تاریخ کی بااثر پنجاب پولیس اور سوشل میڈیا
عامر رانا
سوشل میڈیا دنیا میں حقائق دکھانے کے حوالے سے ایک معتبر ذرائع تصور ہوتا جارہا ہے،قومی ادارے ہوں یا سیاسی پنڈال،روحانی شخصیت ہو یا فلم اسٹیج کی تشہیر سب ہی کو سوشل میڈیا کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جبکہ اس کا اندازہ پاکستان میں میڈیا انڈسٹری پر آنے والے زوال سے لگایا جاسکتا ہے تمام ٹی وی چینل اور اخبارات کے ویب چینل اور ای میڈیا کو دیکھ سکتے ہیں مگر پاکستان میں اس سوشل میڈیا کو جہاں اپنی مشہوری کیلئے استعمال کیا جاتا ہے وہاں حکومتیں اور ادارے اس سے بے جا نفرت کرتے جارہے ہیں جس کی مثال چند روز قبل سندھ حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا کے نمائندوں کو کسی بھی سرکاری دستاویزات کی فراہمی او ر معلومات نہ دینے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا تاہم سندھ حکومت نے ذرائع ابلاغ کے اصل نمائندوں سے مکمل تعاون کا بھی کہا ہے۔دوسری جانب پنجاب میں بھی اس نوٹیفیکیشن کی گردش کرتی ہوئی کاپی کو پنجاب حکومت سے منسوب کرنے کی کوشش کی گئی مگر تاحال پنجاب حکومت کا ایسے کسی بھی اقدام پر فیصلہ کرنے کا کوئی ارادہ نظر نہیں آرہا ہے مگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر ایک لکیر کھینچنے اور ان کی حد بندی کرنے جیسی بہت ساری تجاویز ہیں مگر اس پر کون قدم اٹھائے گا کچھ معلوم نہیں مگر جہاں سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنے حق میں ہونے والی سیاسی رائے کا احترام کیا جاتا ہے وہاں اپنے خلاف کسی بھی طرح کی مخالف گفتگو پر تڑپ اٹھتے ہیں اور ایسی ہی صورت حال پنجاب کے قومی اداروں کی ہے جس میں سب سے اول پنجاب پولیس کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے اور پنجاب پولیس کی جانب سے سوشل میڈیا کو کاؤنٹر کرنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے مگر بے سود تاہم پنجاب پولیس اس وقت پھر کوشش کر رہی ہے کہ سوشل میڈیا پر پولیس کے حوالے سے شکایات کا مقابلہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا کو ہی ذلیل کیا جائے مگر وہاں بھی ناکامی کا سامنا رہا اور پنجاب پولیس خود کو منوانے کیلئے آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور کی سربراہی میں ہی سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے اپنے وی لاگ اور رپورٹ دے کر عوام کے دلوں میں گھر کرنے کی کوشش شروع کردی مگر بدقسمتی سے پنجاب پولیس کے علاوہ شائد ہی کوئی پنجاب کا قومی ادارہ ہو جس نے خود کو سوشل میڈیا پر تشہیر دلوانے کیلئے کوئی بجٹ یا ایسا کوئی سسٹم بنایا ہو جس پر وہ اپنی کارکردگی کے حوالے سے کچھ دیکھا اورسنا سکیں،پنجاب پولیس کے سوشل میڈیا سیل کو تیزی سے عوام تک پہنچانے کیلئے انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور کا ایک اہم کردار ہے جبکہ سوشل میڈیا تو ان سے پہلے کا پنجاب پولیس کے پلیٹ فار م سے چل رہا ہے مگر ڈاکٹر عثمان انور کی جانب سے اس پر بہتر سے بہتر کام کرنے اور اس کا پہلے سے اضافی بجٹ منظور کروانے سے لگ رہا ہے کہ وہ پنجاب پولیس کے سوشل میڈیا سیل کو دنیا بھر میں منوانا چاہتے ہیں اور اس پلیٹ فارم سے پنجاب پولیس کی ایک نرم تصویر بنا کر منوانا چاہتے ہیں کہ پاکستان خصوصاً پنجاب میں اس پولیس اس قدر متحرک ہے کہ جرائم کی جرأت نہیں۔
ڈاکٹر عثمان انور دبنگ سٹائل کے ساتھ ان کا اپنی سپاہ کیلئے نرم گوشہ ان کی تعیناتی سے قبل کا ہی مشہور ہے وہ نہ صرف مکمل ڈاکٹر ہیں بہادر اورذمہ دار آفیسر بھی ہیں مگر اس کے باوجود بھی ڈاکٹر عثمان انور پنجاب پولیس کے ایک بڑے حصے اور عوام میں اپنی جگہ بنانے میں ناکام ہیں پنجاب پولیس کے کئی ایسے بہتر اقداما ت ہونگے جو انہوں نے چند ہی دنوں میں کر دیئے جو کہ اہلکاروں کی ترقی اور ان کے معاشی معاملات اور شہدا کے حوالے سے مسائل تھے مگر انہوں نے اب تک عوام کیلئے کون سا ایسا اقدام کیا جس کی تعریف ہوسکے کہ عوام کی فلاح کیلئے انہوں نے پنجاب پولیس سے ہونے والی شکایات ہی ختم کردی آج آپ یقین کریں کہ جس قدر طاقت ور اور اختیارات پنجاب پولیس رکھ رہی ہے اس سے قبل میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی کسی بھی طرح کی سیاسی مداخلت نہیں۔ ایس ایچ اوز تعیناتی اور ایس ایچ او معطلی کے حوالے سے جتنے بااختیار آج افسران ہیں اس سے قبل نہ تھے اور کوئی سیاسی سفارش ہوتی بھی ہے تو وہ آفیسر کی ذاتی تعلقات کے بنا پر ہی ہو رہی ہے یہاں تک کہ نہ تو وزیر اعلیٰ پنجاب پولیس افسران کے تعیناتی کے حوالے سے مداخلت کر رہے ہیں اور نہ ہی پنجاب پولیس کو جرائم کی بڑھتی ہوئی صورت حال پر پوچھ رہے ہیں جبکہ آئی جی پنجاب کی سیٹ پر تعینات سپاہ سالار ہی کو پوری پنجاب پولیس جواب دہ ہے اور آئی جی پنجاب پولیس کی سیٹ بھی آگے ایک ہی سیٹ کو جواب دے ہیں جو نہ طور وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں نہ وزیر اعظم پاکستان اور نہ ہی صدر پاکستان کو جواب دہ آئی جی پنجاب پولیس کی سیٹ تاریخ کی سب سے طاقت ور سیٹ اس سے قبل کبھی نہ تھی کیونکہ کوئی سیاسی او ر سرکاری مداخلت کا اب کی پنجاب پولیس سے تعلق ہی نہیں اور اس پر پنجاب پولیس کے طاقت ور اور توانا ہونے کا سہرا یقینا ڈاکٹر عثمان انور کے سر پر جاتا ہے انہوں نے نہ صرف پنجاب پولیس کوطاقت ور کیا بلکہ مرضی کا بجٹ لیا اور اپنی سپاہ کے اہم معاملات پر خرچ کیا جسے پنجاب پولیس کی تاریخ یاد رکھے گی۔
دوسری جانب اگر پنجاب پولیس کے سربراہ جہاں اپنی سپاہ کے حوالے کاموں پر مبارکباد کے مستحق ہیں وہاں عوام کو تو نظر انداز نہ کردیا جائے ایف آئی آر کا فوری اندارج کے حوالے سے پنجاب پولیس کا ہمیشہ سے ہی سلوگن رہا ہے کہ شہری کی درخواست پر فوری مقدمہ درج کیا جائے مگر اس کہ باوجود آج بھی پنجاب بھر کے 810 پولیس اسٹیشن میں درجنوں درخواستیں التواء کا شکار ہونے کے ساتھ پنجاب پولیس کے اہلکاروں کے نارواسلوک کی شکایات ہیں۔ جہاں اپنے سوشل میڈیا کے ذریعے آپ مثبت کاموں کے حوالے سے پذیرائی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہاں سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں تک تو پہنچیں ان کی پولیس سے شکایات کو سنیں روزانہ اس قدر شکایات موصول ہونگی جتنی ان کی کمانڈ میں نفری نہیں ہو گی۔ پنجاب پولیس کا سوشل میڈیا آج بھی اخبارات کے دور کا کام کر رہا ہے جہاں پہلے ایک دو کیس حل کرنے پر مدعی کو ساتھ بیٹھا کر ان سے تعریف کرا دی جاتی تھی آج بھی وہی ہو رہا ہے۔ ہمارا پنجاب پولیس کے اہلکاروں سے واسطہ پڑتا ہے، ہمیں بتایا جاتا ہے کہ پنجاب پولیس کی خود احتسابی کا عمل شفاف نہیں ہے جرم اور جرائم کرانے والے اہلکارو ں بے نڈر ہو چکے ہیں جو کہ آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور کے ایس او پیز کے مطابق ہیں کہ اہلکار وں کی غلطیوں کو معاف کر دیا جائے کیونکہ ان کی غلطیوں کی معافی ہو گی تو وہ نہ تو سفارشیں لائیں گے اور کام بھی اچھے دل سے کریں گے تاہم ان پر نظر رکھی جائے اور وارننگ دی جائے مگر ان کی مسلسل اپنی سپاہ کی کوتاہیوں پر سافٹ کارنر رکھنے کا یہ عمل عوام کیلئے فائدہ مند نہیں ہو رہا۔ آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور اپنی سپاہ میں اپنا نام تو منوا رہے ہیں مگر عوام کے دلوں میں جگہ نہیں بنا پا رہے شاید وہ عوام کو کسی کھاتے میں نہیں لاتے ان کی تعیناتی اور ان کا بااثر ہونا عوام کی خدمت سے نہیں ہوا بلکہ قومی ادارے کی خدمت سے ہوا ہے مگر انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ وقت اگر وہ بدل گیا ہے تو وقت یہ بھی بدل جائے گا ان کے نام کے بعد بھی ایک وقت ریٹائرڈ لکھا جائے گا بہر حال عوام کے مسائل پر نظر ڈالیں اور اپنی ”منجی کے نیچے ڈانگ“پھیرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ پنجاب کی عوام کو جرائم اور جرائم پیشہ افراد سے سکون مل سکے۔