ایڈیٹوریل

گیس کی قیمت میں اضافہ اور مانیٹری پالیسی

وفاقی حکومت نے گیس کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دے دی ہے اور آج یکم نومبر سے اِس اضافے کا اطلاق ہوگیا ہے۔ خوش آئندامر ہے کہ ماہانہ 25 سے 90 مکعب میٹر تک گیس کے پروٹیکٹڈ صارفین کے لیے قیمت نہیں بڑھائی گئی تاہم پروٹیکٹڈ صارفین کے لیے فکس چارجز 10 روپے سے بڑھا کر 400 روپے کردئیے گئے، روٹی کے تندور کو فراہم کی جانے والی گیس کی قیمت میں بھی اضافہ نہیں کیاگیا۔سرکاری اعلامیے کے مطابق گیس کے 57 فیصد صارفین پروٹیکٹڈ کیٹیگری میں ہیں جن کے لیے قیمتوں میں اضافہ نہیں کیاگیا تاہم نان پروٹیکٹڈ گھریلو صارفین کے لیے گیس کی قیمت میں اضافہ کیا گیا ہے لیکن سٹیٹ بینک کی اعلان کردہ مانیٹری پالیسی میں بتایاگیا ہے کہ مالی سال 24ء کی دوسری ششماہی سے مہنگائی میں خاصی کمی آئے گی۔ اگرچہ تیل کی عالمی قیمتوں میں حالیہ اتار چڑھاؤ نیز نومبر 2023ء سے گیس کے نرخوں میں اضافہ مہنگائی اور جاری کھاتے کے منظرنامے کے حوالے سے مالی سال 24ء کے لیے کچھ خطرات کا باعث ہے۔یعنی ایک طرف گیس کے نرخ بڑھاتے ہوئے کہاگیا ہے کہ ستاون فیصد صارفین جو گیس کم استعمال کرتے ہیں ان کے لیے قیمت نہیں بڑھائی گئی مگر سٹیٹ بینک بتارہا ہے کہ اِس اضافے سے مہنگائی بڑھے گی۔ بہرکیف بجلی اور گیس توانائی کے ایسے ذرائع ہیں جو ایک دہائی سے زائد پاکستانیوں کو بیک وقت دونوں دستیاب نہیں ہوتے۔گرمی کا موسم ہو تو بجلی کی لوڈ شیڈنگ اورسردیاں ہوں تو گیس کی لوڈ شیڈنگ اور قلت۔ پھر اِن دونوں کی قیمتوں میں بتدریج اضافہ بھی کیا جارہا ہے اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ تو کسی سفید پوش اور متوسط گھرانے کے لیے بُری خبر سے کم نہیں ہوتا دوسری طرف صنعتی شعبہ فوراً متنبہ کردیتا ہے کہ پٹرول یا بجلی یا پھر گیس کے انڈسٹری پر کیسے مضراثرات مرتب ہوں گے۔ پٹرول مہنگا ہو تو ہر چیز مہنگی کردی جاتی ہے، جس کے پاس کوئی جواز نہ ہو وہ نقل و حمل کے اخراجات بڑھنے کو بنیاد بناکر مہنگائی کردیتا ہے مگر جب بجلی اور گیس کی قیمت میں اضافہ ہوتاہے تو گھریلو صارفین کے ساتھ ساتھ صنعتی شعبہ بھی چیخ اُٹھتا ہے کیونکہ بجلی اورگیس توانائی کے یہ دونوں ذرائع انڈسٹری کا پہیہ رواں رکھنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں جب ان میں سے کوئی ایک مہنگا کیا جاتا ہے تو انڈسٹری کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے نتیجے میں اُن کی مصنوعات عام پاکستانیوں کو تو مہنگی ملتی ہی ہیں مگر اِس کے ساتھ ساتھ برآمدات پر بھی فرق پڑتا ہے کیونکہ برآمدی مصنوعات کی قیمت میں اضافے سے عالمی منڈی میں خریدار سستی اور معیاری چیز تلاش کرنے پر مجبور ہوجاتاہے۔ ایک طرف ہم انڈسٹری سے بے شمار ٹیکس وصول کررہے ہیں تو دوسری طرف گیس اور بجلی بتدریج مہنگی کرکے بچی کھچی انڈسٹری کی کمرتوڑنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستانی صنعتکار اب پڑوسی ممالک بالخصوص بنگلہ دیش میں صنعتیں لگارہے ہیں، لہٰذا یہاں روزگار کم ہورہا ہے، برآمدات بھی سکڑ رہی ہیں مگر صنعتوں کو وسعت دینے کی بجائے وہ سب اقدامات کیے جارہے ہیں جن سے صنعتوں کی تالا بندی بھی ہو، بے روزگاری بھی بڑھے اور بالآخر صنعت کار دوسرے ملک کاروبار منتقل کرلیں۔ اگرچہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرتے ہوئے بجلی، گیس، پٹرول وغیرہ کا سارا بوجھ صارفین پر منتقل کیا جارہا ہے مگر ازحد ضروری ہے کہ اِس کے مضر اثرات پربھی غور کیا جائے کہ ہم بند گلی میں دھکیلے جارہے ہیں، ایک طرف سفید پوش اور متوسط صارف رگڑے میں آرہا ہے تو دوسری طرف صنعتی شعبہ جس نے برآمدات کے ذریعے ملک کو قیمتی زرمبادلہ کماکر دینا وہ بھی بندش کی طرف جارہے ہیں۔ گیس کی قیمت میں اضافہ ہوچکا، اِس کے نتیجے میں مہنگائی بڑھے گی، سٹیٹ بینک نے بھی خدشہ ظاہر کردیا ہے مگر گیس عوام کو دستیاب کیسے ہوگی؟ پچھلے سال انہی دنوں میں پی ڈی ایم کی حکومت کے وزیرپٹرولیم مصدق ملک نے ملک میں گیس کی لوڈ شیڈنگ کا اعلان کیا اور ساتھ ہی وضاحت کی تھی کہ فروری 2023میں گیس کی لوڈ شیڈنگ ختم کردی جائے گی لیکن قریباً ایک سال بعد بھی ملک میں گیس کی لوڈ شیڈنگ جاری ہے، سردیوں میں ویسے ہی گیس پائپ لائن میں جم جاتی ہے اور صارفین کو غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اب اگر سردیوں میں گیس کی فراہمی کے اوقات میں سپلائی پائپ لائن میں گیس جم جانے کی وجہ سے گھریلو و صنعتی صارفین کو گیس دستیاب نہ ہوئی تو صارف کیا کریں گے؟ لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ اب تک تو صارفین نے لوڈ شیڈنگ کو جیسے تیسے کرکے برداشت کرلیا ہے، اگر سردیوں میں گیس کی لوڈ شیڈنگ بھی ہوئی اور فراہمی کے اوقات میں بھی گیس دستیاب نہ ہوئی تو پھر صارفین کیا کریں گے۔ بلاشبہ ہم پاکستانیوں کا حال یہ ہوچکا ہے کہ ہم سر پر لحاف لیں تو پیر ننگے ہوتے ہیں اور پیروں پر لیں تو سر ننگا، کوئی مہینہ ایسا نہیں گزرتا جس میں بجلی اورگیس مہنگے نہ ہوتے ہوں اب چونکہ سردیاں شروع ہونے والی ہیں اس لیے گیس کی قیمت میں بھی اضافہ کردیاگیا ہے، لوگوں کی زندگی سہل بنانے کی بجائے اجیرن بنائی جارہی ہے، اور ہر آزمائش کے بعد دوسری آزمائش شروع ہوجاتی ہے۔ یہاں ہم سٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی پر بھی بات کرنا چاہیں گے، جس کا اعلان دو ماہ کے لیے کیاگیا ہے۔ پالیسی کے مطابق شرح سود 22 فیصد پر برقرار رہے گی تاہم سٹیٹ بینک نے توقع ظاہر کی ہے کہ اکتوبر میں مہنگائی نمایاں طور پر کم ہوگی، مگر گیس کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے وہ فوائد حاصل نہیں ہوں گے جن کی توقع ہے۔ سٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ خریف کی فصلوں کے ابتدائی تخمینے حوصلہ افزا ہیں اور ان کے معیشت کے دیگر شعبوں پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔جاری کھاتے کا خسارہ اگست اور ستمبر میں خاصا کم ہوا ہے جس سے ان دو مہینوں کے دوران بیرونی فنانسنگ میں کمی کی صورت حال میں اسٹیٹ بینک کی زر مبادلہ کے ذخائر کی پوزیشن کو مستحکم کرنے میں مدد ملی ہے۔ مالیاتی یکجائی کا عمل صحیح راستے پر چل رہا ہے اور مالی سال 24ء کی پہلی سہ ماہی کے دوران مالیاتی اور بنیادی توازن دونوں میں بہتری آئی، لیکن اِس میں کہیں ایک سطر یہ بھی لکھ دی جاتی کہ پاکستان دنیا میں مہنگائی کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر ہے اور وہ کونسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے مہنگائی بڑھتے بڑھتے پچہتر سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button