عام انتخابات کیلئے اہم پیش رفت

پنجاب حکومت اور الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کو پُرامن اور شفاف بنانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ ایوان وزیراعلیٰ میں نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی اور چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی زیر صدارت اہم اجلاس ہوا جس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے چاروں صوبوں کے ممبرز اور پنجاب کابینہ کے ارکان شریک ہوئے، اجلاس میں عام انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کے انتظامات اور پنجاب حکومت کی تیاریوں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پنجاب میں عام انتخابات کی تیاریوں سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کا کہنا تھا کہ عام انتخابات کا وقت قریب ہے،سب نے مل کر منصفانہ اور شفاف الیکشن کو یقینی بنانا ہے،عام انتخابات مقررہ وقت پر ہوں گے۔30نومبر تک حلقہ بندیوں کا مرحلہ مکمل ہو جائے گا۔ نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کی قیادت میں پنجاب حکومت کے اب تک کے اقدامات سے مکمل طور پر مطمئن ہیں جبکہ نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے ساتھ عام انتخابات کے پرامن اور شفاف انعقاد کے لیے ہر ممکن تعاون کیا جائے گا، پنجاب میں الیکشن کے آزادانہ انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے فول پروف انتظامات کئے جائیں گے۔نگران پنجاب حکومت کی ٹیم عام انتخابات کے منصفانہ انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے الیکشن کمیشن کی گائیڈ لائنز پر من وعن عمل کرے گی،عام انتخابات کا منصفانہ،آزادانہ اور پرامن انعقاد قومی ذمہ داری ہے جسے احسن طریقے سے نبھائیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے حالیہ کئی دنوں میں عام انتخابات کے بروقت انعقاد سے متعلق وضاحت کی جارہی تھی اور چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان کی نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی سے ملاقات کے بعد اب وہ تمام ابہام ختم ہوجانے چاہئیں جن کا ذرائع ابلاغ پرماہرین اور بعض سیاسی شخصیات کی جانب سے کیا جارہا تھا۔ پاکستان میں عام انتخابات سے جڑا ابہام جمعرات کو اس وقت کم ہوا جب الیکشن کمیشن نے اعلان کیا کہ آئندہ سال جنوری کے مہینے کے آخری ہفتے میں الیکشن کا انعقاد کیا جائے گا تاہم الیکشن کی تاریخ سے جڑے آئینی سوالات مسلسل اٹھائے جارہے تھے۔ 2018ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی قومی اسمبلی 13 اگست 2018 سے شروع ہوئی تھی اور اس کی پانچ سال کی مقررہ مدت 12 اگست 2023 کی رات 12 بجے مکمل ہونا تھی لیکن وزیراعظم شہباز شریف نے مقررہ مدت سے پہلے ہی نو اگست کو ہی اسمبلی تحلیل کر دی تھی۔چونکہ آئین کے تحت عام انتخابات اسمبلی کی تحلیل کے 90 دن بعد ہونا تھے تاہم سابقہ حکومت کی جانب سے مردم شماری کی منظوری کے بعد الیکشن کا انعقاد التوا کا شکار ہو گیا۔پھر ملک میں سیاسی صورت حال اور بے یقینی کی فضا کی وجہ سے ایسے خدشات جنم لینے لگے کہ شاید انتخابات بروقت نہ ہوں یا نگران سیٹ اپ تادیر برقرار رہے لیکن اس دوران الیکشن کمیشن آف پاکستان بارہا واضح کرتا رہا اور چیف الیکشن کمشنر کی اِس ملاقات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ عام انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کم و بیش اپنی تمام تر تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔ عام انتخابات کے بروقت انعقاد میں تاخیر کی ایک وجہ نئی مردم شماری کی منظوری کو قرار دیا جارہا تھا اور پی ڈی ایم کی حکومت کا موقف تھا کہ ملک کی آبادی کے نئے اعدادو شمار سامنے آنے چاہئیں اور ان ہی کے مطابق حلقہ بندیاں ہونی چاہیں بلکہ یہاں تک کہ سابق وزیراعظم شہبازشریف نے واضح کردیا تھاکہ انتخابات نئی مردم شماری کی بنیاد پر ہی ہوں گے مگر بعض سیاسی پارٹیوں بالخصوص تحریک انصاف نے اِس موقف کو مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ مردم شماری کی بنیاد پر انتخابات کو تاخیر کا شکار نہیں کیاجاسکتا، بہرکیف پی ڈی ایم حکومت کے دور میں ہی عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق چہ مگوئیاں اور تبصرے و تجزیئے شروع ہوگئے تھے چونکہ سیاسی عدم استحکام اپنے عروج پر تھا اور اب بھی صورت حال مختلف نہیں ہے لہٰذا یہ خدشات تقویت پکڑتے جارہے تھے لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان بار بار واضح کرتا رہا کہ انتخابات تاخیر کا شکار نہیں ہوں گے۔ پھر ایوان صدر بھی انتخابات کے انعقاد کے سے متعلق الیکشن کمیشن کی جانب متوجہ ہوا اور صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے الیکشن کمیشن کوخط بھی لکھا۔ پھر صدر مملکت نے چیف الیکشن کمشنر کو مشاورت کے لیے مدعو کیا لیکن معاملہ کسی اور طرف چل نکلا اور چیف الیکشن کمشنر نے ملاقات کی بجائے خط کے ذریعے موقف اختیار کیا کہ ترمیم شدہ قانون کے تحت انتخابات کی تاریخ دینا صرف الیکشن کمیشن کا استحقاق ہے۔