آج کے کالمشاہد مقصود سرویا

کسان کا جُرم کیا ہے؟

شاہد مقصود سرویا
کھیتی باڑی کبھی منافع بخش کاروبار تھا۔ بدقسمتی سے اب اس کاروبار سے کسان مایوس ہوچکا ہے۔ زراعت کا شعبہ اب صرف مڈل مین اور بڑے سرمایہ داروں کو ہی فائدہ دے رہا ہے۔ کسان گذرتے وقت کے ساتھ غریب اورمین اورآڑھتی امیر ہوتے جارہے ہیں۔
دن رات محنت کسان کرتا ہے اور آخر میں فائدہ مڈل مین اٹھاتا ہے۔ ایسا اس لیے ہورہا ہے کہ ملک میں حکومت نام کی کوئی شے ہے ہی نہیں۔ ریاست، زراعت کے حوالے سے اپناکردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ مکئی، کپاس، چاول اور سرسوں سمیت مختلف زرعی اجناس کے حوالے سے بے چارے کسانوں کے ساتھ ڈکیتی ہورہی ہے۔ حکومت مکئی، چاول اور سرسوں سمیت کسی بھی زرعی جنس کا ریٹ مقرر کرنے کو تیار نہیں۔ حکومت نے گندم، گنا اور کپاس کی امدادی قیمت مقرر کی ہے لیکن بدقسمتی سے کسان کو نہ تو گنے کا صحیح ریٹ ملتا ہے، اور نہ ہی کپاس کے مناسب دام ملتے ہیں۔ ملک میں موجود مافیاز نے پورے نظام کو جکڑ رکھا ہے۔ حکومت نے امسال کپاس کی امدادی قیمت فی چالیس کلو گرام آٹھ ہزار پانچ سو روپے مقرر کی تھی جو کسان کو نہ مل سکی۔ کسان خسارے کے بعد کپاس کی فصل سے مایوس ہوچکا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ اگلے سال ملک میں کپاس بہت تھوڑے رقبے پرکاشت ہوگی۔ اس صورت حال کی ذمہ دارحکومت ہے۔ حکومت کسانوں کو جان بوجھ کر معاشی مشکلات سے دوچار کررہی ہے۔ امسال موسمی حالات، رس چوس کیڑے اور گلابی سنڈی کے باعث کپاس وقت سے پہلے ختم ہوچکی ہے۔ اوپر سے منڈیوں مییں کپاس کی قیمتوں میں نمایاں کمی نے کسان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ کسان معاشی مشکلات سے دوچار ہونے کے بعد اگلی فصل کی کاشت کے حوالے سے پریشان ہے۔ مکئی کی فصل کی بات کی جائے تو اس کاریٹ بھی مناسب نہیں ہے۔ اس وقت جو منڈیوں کی صورت حال ہے اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ موسمی مکئی کی فصل بھی کسانوں کو نقصان سے دوچار کرے گی۔ غلہ منڈیوں میں مکئی بہت سستے داموں خریدی جارہی ہے، جس سے کسان کو نفع تو دور کی بات ہے، فی ایکڑ اخراجات کا پورا ہونا محال ہے، اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس کسان کو دو فصلوں پہلے کپاس اورپھر موسمی مکئی میں خسارے کا سامناکرنا پڑا ہو وہ کھیتی باڑی کے شعبہ سے کیسے اور کب تک وابستہ رہ سکتا ہے۔ بعض علاقوں میں تو ایسی صورت حال پیداہوچکی ہے کہ کسانوں کے ساتھ نہ ٹھیکے پر زمین لینے اور نہ ہی گندم کاشت کرنے کے لیے پیسے ہیں۔
کسان جب گندم نہیں کاشت کرتا تو ملک میں آٹے کا بحران پیدا ہوجاتا ہے اور حکومت کو مجبوراً باہر سے مہنگے داموں گندم منگوانا پڑتی ہے مگر یہی حکومت کسانوں کو سہولت دینے کو تیار نہیں ہے۔
ماضی گواہ ہے کہ کوئی بھی حکومت زراعت کی ترقی کے لیے سنجیدہ دکھائی نہیں دی۔ جب کھاد، بیج اور زرعی ادویات مہنگی اور زرعی اجناس سستی ہوں گی تو فی ایکڑ اخراجات کیسے پورے ہوں گے۔ گذشتہ دو سال سے کسان مہنگے داموں یوریا کھاد بلیک میں خریدنے پر مجبور ہیں لیکن حکومتی دعوؤں کے باوجود صورت حال جوں کی توں ہے۔ حکومت رٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ آلو کے بعد گندم کی بیجائی کا آغاز ہونے والا ہے لیکن کھاد مافیا کے آگے حکومت بے بس دکھائی دے رہی ہے۔
پاکستان کہنے کی حد تک ہی زرعی ملک ہے، حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے، ابھی ہم ان چھوٹے چھوٹے مسائل سے ہی جان نہیں چھڑا پارہے۔ ہم نے ترقی کی منازل کیسے طے کرنی ہیں۔ دنیا زراعت میں جدید اصلاحات متعارف کروارہی ہے۔ اور ہماری حکومتیں توزراعت کے لیے سستی بجلی تک نہیں دے سکی ہیں۔
ہم زرعی ملک ہیں لیکن خوردنی تیل سے لیکر دالوں تک روزمرہ کی مختلف اشیائے خورونوش باہر سے منگوانے پر مجبور ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے جس کا ہمیں سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا یہ ملک آخر کب تک یونہی باہر سے خوردنی تیل سے لیکر چائے کی پتی اوردالیں منگواتا رہے گا۔ اس حوالے سے کوئی بھی حکومت نہ کوئی پالیسی دینے کو تیار ہے اور نہ ہی کسی حکمران کے پاس اِس معاملے پر سوچنے کا ویژن اور وقت ہے۔ ایسا کب تک چلے گا۔ ہم کیوں جان بوجھ کر اس ملک کو مسائل سے دوچار کررہے ہیں۔ اب بھی وقت ہے۔ زراعت کا شعبہ ملک کو قرضوں کے بوجھ سے نجات دلا سکتا ہے۔ یہ ملک پھر سے ترقی کی منازل طے کرسکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ملک و قوم کے ساتھ مخلص ہوجائیں۔
زراعت ملکی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اگر ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوجائے تو پورا نظام مفلوج ہوجاتا ہے۔
اگر کسی وجہ سے زراعت کا شعبہ تباہی سے دوچار ہوتا ہے تو اس سے ملک کے دیگر شعبہ جات بھی متاثر ہوں گے۔
کسانوں کے ساتھ مڈل مین اورسرمایہ دار طبقہ ڈکیتی کا جو سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اب یہ سلسلہ بند ہوجانا چاہیے۔ کسان کو اس کی محنت کا معاوضہ ملنا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button