آج کے کالم

علم، عمل اور دعوت دین

تحریر: قدسیہ رشید

علم نور وہدایت ہے جبکہ جہالت تاریکی اور گمراہی ہے۔ علم ایمان کے ساتھ دنیا اور آخرت میں رفعت وبلندی ہے اور عمل ہی علم کا ثمرہ ہے اور یہی علم کی بنیاد ہے۔ لہذا داعی کے لیے ضروری ہے کہ جو جانے اس پر عمل کرے، ورنہ علم اس کے لیے باعث وبال اور باعث حسرت ہوگا۔ عالم جو اپنے علم پر عمل نہیں کرتا اس موم بتی کی طرح ہے جو لوگوں کو روشنی دیتی اور خود جل کر اپنا وجود ختم کرلیتی ہے ۔اسلام دین علم ہے ۔ وہ پہلی بات ہے جس کا حکم اللہ نے اپنے رسول کو دیتے ہوئے فرمایا :
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ١ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ٢ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ٣ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ٤ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ) (العلق:1 – 5)“پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو بستہ خون سے پیدا کیا۔ پڑھ تیرا رب بڑے کرم والا ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا۔ جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ ه نہیں جانتا تھا۔
امام بخاری نے فرمایا کہ: ’’العلم قبل القول والعمل‘‘’’ قول وعمل سے پہلے علم ہے۔‘‘کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ (محمد: 19) ، (اے نبی) آپ یقین کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔
علم اور اصحاب علم کی فضیلت:اسلام نے ہمیں طلب علم کی ترغیب دی ہے اور یہ اس وجہ سے کہ انسان علم کے بغیر اللہ کی کما حقہ عبادت کر ہی نہیں سکتا ہے۔اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ (فاطر: 28)’’اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔‘‘اور فرمایا:( هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ (الزمر: 9)آپ کہہ دیجئے، کیا علم والے اور بے علم برابر ہو سکتے ہیں؟ یقیناً نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہوں۔’’اور اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ علم حاصل کریں، فرمایا: وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا(طه: 114)اور آپ کہیے کہ میرے رب مجھے مزید علم عطا کر ۔اور فرمایا: يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آَمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ (المجادلة: 11)اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ہیں اور جو علم دیئے گئے ہیں درجے بلند کر دےگا۔
”حضرت کثیر بن قیس سے روایت ہے۔ میں دمشق کی مسجد میں حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ۔ اتنے میں ایک شخص نے ان کے پاس آکر عرض کیا اے ابو درداء میں آپ کے پاس مدینہ سے آیا ہوں ۔ میں کسی اور ضرورت کے تحت نہیں۔ بلکہ اس حدیث کے لیے آیا ہوں، جس کے بارے میں مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ ہاں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: جو طلب علم کے لیے کسی راستہ پر چلے گا تو اللہ اس کی وجہ سے جنت کی راہ پر اسے چلائے گا۔ اور فرشتے طالب علم کی رضا و خوشنودی کے لیے اپنے پر پھیلا دیتے ہیں، اور عالم کےلیے زمین و آسمان کی ساری مخلو قات استغفار کرتی ہیں۔ اور پانی کے اندر مچھلیاں بھی مغفرت طلب کرتی ہیں ۔ اور عابد پر عالم کی وہی فضیلت ہے جو چودہویں رات کے چاند کی سارے ستاروں پر ہے۔ اور علماء نبیوں کے وارث ہیں۔ انبیاء دینار و درہم کے وارث کسی کو نہیں بناتے، وہ علم کے وارث بنا تے ہیں ۔ جس نے علم کو پا لیا ، اس نے پورا حصہ پالیا ۔ (أبوداؤد)اس حدیث کے اندر علم اور اصحاب علم کی فضیلت کی واضح دلیل ہے کہ علم جنت کی راہوں میں سے ایک راستہ ہے، فرشتے طالب علم کے لیے اپنے پر پھیلا دیتے ہیں ۔ اور اس کی مغفرت کے لیے زمین و آسمان کی ساری مخلوقات، حتی کہ سمندر کے اندر کی مچھلیاں بھی دعا کرتی ہیں۔اے اللہ کے بندو!مذکورہ فضیلت سے بھی بڑھ کر کوئی اور فضیلت ہو سکتی ہے؟دین کی سمجھ ملنی، بندے کے ساتھ اللہ کے ارادہ ٔ خیر کی علامت ہے ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:من یرد اللہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین، واللہ المعطی وأنا القاسم، ولا تزال ھذہ الأمۃ ظاھرین علی من خالفھم، حتی یأتی أمر اللہ وھم ظاھرین (متفق علیہ)،اللہ جس کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے، اس کو دین کی سمجھ عطا کرتا ہے۔ اللہ دینے والا ہے اور میں تقسیم کرنے والا ہوں۔ یہ امت ہمیشہ اپنے مخالفین پر بالآخر غالب ہی رہے گی، یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ آ جائے اور وہ غالب ہی رہیں گے۔
علم کی فضیلت ومقام ہی کی وجہ سے، علم میں رشک کرنا جائز ہے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:رشک دو ہی باتوں میں موزوں ہے: ایک وہ شخص جس کو اللہ نے مال عطا کیا تو وہ اسے راہ حق میں خرچ کرتا ہے اور دوسرا وہ شخص جس کو اللہ نے علم و حکمت سے نوازا تو وہ اس کی روشنی میں فیصلہ کرتا اور اسے سکھا تا ہے۔ (بخاری)
فضیلت علم کے سلسلے میں علماء کے اقوال :امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: طلب العلم أفضل من صلوۃ النافلۃ۔ طلب علم نفل نماز سے زیادہ بہتر ہے۔لیکن یہ اس کے بارے میں ہے، جو علم سے استفادہ کرتا ہے۔اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ مدینہ میں تھے تو ان کے پاس گورنر مکہ نافع بن حارث خزاعی آئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ آپ نے مکہ میں کسی کو اپنا جانشین بنایا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ: میں نے اپنے غلام کو جانشین بنا دیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ غلام کو جانشین بنایا؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ حافظ قرآن اور عالم فرائض ہے۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا ہے:

جواب دیں

Back to top button