عالمی ماڈرنائزیشن،امن و خوشحالی۔۔۔!
(تحریر:غلام مصطفی)
”سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں،غم ایک ہیں۔“کے تحت پاکستان اور چین آگے بڑھ رہے ہیں۔عالمی سطح پر ترقی کے چیلنجوں کامقابلہ کرنے کے لیے بنی نوع انسان کی اجتماعی ترقی ضرور ی ہے۔ انسانیت کی ترقی وفلاح دنیا کی مختلف تہذیبوں کے مابین اتحاد واتفاق میں مضمر ہے۔تمام بڑی طاقتو ں کو باہمی اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے پرامن بقائے باہمی اور مشترکہ ترقی کی تکمیل کے لیے ترقی پذیر ممالک کو اپنے ساتھ شامل کرنا ہوگا جس طرح چین کررہاہے۔ عالمی سطح پر بڑی اور مضبوط معیشتوں کے حامل ممالک کو ترقی کے ثمرات ان تمام ممالک کیساتھ شیئر کرنے چاہئیں جہاں غربت اور افلاس نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔دنیا پر بالادستی قائم کرنے کی بجائے بڑی طاقتوں کو چھوٹے ممالک سے انصاف کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بین الاقوامی قوانین کے دوہرے معیار کو ختم کیاجائے اور معاشرے میں یکساں طور پر قانون کو لاگو کیا جاسکے۔سب کو یہ بات یادرکھنی چاہیے کہ دنیا میں انصاف قائم کئے بغیر امن قائم کرنا ممکن نہیں۔چین میں منعقدہ تیسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چینی صدر شی جن پنگ نے کہاتھا کہ بیلٹ اینڈ روڈ فورم کے تحت کلین اینڈ گرین اکانومی کو ترجیح دی گئی، بیلٹ اینڈ روڈ کے تحت ترقی پذیر ملکوں کے لیے نئی اقتصادی راہداریاں قائم کی جائیں گی، سی پیک کے ذریعے خطے کے ممالک کے باہمی رابطوں کو فروغ حاصل ہوگااور انفرا اسٹرکچر بہتر ہوگا، سلک روڈ کا بنیادی مقصد امن اور تعاون کو فروغ دینا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ باہمی تعاون سے خطے کے علاوہ دیگر ممالک کے عوام کو بھی فائدہ ہو گا،انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ عالمی ماڈرنائزیشن امن اور خوش حالی کے لیے ہونی چاہیے۔
یہ بات حقیقت ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ کے ذریعے نہ صرف خطے میں بلکہ پوری دنیا کی تعمیر وترقی میں مدد ملے گی اور خطے کے تمام ممالک کو اس فائدہ اٹھانے کے بہترین مواقع میسر آئیں گے۔ بیلٹ اینڈ روڈ کے ذریعے چین اپنے دائرہ کار کو وسیع کر رہا ہے۔ چین 140 ممالک اور دنیا کے مختلف علاقوں کے لیے اہم تجارتی شراکت دار بن چکا ہے، چینی صدر نے زبردست مثال دیتے ہوئے کہا کہ: جب آپ کسی کو پھول دیتے ہیں تو خوشبو آپ کے ہاتھوں میں بھی رہتی ہے۔ روشن مستقبل کے لیے اجتماعی چیلنجز کا مل کر مقابلہ کرنا ہو گا۔چینی صدر کا کہنا تھاکہ بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں تعاون کے لیے چین 8 نکاتی تجاویز پیش کر رہا ہے، چین ڈیجیٹل ٹریڈ ایکسپو کا ہر سال انعقاد کرے گا، اس فورم سے تجارت اور مواصلات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔چینی صدر شی جن پنگ نے کہاہے کہ وہ عالمی سطح پر کسی بھی بلاک کاحصہ نہیں بننا چاہتے ہیں اور نہ ہی کسی بلاک کی سیاست ان کا انتخاب ہے اور کسی بھی ملک کی جانب سے یکطرفہ پابندیوں کے بھی خلاف ہیں جبکہ روسی صدر کاکہناہے کہ روس اور چین پائیدار ترقی کے حصول کے لیے کام کر رہے ہیں۔
پاکستان کی ترقی اور سلامتی سیاستدانوں کی ترجیح ہونا چاہیے۔ قومی سلامتی اور سی پیک پاکستان کی ترقی کی بنیاد بن چکے ہیں لہٰذا سی پیک (اقتصادی راہداری) جیسے انقلابی منصوبوں پر تنقید کرنا کسی بھی محب وطن پاکستانی کو زیب نہیں دیتا صرف تنقید برائے اصلاح کرنی چاہیے تاکہ ان منصوبوں میں شفافیات پیدا ہو سکے۔اس کے ساتھ ساتھ چیک اینڈ بیلنس کانظام بھی قائم ہوناچاہیے تاکہ منصوبہ مکمل ہونے سے پہلے ہی متنازع ہوکر بند نہ کرنا پڑے۔ لہٰذا تمام سیاسی وعسکری قیادت کو مل بیٹھ کر ملکی مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے سیاسی مفادات اور سیاسی دکان چمکانے کے لیے ملک میں جاری منصوبوں اور مستقبل کے بڑے منصوبوں پر قومی اتفاق رائے کا پیدا ہونا انتہائی ضروری ہے تاکہ آئندہ آنے والی کوئی بھی حکومت ان منصوبوں کو روک نہ سکیں اور دیگر منصوبوں پر تنقید کرنے سے بھی گریز کرناچاہیے جوکہ قومی معیشت کی بحالی کا سبب بنتے ہیں امید ہے تمام سیاسی وعسکری قیادت باہمی اتفاق رائے سے تمام ترقیاتی منصوبوں کو اپنے وقت مقررہ پر پایہ تکمیل کو پہنچنے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کریں گے۔یہ بات ذہین نشین رکھنی چاہیے کہ کوئی بھی ملک آ ج کے ترقیاتی یافتہ دور میں اپنی معیشت کو مضبوط بنائے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا، معیشت کی مضبوطی ہی کسی بھی ملک کی اصل پاور بن چکی ہے۔ فوجی اور عسکری برتری کی اہمیت اپنی جگہ پر ہے لیکن معیشت سب سے زیادہ اہمیت اختیار کرگئی ہے۔ معیشت کی مضبوطی کے بغیر قومی سلامتی کو یقینی نہیں بنایاجاسکتاہے۔ چین نے اپنی ترقی کی بنیاد پر دنیا کو ترقی کے نئے مواقع دیئے ہیں۔ 2023کے پہلے چھ ماہ کے دوران چین کی معاشی گروتھ5.5فیصد رہی جو کہ دنیا کی بڑی معیشتوں میں سب سے اوپر ہے۔ پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے چین نے چھ اہم بھی معاہدے کئے ہیں۔ پاک چین دوستی ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہری ہے۔ چین پاکستان میں سی پیک منصوبے پر اب تک 26 ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے۔ پاکستان کی ترقی میں چین اپنا ہر ممکن تعاون فراہم کررہاہے،ہماری آہنی دوستی ہے یہی وجہ ہے کہ چین پاکستان کو علاقائی اور بین الاقوامی سفارتکاری میں سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ چین اور پاکستان سی پیک منصوبے کی تعمیر کے لیے دوستی، تعاون،ا سٹرٹیجک ہم آہنگی اور گہرے مضبوط تعلقات کے پرچم ہمیشہ بلند رکھیں گے۔
بنی نوع انسان کی ترقی وخوشحالی کے لیے مضبوط معیشت بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ جنگوں کی تباہ کاریوں نے ہمیشہ سنگین انسانی المیہ کو جنم دیاہے۔ جس کے باعث انسانی زندگی کے تصورات مدھم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، باہمی اتحاد واتفاق ہی ایک پرامن اور مضبوط معاشرے کی تشکیل کا باعث بن سکتے ہیں، آج کی گلوبلائزڈ دنیا میں امن کی اہمیت اور مشترکہ ترقی کا شعور بیدار ہونے کے باوجود کچھ ممالک انسانی قدروں کو پامال کررہے ہیں، دنیا کے چند طاقت ور ممالک انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کررہے ہیں، عجیب اتفاق ہے کہ بنی نوع انسان کی فلاح کے دعویدار ہی انسانیت پر ہر قسم کے مظالم ڈھارہے ہیں اور انسانیت کی تذلیل کررہے ہیں اور پھراس پر شرمندہ ہونے کی بجائے بڑی ٹھاٹھ کے ساتھ دنیا کی تقدیر پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، جو شرمناک عمل ہے جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انصاف اور مساوات، ہم آہنگ بقائے باہمی، تنوع اور باہمی اتحاد و تعاون ہی انسانوں کی ترقی اور یکجہتی کا باعث بن سکتاہے۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ ذرا سوچئے!