے ہیں۔ ہم سے اکثریت غمگین میوزک سننے کی عادی ہو چکی ہے۔ ہر محفل اور جگہ پر اپنی یادگاری فوٹو بنوانے والے اپنے فوٹو بنانا چھوڑ چکے ہیں۔کوئی اب محبت نہیں کر رہا تو کوئی ہے جو محبت کو قبول نہیں کر رہا۔ کچھ زندگی کو بوجھ سمجھتے ہوئے سانس لینا ہی نہیں چاہتے تو وہیں ایسے بھی ہیں جو موت سے نبردآزما ہیں اور سانس لینا چاہتے ہیں جینا چاہتے ہیں۔ ہر شخص میں خودکشی کا الگ انداز ہے مگر ہے۔
خود کشی انتہائی قدم ہے جبکہ انسانی زندگی کا اہم ترین قدم خوشی کی خاطر اٹھنا چاہیے۔ اب خوشی کیا ہے؟ سائنسی اور نفسیاتی طرز فکر سے ہٹ کر دیکھا جائے تو میرے نزدیک خوشی، اپنے خالق کی جانب سے ملنے والی ہر چیز اور امر پر راضی بر رضا ہونے کا نام ہے۔ یعنی خود کو جہاں ہے اور جیسے ہے کہ بنیاد پر قبول کرتے ہوئے اس میں مزید بہتری کی کوشش کرنا خوشی ہے اور کسی ناکامی کی صورت میں پھر سے کوشش کرنا ایک مثبت سوچ رکھنے والے کی علامت۔خوشی اور مسرت کا تعلق مثبت سوچ سے الگ نہیں ہو سکتا اور خوشی اور اچھائی اندر سے پھوٹتی ہے۔
یہ بہت عرصہ پرانی بات ہے، مجھے بھائی جان کے ساتھ جاننے والوں کی طرف جانا تھا۔ رکشہ کا کرایہ ستر یا سو روپے کے لگ بھگ تھا، رکشے والے انکل نے چالیس روپے مانگے۔ ہم حیران ہوئے تو بابا جی کہا کہ اتنے ہی لگتے ہیں۔ اتنے کا پیٹرول لگا اور اتنی میری مزدوری۔ تب انہوں نے ایک خوبصورت جملہ بھی کہا کہ کوئی دال روٹی کھا کر بھی خوش رہتا ہے کوئی مرغ متنجن کھا کر بھی ناخوش رہتا ہے۔ دراصل جب مزید کی خواہش جنون بن جائے اور اس خواہش کے تعاقب میں دوسروں کو روندنے کا احساس ختم ہو جائے تو خوشی ختم ہو جاتی ہے اور ہوس بڑھ جاتی ہے۔ خوشی یا خوشی کے احساس کا ختم ہونا ہی جینے کی امید کو کم کرتا یا بڑھاتا ہے۔
اب یہاں سگمنڈ فرائڈ اس کا نظریہ اصول خوشی کا ذکر ناگزیر ہو چکا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ”بچے مکمل طور پر خودغرض ہیں۔ وہ اپنی ضروریات کو شدت سے محسوس کرتے ہیں اور ان کو پورا کرنے کے لیے سخت جدوجہد کرتے ہیں“۔ خوشی کے اصول میں اس نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ نفسیاتی اپریٹس خوشی کے حصول اور ناخوشی سے بچنے اور حیاتیاتی اور نفسیاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنے آخری مقصد کے طور پر تلاش کرتا ہے۔ خوشی وہ قوت ہے جو شخص کی شناخت کے عمل کو رہنمائی فراہم کرتی ہے۔یہ صرف نظامی بے ہوش میں کام کرتا ہے، اور یہ وہ اصول ہے جو اس سارے عمل کو چلاتا ہے۔ اسی وجہ سے ناخوشگوار تجربات کو دبایا جاتا ہے، کیوں کہ وہ حکم سے تجاوز کرتے ہیں۔خوشی کا اصول لاشعوری طور پر بنیادی بقا کی ضروریات کے حصول کا باعث بنتا ہے۔یہ ہماری بدنصیبی ہے کہ ہم نے خوشی کو محدود کرتے ہوئے اسے مادیت سے جوڑ دیا۔ ہم بارش کو انجوائے کیا کرتے تھے، بدلتے موسموں کی شدت کو محسوس کرتے تھے اب ایسا نہیں رہا۔بارشوں کی تفریح پکوڑے، سموسے، جلیبی اور حلوہ ہوتے تھے۔ اب جینک فوڈ پر سرمایہ لگا کر تفریح کے ساتھ ساتھ کئی طرح کے طبی مسائل الگ سے سر اٹھاتے ہیں جس میں موٹاپا اور میٹابولزم کا متاثر ہونا شامل ہیں۔ ایک اور چھوٹی سی مثال جب موبائل فون مارکیٹ میں آئے تو تب موبائل کا ہونا اہم ہوتا تھا مگر اب فلاں ماڈل کا موبائل ہونا خوشی اور ناخوشی کو واضح کرتا ہے۔ سائیکل صرف ایک سواری نہیں تھی بلکہ ایک صحت مند زندگی گزارنے کا طریقہ بھی تھا، بازو اور ٹانگوں کے مسلز متحرک رہتے تھے گاڑی کی سہولت نے ایک سستی کو بھی جنم دیا۔
خود کشی کا تعلق بھی خوشی سے یک لخت محرومی کے قوی احساس سے جڑا ہے کہ اب سب کچھ ختم ہو گیا۔ یہ غصہ کی انتہائی صورت بھی ہے جو کسی بہت ہی پیارے کی نامہربانی یا نافرمانی سے عبارت ہے۔ کھو دینے کا خوف بھی انسان سے کبھی دوسروں کی جان لینے کا ظلم کراتا ہے تو کبھی خود اپنی ذات پر ظلم کراتا ہے۔ خود کشی کی مذمت اسی وقت بنتی ہے جب ہم اپنے پیاروں کے بدلتے ہوئے رحجانات اور رویوں پر نظر رکھیں۔ کیونکہ وہ ایک آخری لمحہ آنے سے پہلے اس کے آثار ضرور نظر انا شروع ہو جاتے ہیں۔کچھ سال پہلے ”ہم سب ڈاٹ کام“ پر ایس پی ابرار حسین نیکوکارہ کی خودکشی کی خبر پر”سوری! نیکو کارہ آپ نے صحیح نہیں کیا“، کے موضوع پر کالم لکھا تھا تب بھی یہی لکھا تھا کہ خود کشی ایک کمزور لمحے کا نام ہے مگر اس کے پس پشت صورت حال کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس کمزور لمحے نے ایک دم جنم نہیں لیا بلکہ اس نے پرورش پائی ہے اسے باقاعدہ پالا پوسا گیا ہے۔ اس لیے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ہم نفرتیں پالتے ہیں، نفرتیں پالنے والوں کے کہیں چہرے تو کہیں روح بدصورت ہو جاتی ہے۔ ہم خوشی کیوں نہیں پالتے جو نہ صرف ہمیں خوبصورتی عطا کرتی ہے بلکہ ہمارا اردگرد کا ماحول بھی خوبصورت بنا دیتی ہے۔ خوشی سے محرومی کا احساس خودکشی کی راہ ہموار کرتی ہے جسے کچھ لوگ مقصدیت اور مقصدیت سے محرومی سے تعبیر کرتے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں پانچ کروڑ سے زائد افراد کئی طرح کی ذہنی الجھنوں کا شکار ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ کے مطابق آج دنیا کا ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی حالیہ تحقیق کے مطابق پاکستان کے مختلف شہروں میں ڈپریشن کی شرح 22 سے 60 فیصد تک نوٹ کی گئی ہے۔ اسی طرح پاکستان ایسوسی ایشن فار مینٹل ہیلتھ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ملک میں ذہنی تناؤ کی سطح بگڑ رہی ہے اور پاکستان کے ہر چوتھے گھر میں ذہنی صحت کا علاج مسئلہ موجود ہے اور ان ذہنی مسائل میں مبتلا 25 فیصد افراد ڈپریشن کا شکار ہیں، جبکہ پاکستان میں مردوں کے مقابلے میں ڈپریشن کا شکار خواتین کی تعداد دو گنا ہے۔
پاکستان کا شمار ان بدقسمت ممالک میں کیا جاسکتا ہے جہاں ذہنی اور نفسیاتی امراض کے متعلق آگاہی کا شدید فقدان ہے۔ ان امراض کو پاگل پن اور مریض کو پاگل سمجھا جاتا ہے اور لوگ ان امراض اور مریضوں کے متعلق بڑی منفی رائے رکھتے ہیں۔ (جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button