آج کے کالمقدسیہ رشید

علم، عمل اور دعوت دین

تحریر: قدسیہ رشید

خوش بیانی کی نسبت خوش اخلاقی اور خوش عملی زیادہ کارگر ثابت ہوتی ہے داعی کی شیریں بیانی خوش اخلاقی اور تحمل مزاجی شدید ترین مخالف کا دل بھی اپنی طرف کھینچتی ہے سرور کونین ﷺ کا یہی طرز عمل کفار اور مشرکین کو کشاں کشاں دائرہ اسلام میں لے آیا۔ دعوت و تبلیغ کے میدان میں نرم گفتاری کی اہمیت سے کوئی داعی اور مبلغ بے خبر نہیں رہ سکتا قرآن مجید میں آنحضور ﷺ کو مخاطب کرکے فرمایا گیا:وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ(آل عمران، 3: 159)اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے۔‘‘اس سلسلہ میں چند عملی مثالیں:داعی اعظمؐ کی زندگی:عکرمہ فتح مکہ کے بعد فرار ہوگیا اس کی بیوی نے آنحضور ﷺ سے اس کے لیے معافی طلب کی وہ واپس مکہ آنے سے ڈر رہا تھا کہ شاید یہ کوئی چال نہ ہو بہر حال بیوی کی یقین دہانی پر آگیا وہ جس وقت مسجد نبویؐ میں داخل ہوا حضور ﷺ اسے دیکھ کر اس قدر تیزی کے ساتھ اٹھے کہ چادر مبارک نیچے گر گئی اور آپ ﷺ نے آگے بڑھ کر عکرمہ کو گلے لگالیا وہ تو اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا تھا کہ کہیں کسی سازش کا شکار نہ ہوجائے یہ حسن اخلاق دیکھ کر اس کی چیخیں نکل گئیں اور قدموں میں ڈھیر ہوگیا۔
فتح مکہ کے بعد کفار کی کمر ہمت ٹوٹ گئی سرداران مکہ میں سے اکثر کا قبول اسلام بخوشی نہ تھا ان میں ایک صفوان بن امیہ بھی تھا سرکار دو عالم ﷺ نے اسے تین سو اونٹ عنایت فرمائے اس کا بیان ہے کہ آپ ﷺ نے مجھے اتنا عطا کیا کہ شان فیاضی دیکھ کر میرے دل کا بغض ختم ہوگیا اور آپ میرے نزدیک محبوب ترین شخصیت بن گئے۔
ایک شخص آپﷺﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کچھ بکریاں مانگیں آپ ﷺ نے ایک بہت بڑا ریوڑ عطا کردیا وہ آپ ﷺ کی فیاضی سے اس قدر متاثر ہوا کہ واپس جاکر قبیلہ والوں کو اکٹھا کرکے کہا ’’مسلمان ہوجاؤ محمد ﷺ اس قدر عطا کرتے ہیں کہ مفلسی کا خدشہ باقی نہیں رہتا۔
ایک مرتبہ کسی یہودی کا ایک بچہ آپ ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا بیمار ہوکر قریب المرگ تھا آپ خود چل کر اس کے گھر گئے تیمارداری کی اور اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اس نے اجازت کے لیے باپ کی طرف دیکھا یہودی آپ ﷺ کے حسن سلوک سے اس قدر متاثر ہوگیا کہ بیٹے سے کہنے لگا دیکھتے کیا ہو؟ ایسے مہربان شخص پر فوراً ایمان لے آؤ۔
ایک دفعہ آپ ﷺ نماز پڑھانے کے لیے مصلے پر کھڑے ہوئے ایک اعرابی کی آواز آئی اور اس نے آپ ﷺ کو پکڑ کر پیچھے کھینچ لیا آپ نے پہلے اس کی حاجت پوری کی پھر نماز پڑھائی۔حضرت معاویہ بن سکم رضی اللہ عنہ نماز پڑھ رہے تھے کہ کسی کی چھینک پر یرحمکم اللہ کہہ دیا۔ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین انہیں گھورنے لگے کہ دوران نماز یہ کیا کردیا لیکن نبی اکرم ﷺ نے صحابہؓ کو تو منع کیا لیکن حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو ڈانٹا تک نہیں بلکہ پیار سے بتلایا کہ نماز اللہ کی بڑائی کے لیے قائم ہو جاتی ہے اس میں بات چیت کرنا منع ہے۔
رسول اکرم ﷺ کا دلنواز انداز دعوت:رسول اللہ ﷺ اکثر اپنے گردو پیش میں موجود روزمرہ کی معمولی مثالوں کے ذریعے بھی اسلامی تعلیمات ذہن نشین کروایا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ایک بار سفر جہاد کے دوران ایک بستی پر ہمارا گزر ہوا آنحضرت ﷺ نے اہل بستی سے پوچھا تم لوگ کون ہو ، انہوں نے عرض کیا ہم مسلمان ہیں وہاں ایک عورت کھانا پکا رہی تھی وہ بار بار اپنے بچے کو آگ سے دور ہٹاتی وہ آپ ﷺ کے پاس آئی اور عرض کیا، کیا آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا بے شک میں اللہ کا رسول ہوں اس نے کہا، کیا خدا سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا نہیں؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں اللہ سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے، اس نے کہا کیا اللہ اس سے کہیں بڑھ کر مہربان ہے جتنا ماں اپنے بچے پر ہوتی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں اللہ اس سے بھی بڑھ کر مہربان
ہے۔ عورت نے کہا: ماں تو کبھی اپنے بچوں کو آگ میں پھینکنا گوارا نہیں کرتی۔ رحمت دو عالم نے سر جھکا لیا اور پھر یقین بھری آواز میں ارشاد فرمایا: اللہ ہر گز کسی کو عذاب میں نہیں ڈالے گا سوائے ان لوگوں کے جو سرکشی اور تکبر میں اللہ کا انکار ہی کردیں۔
ایک دفعہ آپ ﷺ نے فرمایا ’’میری اور اس شخص کی مثال بالکل ایسے ہے جیسے کسی کے پاس ایک اونٹنی تھی جو رسی تڑوا کر بھاگ کھڑی ہوئی لوگوں نے اسے زبردستی پکڑنا چاہا وہ اور بھی سرکش ہوگئی اور قابو میں نہ آئی اس کا مالک آگے بڑھا اور کہا پیچھے ہٹ جاؤ میں اسے پکڑنے کی ترکیب خوب اچھی طرح جانتا ہوں وہ سامنے کی جانب سے ہاتھ میں کچھ گھاس لئے آگے بڑھا اونٹنی کو پیار سے چمکارا وہ قریب آئی گھاس منہ میں لے کر بیٹھ گئی اس نے اونٹنی پر کجاوہ باندھا اور سوار ہوکر اطمینان سے رخصت ہوگیا۔
محسن انسانیت ﷺ دعوت دین میں اس بات کا ضرور لحاظ رکھا کرتے تھے کہ مخاطب میں نفرت اور بیزاری کے جذبات پیدا نہ ہوں بلکہ وہ دعوت کو اپنی چیز سمجھ کر قبول کرے۔
فتح مکہ کے دوسرے دن نبی رحمت ﷺ کعبہ کا طواف کررہے تھے کہ آپ ﷺ کی محویت کا عالم دیکھ کر فضالہ ابن عمیر کے دل میں آقائے دو جہاں ﷺ کا کام تمام کرنے کا خیال پیدا ہوا وہ برے ارادے سے حضور ﷺ کی جانب بڑھا جب قریب ہوا تو آنحضرت ﷺ اس کی جانب متوجہ ہوئے اور پوچھا ’’کیا فضالہ آ رہا ہے‘‘ اس نے کہا جی ہاں میں فضالہ ہوں حضور ﷺ نے پوچھا بتاؤ کس ارادے سے آئے ہو اس نے کہا کوئی خاص ارادہ نہیں بس اللہ اللہ کررہا ہوں آپ ﷺ اس کا جواب سن کر مسکرائے اور فرمایا تم تو کسی اور ہی ارادے سے آئے تھے وہ ذرا چونکا آپ ﷺ نے محبت و شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا۔ فضالہ اپنے رب سے معافی مانگو اور آپ ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ اس کے سینے کے اوپر رکھ دیا۔فضالہ کا کہنا ہے کہ حضور ﷺ کے ہاتھ نے میرے اندر سکون اور سرور کی ایک عجیب کیفیت پیدا کردی۔ میں جس شخص کی جان لینے آیا تھا اب دنیا میں اس سے زیادہ محبوب کوئی اور نہ تھا۔ میں تھوڑی دیر ٹکٹکی باندھے انہیں دیکھتا رہا جس سے میری روح کو مزید تازگی اور فرحت ملی۔
سفر ہجرت میں سو اونٹوں کے لالچ میں سراقہ بن جعشم حضور ﷺ کا تعاقب کرتے کرتے قریب پہنچ گیا جب آقا ﷺ کی نظر اس پر پڑی تو دعا کی یا اللہ ہمیں اس کے شر سے محفوظ فرما ادھر آپ ﷺ نے دعا کی ادھر سراقہ کے گھوڑے کے پاؤں زمین میں دھنس گئے اور وہ نیچے گر گیا وہ سمجھ گیا کہ اللہ نے اپنے نبی ﷺ کی خصوصی حفاظت کا بندوبست کیا ہوا ہے ، اس نے معذرت کرتے ہوئے آپ ﷺ سے جان کی امان طلب کی آپ ﷺ نے معاف فرما دیا۔ اس نے وعدہ کیا کہ تعاقب میں آنے والے ہر شخص کو واپس کردوں گا۔ جب وہ پلٹنے لگا تو آنحضور ﷺ نے فرمایا: رکو! سراقہ اس وقت تمہاری شان کا عالم کیا ہوگا جب بادشاہ کسریٰ کے کنگن تمہارے ہاتھ میں پہنائے جائیں گے۔کچھ عرصے بعد سراقہ حاضر خدمت ہوکر مسلمان ہوگئے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ایران فتح ہوا اور کسریٰ کے زیورات اور نواردات آپ کو پیش کیے گئے تو آپ نے سراقہ رضی اللہ عنہ کو بلاکر سونے کی کنگن انہیں پہنا دیئے۔یہ دعوت دین کا وہ طریقہ کار ہے جو اللہ کے رسول حضور نبی اکرم ﷺ نے ہمارے لیے بطور نمونہ دیا۔
اگر ہم آئندہ آنے والی نسلوں کو دین منتقل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں حضور ﷺ کے اُس دعوت کو اپنانا ہوگا۔
سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کا آفاقی دعوت کا پیغامقران و سنت کی دعوت لے کر اٹھو اور پوری دنیا پر چھا جاؤاسلامی تحریک ۔ علم، عمل اور دعوت علمی تحریک کو عمل کی دنیا میں ڈھالنے کے لیے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے مَرْجَعِ خلائق کا ماڈل متعارف کرایا جو علم اور عمل کا منبع ہو جو علم اور عمل کے ساتھ دعوت کا کام موئثر انداز میں کر سکنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔جہاں جہاں بھی تعلیم یافتہ اور صاحبِ فکر لوگ موجود ہیں، ان کی اکثریت متاثر اور اِن افکار کی قائل ہوچکی ہے۔خیالات اور اخلاق میں انقلاب (عمل):اب دوسرا کام جو ہمارے سامنے ہے اور فی الحقیقت بہت بڑا کام ہے، وہ علم عمل کر زریعے عام لوگوں کے خیالات تبدیل کرنا اور ان کے اندر اسلامی فکر اور اسلامی نظام کے بنیادی تصورات کو راسخ کرنا ہے۔ ان کے اندر اخلاقی انقلاب برپا کرنا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک بڑا مشکل کام ہے، لیکن یہ کام ہمیں بہرحال کرنا ہے۔آپ کا اپنا معیارِ اخلاق درست ہونا چاہیے۔یہ کام آپ صرف اسی صورت میں انجام دے سکتے ہیں، جب کہ آپ کے اپنے اخلاق اُس سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں جو اس نظام کا تقاضا ہے۔ جب آپ اسلام کی طرف دعوت دینے کے لیے اُٹھیں گے تو یہ لوگ دیکھیں گے کہ ہمیں یہ دعوت دینے والے خود کیسے ہیں۔ اگر آپ کے اخلاق اور سیرت و کردار میں کوئی خرابی ہوئی یا آپ کے اندر ایسے لوگ پائے گئے، جو مناصب کے خواہش مند اور ان کے لیے حریص ہوں، یا آپ کے اندر ایسے لوگ موجود ہوئے، جو کسی درجے میں بھی خلاف ورزی کرنے والے ہوں، تو اس صورت میں آپ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔اس لیے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیجئے کہ اسلامی انقلاب کے لیے جدوجہد کرنے کے مخصوص تقاضے ہیں۔ اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد کرتے وقت آپ کو جن چیزوں کو خاص طور پر پیش نظر رکھنا ہو گا وہ یہ ہیں کہ آپ کے اخلاق نہایت بلند ہوں۔ آپ کی زندگی پوری طرح اسلام کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہو۔ آپ کے اندر نظمِ جماعت کی کاملِ اطاعت پائی جاتی ہو۔ آپ جماعت کے دستور کی پوری طرح پابندی کرنے والے ہوں، اور اس کے ساتھ ساتھ آپ عوام الناس کے اندر پھیل کر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے کے لیے ہر لحظہ کوشاں ہوں، اور چاہے یہ کام آپ کو ۵۰سال بھی کرنا پڑے لیکن آپ لگن کے ساتھ اسے کرتے چلے جانے کا مصمم ارادہ رکھتے ہوں، تو کوئی طاقت اس ملک کو اسلامی ملک بننے سے نہیں روک سکے گی۔ (۲۱مارچ ۱۹۷۴ء کے اجتماعِ ارکان سے خطاب، بحوالہ تحریکی شعور، نعیم صدیقی، ص ۲۹۔ ۳۱،۳۵)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button