جہاں انصاف کا قتل ہو!
ایم یوسف علی
نون لیگ کے مطابق سابق وزیراعظم نوازشریف وطن واپس پہنچے تو لاہور میں ان کا فقید المثال استقبال ہوا۔ نون لیگیوں کا دعویٰ ہے کہ میاں محمد نواز شریف کسی سیاسی ڈیل کے تحت واپس نہیں آئے۔ ٹھیک ہے اگر کسی قسم کی ”ڈیل“ نہیں ہوئی تو کیا وجہ ہے کہ وہ اس وقت پاکستان تشریف نہیں لائے تھے جب ان کی والدہ اور زوجہ محترمہ کا انتقال ہوا اور وہ ان کی میت کو کندھا دینے کے لیے بھی پاکستان آنے کی ”ہمت“ نہیں کر سکے تھے اور نہ ہی تب تشریف لائے تھے جب ان کے برادر خورد اس ملک کی وزارت عظمی کے تخت پر براجمان تھے؟ یہ بہت ہی معصومانہ سوال ہے کہ نون لیگ کی ”مقتدرہ“ سے کوئی ڈیل نہیں ہوئی جس کا دفاع وہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی کرنے پر مجبور ہوئے ہیں جو پاکستان میں ”مطلوب“ تھے مگر جب آئے تو آتے ہی وزیر خزانہ بن گئے اور جونہی پی ڈی ایم (PDM) کی حکومت رخصت ہوئی تو وہ بھی لندن ”رخصت“ ہو گئے۔ کچھ بعید نہیں کہ جونہی سنہ 2024 میں نون لیگ کی حکومت بنے گی، اسحاق ڈار صاحب وزیر خزانہ بننے کے لیے دوبارہ وطن واپس لوٹ آئیں گے۔ کیا وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اسحاق ڈار صاحب جب دوبارہ پاکستان آئیں گے تو وہ کوئی ڈیل کیے بغیر آئیں گے؟ مشرف دور میں جب نواز شریف گرفتار ہوئے یا دوبارہ وطن واپس لوٹے تو کیا وہ جاتے وقت کوئی ڈیل کر کے نہیں گئے تھے یا جب وہ واپس پلٹے تھے تو انہوں نے کوئی ڈیل نہیں کی تھی؟ یہ پاکستان کی سیاست کا المیہ ہے کہ یہاں ہر بڑا سیاسی کام ڈیل کے بغیر کرنا قریباً ناممکن ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ نواز شریف صاحب کی واپسی کسی ڈیل کا نتیجہ نہ ہو۔ دراصل ڈیل انصاف کا جنازہ ہے جس کو ہم بڑے فخر سے گزشتہ 75سالوں سے نکالتے چلے آ رہے ہیں، کیونکہ ہمارے نزدیک انصاف صرف وہی ہے جو ہم چاہتے ہیں ناکہ انصاف وہ ہے جو”قانون“ چاہتا ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا الیکشن ہونے جا رہا ہے جس کے فرداً فرداً حلقوں کے نتائج کا کسی کو نہیں پتا لیکن یہ سب کو پتا ہے کہ اگلی حکومت کس سیاسی جماعت کی بنے گی۔ نون لیگ کے ناقدین کی رائے سے ہٹ کر نون لیگ کی موجودہ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سے کوئی ڈیل نہیں بھی ہوئی اور نواز شریف کی سابقہ برطرفی ہی غلط ہوئی تھی تو میاں صاحب نے ”عدلیہ“ کو ائیر پورٹ پر بلا کر ”عدالتی نظام“ کا جنازہ کیوں نکالا؟ بقولے شخصے نواز شریف واپس آ کر سیدھے جیل بھی جا سکتے تھے اور پھر اگلے دن ضمانت کی درخواست دے کر رہا بھی ہو سکتے تھے لیکن انہوں نے پاکستان کے عدالتی نظام کو ننگا کرنا اور اس کی بے بسی کا تماشہ بنانا مناسب سمجھا۔ آئندہ الیکشن میں نظام کی یہ برہنگی 24کروڑ عوام کے سامنے کھل کر آ جائے گی۔ آگے چل کر یہی کچھ ہونا ہے تو بھلا الیکشن کروانے پر وقت اور پیسہ ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ہر سال سب مل 18ارب ڈالر کی مراعات کھاتے ہیں۔ اس کی وجہ بیک ڈور سے ڈیلز کر کے آنے والے یہی سیاست دان ہیں۔
اب کوئی وزیراعظم انوارالحق کاکڑ صاحب کے اس بیان کی روشنی میں یہ سوچے کہ ”انتخابات میں نواز شریف اور عمران خان کے ساتھ قانون کے مطابق برتاو کیا جائے گا“، ایک مغالطہ تو ہو سکتا ہے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہزاروں سال پہلے ایک یونانی دانشور نے شاید ہمارے لیے ہی کہا تھا کہ ”قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جسے بڑے جانور توڑ کر نکل جاتے ہیں اور چھوٹے کیڑے مکوڑے پھنس جاتے ہیں“۔ یوں کچھ بعید نہیں کہ جس طرح جسٹس عطا بندیال کے دور میں عمران خان پر ”ریلیف“ کی برسات کی جاتی رہی تھی اب قاضی فائز عیسی کے دور میں وہی برسات نواز شریف پر کی جائے گی۔ چہ جائیکہ 6سال قبل جس طرح سے میاں نواز شریف کو ”اقامہ“ پر نااہل کیا گیا تھا پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ لیکن عدالت اور نادرا کو ائیر پورٹ پر بلا کر ضمانت دینے کا تماشہ بھی دنیا نے پہلی بار دیکھا ہے۔
گو کہ چند روز قبل نیب کے پراسیکیوٹر جنرل نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں اعتراف کیا کہ نوازشریف کے خلاف ریفرنسز سپریم کورٹ کے حکم پر دائر کئے گئے تھے جس کا بلواسطہ مطلب یہ ہے کہ میرٹ کو دیکھے بغیر نیب نے ریفرنسز صرف اس لیے دائر کئے تھے کیونکہ سپریم کورٹ کے ایک مخصوص بنچ کی خواہش تھی کہ نوازشریف کو جیل میں ڈالا جائے۔ یہ بجا کہ عمران خان کو لانے کے لیے ترقی کرتے ہوئے ملک کو پٹڑی سے اتارا گیا مگر اب اس کی کیا گارنٹی ہے کہ ملک دوبارہ شاہراہ ترقی پر گامزن ہو گیا تو عمران خان یا بلاول بھٹو زرداری وغیرہ کو اقتدار میں لانے کے لیے نواز شریف کو نہیں ہٹایا جائے گا؟
کیا خبر ایک اور ”پاناما سکینڈل”میاں صاحب کو وطن لانے سے پہلے ہی گھڑ لیا گیا ہو۔ وہ کون خوش نصیب وزیراعظم ہو گا جو پاکستان میں اپنی معینہ مدت پہلی بار پوری کرے گا؟ ہم نظریات کی بجائے شخصیات پر ایمان رکھنے والی قوم ہیں۔ آدھا سفر طے کرتے ہیں اور جب منزل پر پہنچنے کے قریب ہوتے تو ہمیں دوبارہ سفر کروانے کے لیے واپس بلا لیا جاتا ہے۔
جب تک شخصیات کی بجائے نظریات، نظام اور انصاف کو مضبوط نہیں کیا جاتا نوازشریف کا چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننا تو کیا وہ ایک سو مرتبہ بھی وزیراعظم بنے تو مسئلہ پھر بھی جوں کا توں ہی رہے گا، غریب کا چولہا نہیں جلے گا پی آئی اے (PIA) کی طرح باقی ادارے بھی ایک ایک کر کے تباہ ہوتے رہیں گے اور سرمایہ دار، امیر سے امیرتر اور غریب، غریب سے غریب تر ہوتا جائے گا۔ اس سے پہلے کہ شریف خاندان کے میاں نواز شریف، مریم نواز، شہباز شریف، حمزہ شہباز اور سمدھی اسحاق ڈار دوبارہ اقتدار کی پگڈنڈیوں پر نظر آنے لگیں، مقتدرہ اس دفعہ سوچ سمجھ کر اور دیرپا فیصلے کرے تو زیادہ بہتر ہو گا۔