ماحولیات کے بڑھتے مسائل اور سرکاری بے حسی
ملیحہ سید
پاکستان میں ماحولیاتی مسائل میں فضائی، آبی آلودگی، شور کی آلودگی، موسمیاتی تبدیلی، کیڑے مار ادویات کا غلط استعمال، مٹی کا کٹاؤ، قدرتی آفات، صحرائی اور سیلاب شامل ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیاں اور گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پاکستان میں لاکھوں زندگیاں کو شدید ترین خطرات لاحق ہیں۔ ان ماحولیاتی مسائل کی بڑی وجوہات کاربن کا اخراج، آبادی میں اضافہ اور جنگلات کی کٹائی ہیں۔اگرچہ کچھ این جی اوز اور سرکاری محکموں نے ماحولیاتی انحطاط کو روکنے کے لیے اقدامات کیے ہیں، لیکن پاکستان کے ماحولیاتی مسائل اب بھی برقرار ہیں۔ نومبر2021 میں دنیا بھر سے سفارت کار و رہنماؤں نے ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے اور پیرس معاہدے و یو این فریم ورک کنونشن برائے ماحولیاتی تبدیلیوں کے اہداف کی جانب سفرمیں تیزی لانے کے لیے کوپ 27 سمٹ کے تحت ملاقات کی۔ اس اجلاس کا کلیدی اور ماحولیاتی تبدیلی پر بحث کا عمومی نکتہ گرین ہاؤس گیس (جی ایچ جی) جو کہ عالمی درجہ حرارت میں مسلسل اضافے کے لیے ذمہ دار ہے، اس کے اخراج کی روک تھام اور اس میں کمی تھا۔ پاکستان نے اگرچہ سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز یعنی ایس ڈی جیز کے تحت برسہابرس کے دوران اٹھائے گئے ماحولیاتی اقدامات کے نتیجے میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔ پاکستان گلوبل وارمنگ میں معمولی حصہ دار ہے لیکن امکان ہے کہ اس کا کاربن اخراج 2030 تک 300 فیصد تک بڑھ جائے گا۔ مزید براں مئی 2021 کی ماحولیاتی خطرات سے دوچار ممالک کی فہرست میں پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کے سب سے زیادہ خطرات سے دوچار 191 ممالک میں 18 ویں نمبر پر تھا۔ اس صدی کے اختتام تک پاکستان کے اوسط درجہ حرارت میں بھی دنیا کے اوسط 2.7 ڈگری سیلسیس کے مقابلے میں نمایاں زیادہ اضافہ متوقع ہے جو کہ پاکستان کی معیشت اور معاشرے کے لیے خطرہ ہے۔
پاکستان ماحولیاتی تحفظ کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے اب تک جن بین الاقوامی معاہدوں میں شامل ہیں اور جن الاقوامی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں، ان میں یو این فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج، اوزون کو ختم کرنے والے مادوں پر مونٹریال پروٹوکول، حیاتیاتی تنوع پر بیسل کنونشن،صحرا بندی کا مقابلہ کرنے کا بین الاقوامی کنونشن،ماحولیاتی تحفظ ایکٹ، یہ ایکٹ بنیادی طور پر ماحولیات کو متاثر کرنے والے معاملات کے انتظام اور ماحولیاتی اثرات کی تشخیص اور خطرناک معاملات سے نمٹنے کے لیے انتظامات کرتا ہے۔ یہ ایکٹ ماحولیاتی جرائم کی بھی تعریف کرتا ہے اور ان کے لیے سزائیں تجویز کرتا ہے۔ اس کے علاؤہ پاکستان کے عالمی میتھین عہد پر بھی دستخط ہے، جو کہ 2030 تک عالمی سطح پر میتھین کے اخراج کو کم از کم 30 فیصد تک کم کرنے کا ایک رضاکارانہ عہد ہے، جو 2050 تک 0.2°C سے زیادہ درجہ حرارت کو ختم کر سکتا ہے۔ پاکستان کا صاف فضائی منصوبہ مختلف طریقوں سے قائم کرتا ہے جو ملک اپنے میتھین کے اخراج میں کمی کو بڑھا سکتا ہے، جس میں تیل اور گیس کے شعبے میں رساو کا پتہ لگانا اور مرمت کرنا، زرعی شعبے میں کھاد کا بہتر انتظام، اور فضلہ کے بہتر انتظام شامل ہیں۔
پاکستان کی قومی تحفظ کی حکمت عملی (این سی ایس) پائیدار ترقی کے لیے حوصلہ افزائی، قدرتی وسائل کے تحفظ، اور وسائل کے استعمال اور انتظام میں کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے بنائی گئی بنیادی دستاویز ہے۔ پاکستان کی قومی موسمیاتی تبدیلی کی پالیسی (NCCP) 2021 کے بنیادی مقاصد کے مطابق ماحولیات کے چیلنجوں سے مناسب طریقے سے نمٹ کر پائیدار اقتصادی ترقی کو آگے بڑھانا۔موسمیاتی تبدیلی کی پالیسی کو دیگر بین متعلقہ قومی پالیسیوں کے ساتھ مربوط کرنا۔ ایس ڈی پی آئی جیسے ادارے جس طرح عوامی شعور و بیداری کے لیے کام کر رہے ہیں اور ریاستی اور سرکاری سطح پر بیٹھے ہوئے اہلکاروں کی جاہلیت کا بھی مقابلہ کر رہے وہ قابل ستائش ہے۔ معظم بھٹی صاحب نے بڑی خوبصورت بات کی کہ جب ہم متعلقہ اداروں کے افسران سے بات کرتے ہیں تو ایک ہمارے سوالات کے بعد ایک اوپر سے ایک سوال آتا ہے کہ ان سب میں آپ کا کیا مقصد ہے یعنی بطور شہری میں یہ حق نہیں رکھتا کہ مجھے صاف اور شفاف فضا میں سانس لینے کا موقع ملے، صاف پانی ملے اور میں طبی عمر جی سکوں۔ پاکستان کی انیس سو ستر میں آنکھ کھولنے والی جنریشن نے پہلی بار 1989 میں پاکستان میں جمہوری حکومت قائم کی اور اس وقت کے پرائم منسٹر کے شوہر وزیر ماحولیات بنے تو ہم نے پہلی بار اپنے تعلیمی اداروں میں یہ بات سنی کہ ماحولیاتی آلودگی بھی کوئی مسئلہ ہے اور اس کو فکس کرنا ہے۔ ہم میں سے بہت سارے لوگ جو اس مسئلے کا شعور رکھتے ہیں اور بولنے کی ہمت بھی انہوں نے اس حوالے سے کام شروع کر دیا۔ ملک کے معروف ماہر ماحولیات ڈاکٹر شفقت منیر نے آج سے بیس سال پہلے ایک کالم میں پاکستان میں پانی کی کمی کی نشاندھی کی تھی کہ آئندہ سالوں میں پاکستان کو یہ مسئلہ پیش آئے گا مگر سرکاری اور عوامی سطح پر ان کا مذاق اڑایا گیا۔انہوں نے واضح کر دیا تھا کہ پاکستان بہت جلد پانی کی بہت بڑی قلت کا شکار ہونے والا ہے اور ہماری حکومتیں ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہیں نہ ڈیم بنانے کی توفیق ہو رہی ہے، نہ ہی واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس اور نہ ہی کوئی ریگولیٹری کمیٹی جو اس بات کا تعین کر سکے کہ زیر زمین پانی کی مقدار کس حد تک کم ہو چکی ہے۔
عالمی اداروں کی شائع کردہ رپورٹس کے مطابق 2025 تک پاکستان کے بہت سارے علاقوں سے پانی غائب یا کم ہو چکا ہو گا اور اگر جلد از جلد مؤثر اقدامات نہ کئے گئے تو اس مسئلے پر قابو پانا شاید ناممکن بھی ہو جائے۔ واش واچ اور گنائزیشن کی شائع کردہ رپورٹ کے لگ بھگ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ لوگوں کے پاس گندا پانی پینے کے سوا اور کوئی چارا ہی نہیں، پر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ جیسے زیادہ تر حکومتوں کبوتر کی مانند آنکھیں بند کئے رکھیں کیونکہ وہ اس بات پہ اکتفاء کرنا چاہتی ہیں کہ سب اچھا ہے جبکہ عالمی اداروں کی رپورٹس کچھ اور ہی روداد بیان کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان 100 میں سے صرف 10 گلاس پانی محفوظ کر پاتا ہے جبکہ دوسرے ممالک 100 میں سے 40 گلاس پانی کے محفوظ کر رہے ہیں اور اگر ہم صرف 10 سے16 گلاس اور پانی محفوظ کرنے کی صلاحیت پیدا کر لیں تو خاطر خواہ مثبت فرق پیدا ہو سکتا ہے جوکہ فی الحال بہت ناممکن سا عمل لگ رہا۔آپ صرف لاہور کو دیکھیں تو لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح سالانہ 1 میٹر نیچے جا رہی ہے اور متعلقہ حکام اس سے نمٹنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کی فی کس سالانہ پانی کی دستیابی 2009 میں 1500 کیوبک میٹر سے کم ہو کر 2021 میں 1017 کیوبک میٹر رہ گئی ہے۔بظاہر تو پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات میں کمی کی بین الاقوامی کوششوں میں حصہ ڈالنے کی اپنی ساری ذمہ داریوں سے اچھی طرح واقف ہے اور اسی کی وجہ سے ملک کی عوام میں اس شعور میں اضافہ ہو رہا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی قومی سلامتی کا معاملہ ہے جو زراعت، صنعت، اقتصادی ترقی، معاشرے اور جنسی تحفظ کے لیے خطرناک ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے سامنے پاکستان کی کمزوری، ان اثرات میں کمی کے لیے قومی سطح کی کوششوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے متعدد منصوبے اور اہداف پہلے سے موجود ہیں۔ اس کے باوجود پیش رفت انتہائی سست ہے جس کی وجہ حکومتی اہلکاروں کا کردار ہے، زمہ داری اور توجہ کا فقدان ہے۔