آج کے کالمغلام مصطفی

سورھیہ بادشاہ

غلام مصطفی

دنیا کی تاریخ ظلم وجبر کے خلاف کی جانے والی عظیم جدوجہد اور قربانیوں سے پُر ہے۔آزادی حاصل کرنا اور انقلاب برپا کرنا کسی بھی دور میں آسان کام نہیں رہا۔دنیا میں اسلام کی آمد سے قبل جو حالات چل تھے انہیں بیان کرنا محال ہے، اسلام نے عورت کو عزت اور مقام دیا، انسان کی اہمیت کو اجاگر کیا،بچوں اور بزرگوں کو مقام دیا۔ الغرض انسان تو انسان جانوروں اور پرندوں کو بھی ان کاحق مقام دلایا۔ اسلام کی تاریخ جدوجہد سے بھری پڑی ہے۔ آزادی حاصل کرنے کے لیے جان ومال کی قربانی دینا پڑتی ہے اور انقلاب کے لیے تو یکمشت دونوں چیزیں قربان کرنا پڑتی ہیں، انسان کے ہاتھوں انسان کو غلام بنانے کا دستور بہت پراناہے، نسل انسانی کی بقاء اور ان کی جان ومال کاتحفظ کرناکسی بھی حکومت کی بنیادی ذمے داری ہے۔ملکوں کی بقاء اسلحہ وبارود سے نہیں بلکہ ان کی عوام کی خوشحالی سے ممکن بنائی جاتی ہے۔ جس ملک میں قانون سب کے لیے مختلف بن جائے وہاں انصاف اور امن ناپید ہوجاتااور جہاں امن قائم نہ ہووہاں ترقی ناممکن بن جاتی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ پاکستان کہنے کو تو ایک آزاد ریاست ہے لیکن جب حقیقی معنوں میں زمینی حقائق پر غور کرتے ہیں اورملک میں رائج نظام کو دیکھتے ہیں تویوں محسوس ہوتاہے یہاں پر عالمی سامراجی قوتوں کاقبضہ ہے جو اپنے مفادات کے لیے ایجنٹوں کے ذریعے ایسے ایسے لوگوں کو برسراقتدار لے آتے ہیں جن کی حقیقی حیثیت علاقائی چیئرمین شپ سے زیادہ نہیں ہوتی، پاکستان میں افسوسناک واقعات کاجنم لینا معمول بن چکاہے، ایران یا ترکیہ کے بارے میں کہاجاتاہے کہ وہ ایک ”قوم پرست“ اقوام ہیں، پاکستانیوں کودیکھتے ہوئے کہاجاسکتاہے کہ یہ صرف اور صرف مفاد پرست قوم ہے، یہ نہ قوم پرست ہیں نہ وطن پرست۔ ایک قوم بننے کا خواب اسی صورت میں شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے جب حکمران انگریزوں کی غلامی سے باہر آئیں گے، جب تک ارباب اختیار اپنی تمام تر توجہ عوام اور ملک کے مسائل حل کرنے پر مبذول نہیں کریں گے، ہم اسی طرح پستی کی جانب سے گامزن رہیں گے۔
تحریک آزادی کی اس جنگ میں ایک طرف پیر صاحب پگارا تھے تودوسری جانب ہندوستان میں قائداعظم محمد علی جناحؒ ان دونوں شخصیات کی بدولت پاکستان کا قیام ممکن ہواتھا، جس طرح قائداعظم محمد علی جناح کے بغیر پاکستان کاقیام ناممکن تھا اسی طرح پیرصاحب پگارا(پیرصبغت اللہ راشدی) کے بغیر بھی پاکستان کا قیام ناممکن تھا، ان دونوں شخصیات کی ولولہ انگیز قیادت نے مشترکہ ہندوستان کے دونوں جانب اپنی اپنی جدوجہد کے ذریعے عوام میں آزادی کاشعور اجاگر کیا اور دوقومی نظریے کو باور کرایا اور آج وقت نے ثابت بھی کردیا کہ اس وقت کا دو قومی نظریہ بالکل درست تھا۔ پاکستان کا قیام ہی دوقومی نظریے کی بنیاد پر عمل میں آیاتھا، پاکستان کاقیام ایک معجزہ ہے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائے۔ پاکستان کاقیام قیامت تک کے لیے ہے، ہم یا ہمارے بعد آنے والی نسلیں دیکھیں گی کس طرح پاکستان دنیا میں اپنی الگ شناخت بنائے گا اور دنیا سے دہشت گردی اور اسلام فوبیا کے خاتمے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرے گا۔ ایک آزاد ریاست کا قیام کسی بھی دور میں آسان کام نہیں رہا، خاص طور پر اس دور میں جب آپ کی آواز سننے والا سوائے خدا کے اور کوئی نہ ہو، وہ دور جب ایک انسان اپنی بات دوسرے انسان تک پہچانے کے لیے بھی کئی کئی میل کا سفر کیا کرتاتھا اور وہ بھی کسی جہاز یا تیز رفتار گاڑی کے ذریعے نہیں بلکہ گھوڑوں اور اونٹوں کے ذریعے، صرف ایک پیغام پہنچانے کے لیے ہفتوں اور مہینوں کا سفرطے کیاجاتاتھا، وہ دور بہت مشکلات کا تھا لیکن آج کا جدید دورجہاں موصلاتی نظام اتنا جدید ہوچکاہے آپ سیکنڈوں میں اپنے مطلوبہ شخص یا مقام تک اپنی بات یا پیغام پہنچادیتے ہیں اور پھر اسی وقت وہاں سے جواب بھی آجاتاہے لیکن پچھلے زمانے میں ایسا نہیں تھا کسی پیغام کو کسی دوسرے ملک میں پہنچانے کے لیے مہینوں لگ جایاکرتے تھے۔ دوسرا ملک تو درکنار اپنے ہی ملک کے اندر بھی ایک شہر سے دوسرے شہر تک کوئی پیغام پہنچانا آسان نہیں تھا، اس زمانے میں ٹرانسپورٹ کا فقدان تھا اور تیز رفتار ٹرانسپورٹ نہیں ہواکرتی تھیں ”لوگ پیدل“ گھوڑوں یا اونٹوں، چھوٹی موٹی گاڑیوں پر سفر کیاکرتے تھے اس زمانے میں پیغام رسائی بہت مشکل اور صبر آ زما کام تھا، کئی دنوں کی مسافت کے بعد آپ کا پیغام دوسرے لوگوں تک پہنچتاتھا، تو آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں، جب تحریک پاکستان شروع ہوئی ہوگی تو انہیں کتنی مشکلات پیش آئیں ہوں گی کیونکہ اس وقت تک بھی جب یہ تحریک آزادی شروع ہوئی تھی اتنی زیادہ ترقی نہیں ہوئی تھی ہاں البتہ اس وقت تک کچھ ترقی ہوچکی ہے جس کے باعث جوپیغام پہلے مہینوں میں پہنچتاتھا اب ہفتوں میں پہنچ جایاکرتاتھا لیکن پھربھی اتنی آسانی نہیں تھی جتنی آج کے جدید دور میں حاصل ہے کیونکہ آزادی ایک نعمت ہے لہٰذا آزادی کو غنیمت جانتے ہوئے اس کی قدر کیجئے۔ ورنہ آزادی کی قدر ان لوگوں سے پوچھئے جو آج دیگر سامراجی طاقتوں کی غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں اور آزاد ی کی نعمت سے محروم ہیں۔ اس وقت آزادی کی قدر ان سے زیادہ کوئی دوسرا نہیں بیان کرسکتا۔
پاکستان کی آزاد ی بھی کوئی آسان کام نہیں تھا، بلکہ اس کے لیے بڑی قربانیاں دی گئی تھیں۔ ایسی قربانیاں جس کا تصور کرنا بھی موجودہ دور میں ممکن نہیں ہے۔ 1857 ء میں شروع ہونے والی برصغیر میں آزادی کی یہ تحریک اس لیے شروع کی گئی تھی پورے ہندوستان میں مسلمانو ں پر ہندوؤں کے مظالم بڑھ گئے تھے اور اوپر سے انگریزوں نے بھی مسلمانوں کے لیے زندگی تنگ کررکھی تھی یہ سارے عوامل مل کر ایک ایسا گھمبیر مسئلہ بن گئے تھے جن کا حل صرف اور صرف آزادی میں پنہاں تھا۔ پھر آہستہ آہستہ برصغیر میں یہ جدوجہد تحریک آزادی کی شکل اختیار کرگئی جس کے بعد سیاسی ومذہبی حالات یکدم بدل گئے مسلمانان ہند یہ جان گئے تھے کہ نہ تو انگریزی انہیں جینے دیں گے اور نہ ہی ہندو انہیں اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے دیں گے، یوں سمجھ لیجئے کہ مسلمانوں کا برصغیر میں رہنا محال ہوچکاتھا، وہ ہندوستان میں ہندو یا پھر عیسائی بن کر تو رہ سکتے تھے لیکن مسلمان ہونا ان کے لیے کوئی جرم بن گیاتھا، وہ جرم بھی کوئی جھوٹا موٹا جرم نہیں بلکہ ہندوؤں اور عیسائیوں کے قریب مسلمان ہونا اتنا بڑا جرم تھا جس کی سزا صر ف اور صرف موت تھی۔ ایسے حالات میں قائداعظم محمد علی جناح نے آزادی کی تحریک کے لیے کام شروع کیا، دوسری جانب پیر صاحب پگارا نے بھی انگریزوں کے خلاف بغاوت کردی اور انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے جدوجہد شروع کردی۔ تاریخ سے واقفیت رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ آزادی کی تحریک چلانا کوئی آسام نہیں ہوتا اس کے لیے ہزاروں، لاکھوں قربانیاں دینی پڑتی ہیں، اس راہ میں سب کچھ لٹانا پڑتاہے اور یہی سوچ لے کر قائداعظم محمد جناح ؒ نے اپنا مشن شروع کیاتھا، قائداعظم محمد علی جناحؒ مسلمانوں کو ایک آزاد ریاست دلاناچاہتے تھے جہاں پر مسلمان اپنے مذہبی طریقوں سے آزادی کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔
قائداعظم کی آزادی کی اس تحریک کو حر تحریک نے بہت تقویت دی حرتحریک نے قائداعظم کو بھرپور تعاون کایقین دلایا اور انگریزوں کے خلاف ایسی زور آور تحریک چلائی کہ جس نے برصغیر سے انگریزوں کو نکلنے پر مجبور کردیا، پیرصاحب پگارا نے اپنی جان تو دے دی لیکن انگریزوں سے مسلمانوں کو آزاد ی دلانے کی راہ ہموار کردی۔ آپ کی شہادت کے بعد حر تحریک ختم نہیں ہوئی بلکہ مزید تیز ہوگئی جس کا فائدہ یہ ہوا کہ انگریز گھبرا کر یہاں نکل گیا۔ قائداعظم پیرصاحب پگارا دونوں یہ مشن ان کا کوئی ذاتی مشن نہیں تھا بلکہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کاقیام ان کی اگلی منزل تھی میں وہ کامیاب بھی ہوئے۔ قیام پاکستان کامقصد بھی یہی تھا مسلمان آزادی کے ساتھ اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق آزاد زندگی گزار سکیں اور یہ سب ان حالات میں ہندوستان میں ممکن نہیں تھا۔ اس تحریک میں حر مجاہدین کا بہت بڑا کردار ہے، جنہوں نے اپنا سب کچھ ایک آزاد وطن حاصل کرنے کے لیے لٹادیا۔ یہ تحریک آگے چل کر برصغیر کے مسلمانوں کی ایک مضبوط تحریک بن گئی، ایک ایسی تحریک کہ جس کے بغیر پاکستان کا قیام عمل میں نہیں آسکتا تھااور نہ ہی مسلمان انگریزوں اور ہندوؤں سے آزادی حاصل کرسکتے تھے۔ برطانوی راج کے خلاف مسلمانوں کی بڑی طویل جدوجہد کی تاریخ ہے، یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر پھر کسی موقع پر بات کی جاسکتی ہے۔ فی الحال تحریک آزادی میں حر تحریک کے ایک عظیم و ناقابل فراموش بہادر، نڈر مجاہد رہنما پیرصبغت اللہ راشدی شہید (سورھیہ بادشاہ) کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔
حروں کے روحانی پیشوا پیر صبغت اللہ راشدی(سورھیہ بادشاہ/پیر صاحب پگارا)کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ آپ کا تعلق ایک مذہبی گھرانہ سے تھا۔پیر صاحب پگارا 1910ء میں سندھ کے شہر خیرپور میں پیدا ہوئے اور ان کی وفات 20مارچ 1943میں ہوئی۔ (انہیں انگریز حکومت نے 20 مارچ 1943 کو سنٹرل جیل حیدرآباد، سندھ میں پھانسی دیدی) ہمارے بزرگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پیرصاحب پگارا نے تحریک آزادی ہند کے لیے بے شمار قربانیاں دی تھیں، انہوں نے انگریزوں کے خلاف ایک ایسی تحریک کاآغاز کردیاتھاجسے روکنے کے لیے انگریزوں نے ہر قسم کا ظلم وتشدد کیا، ہر طرح کے مظالم ڈھائے، آزادی کی تحریک شروع کرنے اور عوام شعور وآگاہی دینے کی پاداش میں انگریز حر جماعت کی دشمنی میں اتناآگے نکل گئے کہ انہوں نے حرجماعت کے خلاف اپنے دور کی سندھ اسمبلی میں ایک ایسا کالاقانون پاس کرایا جس کے مطابق جہاں بھی کوئی حرجماعت کا کارکن نظر آئے اسے گولی مار دی جائے لیکن حر جماعت کے یہ مجاہد کسی بھی طرح اپنے مشن سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں تھے، پیر صاحب پگارا کے جانثار مریدین نے انگریزوں کو ایسا سبق سکھایا جو انہیں رہتی دنیا تک یاد رہے گا۔ حرتحریک اپنے اس عظیم رہنما کی قیادت میں پوری آب وتاب سے جاری رہی۔آپ کو بچپن سے انگریزنے اپنے من پسند استادوں کے ذریعے تعلیم دینا شروع کردی تھی تاکہ وہ آپ کی تربیت اپنے نظریے کے مطابق کرسکیں تاکہ آپ کا دل ودماغ انگریزوں کی غلام سے باہر ہی نہ نکل سکے اورآپ ان کے خلاف آواز نہ اٹھاسکیں بس اسی طرح انگریزوں کی غلامی میں ہی زندگی گزاردیں لیکن انگریزوں کیامعلوم تھا کہ جس شخص کو وہ اپنا غلام بنا کر رکھناچاہتے ہیں وہ تو خود غلامی کی زنجیروں کو توڑنے والاہے، چونکہ پیر پگارا صاحب خود انگریزوں کے مظالم دیکھ رہے تھے اور وہ خود اس نظام سے باغی ہوچکے تھے جہاں انصاف نہ ہو، جہاں لوگوں کو ان کے مذہب کے مطابق زندگی بسر کرنے کی اجازت نہ دی جائے، جہاں انگریز سرکار انہیں اپنا غلام بناکر اس طرح رکھے جیسے جانوروں کو رکھاجاتاہے اور جب اس مجاہد نے علم بغاوت بلند کیا تو پھردنیا نے دیکھا کہ سندھ دھرتی پر پیر صاحب پگارا ایک ایسے مجاہد کی صورت میں سامنے آئے جس نے نہ صرف سندھ کو انگریزوں سے آزاد کروایا بلکہ برصغیر کے مسلمانوں کی صحیح رہنمائی بھی کی، انہیں انگریزوں کی ریشہ دورانیوں سے آگاہی دی، انہوں نے اپنی قوم کو بتایا کہ یہ انگریز ہمیں اسی طرح غلام بناکر ہم سے ہمارا مذہب اور عقیدہ چھیننا چاہتاہے، اگر ہم نے انگریزوں سے آزادی حاصل نہیں کی تو اسی طرح ان کے ظلم وستم کا شکار رہیں گے، ہم کسی بھی طرح انگریز کے غلام نہیں ہوسکتے کیونکہ ہم اپنے آقا آخری نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ کے غلام ہیں، اس کے علاوہ ہم کسی اور کی غلامی کو قبول نہیں کریں گے، یہی وجہ ہے کہ مسلمان ہند نے پیر صبغت اللہ راشدی کا صاحب ساتھ اس انداز میں دیا کہ وہ اس تحریک کے لیے جان تو دے سکتے تھے لیکن انہیں اس مشن سے ہٹایا نہیں جاسکتا تھا اور پھرانہوں نے یہ ثابت بھی کردکھایا۔
بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد اور خاص طور پر قائداعظم محمد علی جناحؒ صاحب کے انتقال کے بعد اس عظیم مجاہد(پیر صاحب پگارا) کاذکر اس طریقے سے نہیں کیا گیا جس طرح کرنا چاہیے تھا یا یوں سمجھ لیں جو ان کا حق تھا وہ انہیں نہیں دیا گیا لیکن اب میں (راقم) سمیت تمام پاکستانی نوجوان پیر صاحب پگارا کی دینی وملی خدمات کو پوری دنیا میں اجاگر کریں گے، اپنی تحریروں اور ڈاکومنٹری کے ذریعے دنیا کو بتائیں گے کہ پیر صبغت اللہ راشدی صاحب نے جس قوم کے لیے قربانیاں دی تھیں آج وہ قوم پھر سے انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے حاضر ہوچکی ہے۔ وہ بیدار ہوچکی ہے، جس قوم کو نشہ کا ٹیکہ لگاکر سلادیا گیاتھا اب وہ نشہ سے باہر آچکی ہے۔ ہمارا مشن قومی یکجہتی اور وطن کی حفاظت کرناہے، اپنے ملک کے محسن وہیروز کو پروموٹ کرناہے، انہیں عزت کے ساتھ وہ مقام دیناہے جو ان کا حق بنتا ہے جو انہیں اب تک نہیں دیا گیا ہے، قوم کو یاد رکھناچاہیے کہ اپنے محسنوں کو یادرکھنے والی قومیں ہی زندہ رہتی ہیں جوقومیں اپنے ہیروز اور محسنوں کو بھلادیتی ہیں تو زمانہ بھی انہیں تاریخ سے نکال دیتاہے، پھر انہیں اندھیروں میں غرق کردیتاہے، دنیا میں انہیں کہیں بھی پناہ نہیں ملتی۔ زمین انہیں اپنے اندر دفن نہیں ہونے دیتی اور آسمان انہیں اپنے پاس آنے نہیں دیتا، یوں کہہ لیں کہ زمین کا ذرہ ذرہ ان سے نفرت کرتاہے کیونکہ جو غدار ہوتاہے، وہ احسان فر اموش کہلاتاہے اور دنیا جانتی ہے کہ احسان فراموش اور غداروں کی کہیں جگہ نہیں ہوتی۔ اب چاہیں قوم کا غدار کا ہو یا ملک کا، لیکن ابھی موقع بھی اور وقت بھی کہ ہم اپنے محسنوں کی قربانیوں کویادکریں اور اپنے وطن کی ترقی میں اپناکردار اداکرتے ہوئے اُس وقت کو یاد کرو جب ہمارے بزرگوں نے ظالم وجابر حکمرانوں (انگریزوں) کے خلاف علم جہاد بلند کیا تھا، آج کچھ لوگ کہتے ہیں حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ تو کیا اُس وقت حالات خراب نہیں تھے؟ بلکہ اُس وقت حالات آج سے زیادہ خراب تھے۔ آج الحمدللہ آج ہر پاکستانی سکون سے زندگی بسر کررہاہے، یہاں سب کو مذہبی آزادی حاصل ہے، لیکن اُس وقت ایسا نہیں تھا۔ بہت مشکل وقت تھا۔اس وقت تو آج کے دور کی جدید سہولیات بھی میسر نہیں تھیں، تیز ترین موصلاتی نظام نہیں تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button