چار ممالک نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کردیے
نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج کی وحشیانہ بمباری کے باعث چلی، کولمبیا اور بولیویا کے بعد اردن نے بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کردیے۔
دی ٹائمز آف اسرائیل کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ فلسطین کے علاقے غزہ پر وحشیانہ بمباری اور بربریت کے خلاف بطور احتجاج جنوبی امریکہ کے 3 اور مشرق وسطیٰ کے ایک ملک نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کیے ہیں۔
گزشتہ روز چلی اور کولمبیا نے اپنے سفیروں کو اسرائیل سے واپس بلا لیا تھا پھر بولیویا نے بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق وزیر خارجہ ایمن صفادی نے سفیر واپس بلانے کی تصدیق کی۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ غزہ پر بمباری روکنے اور انسانی بحران کے خاتمے کی صورت میں ہی سفیر واپس تل ابیب بھیجیں گے۔
ایمن صفادی نے کہا کہ اقدام کا مقصد غزہ پر اسرائیلی بمباری کی مذمت اور اسے مسترد کرنا ہے جس کی وجہ سے ہزاروں معصوم شہری اپنی جانیں گنوا چکے اور ایک بڑے انسانی بحران کا سامنا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ فیصلہ اس لیے بھی کیا گیا کیونکہ اسرائیل فلسطینیوں کو امداد کی صورت میں بھیج گئیں اشیائے ضروریہ، پانی اور دواؤں سے محروم کر رہا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ اردن چھوڑ جانے والے اسرائیلی سفیر کی واپسی بھی اسی شرط پر ممکن ہوگی۔ دو ہفتے قبل مظاہروں کے باعث اسرائیلی سفیر ملک چھوڑ گئے تھے۔
ایمن صفادی نے کہا کہ اردن سفارتی کوششوں میں تیزی لا کر اسرائیل پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ غزہ میں جاری جنگ روک دے جس کے باعث نہ صرف خطے بلکہ دنیا کے امن کو بھی خطرہ ہے۔
ادھر بولیویا کے ڈپٹی وزیر برائے خارجہ امور کا اپنے بیان میں کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کا فیصلہ اسرائیلی حملوں کی مذمت اور اسرائیلی افواج کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ کئی روز سے اسرائیل کی جانب سے غزہ پر وحشیانہ بمباری جاری ہے اور اب تک ہزاروں ٹن بارود غزہ کے نہتے عوام پر گرایا چکا ہے۔
اسرائیلی طیاروں نے آبادی کے علاوہ اسپتال اور پناہ گزین کیمپوں کو بھی نہیں چھوڑا اور سب تباہ کردیا ہے۔ اسرائیلی حملوں میں اب تک 3500 سے زائد بچوں سمیت ساڑھے 8 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔
غزہ پر اسرائیلی بمباری کے خلاف دنیا سراپا احتجاج ہے اور لندن، استبول اور ڈھاکہ سمیت کئی شہروں میں بڑے بڑے عوامی احتجاج کیے گئے ہیں۔