افغان پناہ گزین

دانیال فیصل
روس نے افغانستان پر جارحیت کی تو لاکھوں پناہ گزینوں نے پاکستان اور ایران کی طرف ہجرت کی۔ ایران نے اپنی حکمت عملی کے تحت افغان پناہ گزینوں کو کیمپوں تک محدود رکھا، اس کے برعکس ہمارے ہاں لاکھوں پناہ گزینوں کو چند سال کیمپوں میں رکھنے کے بعد مملکت میں آزادانہ نقل و حرکت کی آزادی دے دی گئی۔ افغان مہاجرین نے اس سہولت کا خوب فائدہ اٹھایا اور وقت گزرنے کے ساتھ پناہ گزینوں کی ہمارے ہا ں تعداد میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا۔ افغانستان میں حالات معمول پر آنے کے باوجود افغان پناہ گزینوں کی آمدورفت بدستور جاری ہے۔ اس وقت پاکستان میں لاکھوں افغان پناہ گزیں ایسے ہیں جن کے پاس نہ تو پاکستان کا شناختی کار ڈ ہے اور نہ یو این ایچ آر کا پی او آر کارڈ بلکہ وہ غیر قانونی قیام پذیر ہونے کے باوجود ملک میں کاروبار کر رہے ہیں۔ اس وقت مملکت میں سات لاکھ ایسے مہاجرین قیام پذیر ہیں جنہوں نے اپنی رجسٹریشن کی تجدید نہیں کرائی، اس کے باوجود وہ یہاں قیام پذیر ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2006ء سے اب تک35لاکھ سے زائد افغان پناہ گزینوں نے رجسٹریشن کرائی ہے جبکہ سات لاکھ ایسے ہیں جو غیر قانونی طور پر قیام پذیر ہیں۔ تعجب ہے حکومت کو اتنے برس گزرنے کے بعد غیر قانونی پناہ گزینوں کو وطن واپس کرنے کا خیال کیسے آیا ہے۔ حیرت تو اس پر ہے سرحد پر باڑ لگانے کے باوجود غیرقانونی پناہ گزینوں کی آمدورفت جاری ہے۔
افغانستان ایک لینڈ مارک ملک ہے جسے سمندر تک رسائی نہیں ہے جس کی وجہ سے اسے پاکستان پر دارومدار کرنا پڑتا ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ افغانستان،پاکستان کوstragically excess دے تو کسی بھی ملک کے لیے پاکستان پر میزائل حملہ کرنا آسان نہیں ہو گا۔ بین الاقوامی قوانین کی رو سے جس ملک کے ساتھ سمندر نہ ہو تو ایسے ملک کوFree Excess دینا پڑتی ہے۔ اس وقت افغانستان بھارت سے اپنا درآمدی سامان ایرانی بندرگاہ چاہ بہار سے میر جاوا لے جاتا ہے اور وہاں سے ہرات لے جاتا ہے جس پر افغانستان کا کثیر سرمایہ خرچ ہو رہا ہے جب کہ پاکستان سے افغانستان کو سامان منگوانے کے کئی روٹس ہیں۔ پہلا روٹ کراچی سے پشاور اور جلال آباد ہے۔ دوسرا راستہ کراچی سے چمن اور پھر قندھار ہے۔ تیسرا راستہ جس سے صرف خشک سامان بھیجا جا سکتا ہے وہ کوئٹہ سے بادینی اور افغانستان ہے۔ جب سے پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ شروع ہوا ہے بھارت کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی ہے۔ منصوبے کی تکمیل سے پاکستان وسطی ایشیائی ریاستوں کے علاوہ دیگر کئی ملکوں سے تجارت کر کے کثیر زرمبادلہ کما سکے گا لہٰذا بلوچستان میں آئے روز بم دھماکے اسی سلسلے کی کڑی ہیں تاکہ کسی طریقہ سے پاک چین راہداری کے منصوبے کو ناکام بنایا جا سکے۔ حیرت ہے افغانستان خراب معاشی حالات کے باوجود چار جہاز خرید چکا ہے جبکہ ہمارا ملک آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے۔ بھارت کی ہمیشہ کوشش رہی ہے وہ افغانستان سے زیادہ سے زیادہ تجارت کرے۔ اس وقت بھارت اور امریکہ کی نظریں چین کے علاقے لداخ اور پاکستان میں گوادر پر ہیں۔
طالبان حکومت سے قبل بھارت نے افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی جس میں سڑکوں کی تعمیر اور کارخانے شامل ہیں۔ اسی دور میں بھارت نے پاکستان کی سرحد کے قریب کابل، قندھار اور جلال آباد میں قونصلر خانے کھولے۔ دراصل بھارت افغانستان میں چین، روس، پاکستان اور ایران کی موجودگی کے باوجود اپنا پورا عمل دخل رکھنے کا خواہاں ہے، کابل میں بھارت کا قونصلر خانہ کھولنا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ بھارت نے افغانستان میں طالبان حکومت سے راہ و رسم بڑھانے کی خاطر کئی ٹن گندم اور ادویات بھیجی ہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے ہمارا ملک وسطی ایشیائی ملکوں اور افغانستان سے جڑا ہوا ہے لہٰذا دونوں ملک لازم و ملزوم ہیں۔ چند سال پہلے گوادر سے نوکنڈی تک سڑک کی تعمیر اور بلوچستان کو ہرات اور اشک آباد سے ملانے کی تجویز تھی جس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے۔ اس منصوبے پر عمل درآمد ہو جاتا تو ہمارا ملک وسطی ایشیائی ریاستوں سے آسانی سے تجارت کر سکتا تھا ماسوائے ڈیورنڈ لائن پاکستان اور افغانستان کے مابین کوئی تنازعہ نہیں ہے۔
افغانستان کے معاشی حالات میں بہتری لانے کے لیے یورپی ملکوں کو افغانستان کا سرمایہ واپس کرنے میں تامل نہیں کرنا چاہئے۔ افغانستان کو غیر مشروط طور پر گوادر کے راستے تجارت کی اجازت دینی چاہئے۔ یہ بھی حقیقت ہے افغان طالبان اور تحریک طالبان نے باہم مل کر امریکی افواج کا مقابلہ کرکے انہیں واپسی پر مجبور کیا۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت افغانستان پاکستان کیLiabilityہے لہٰذا افغانستان کے معاشی حالات میں بہتری لانے کے لیے خطے کے تمام ملکوں کو افغانستان کی مالی مدد کرنے چاہیے۔ افغانستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارے ملک کو بھی بہت سی مشکلات کا سامنا ہے ایک طرف لاکھوں افغان پناہ گزینون کا بوجھ اور دوسری طرف ہمیں تحریک طالبان پاکستان سے نبردآزما ہونا پڑ رہا ہے۔
حکومت پاکستان کی وزارت داخلہ نے غیر رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کو گرفتار کرکے انہیں واپس کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔دراصل پاکستان نے پناہ گزینوں کو کیمپوں سے نکلنے کی اجازت دے کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔ اگر وہ کیمپوں تک محدود رہتے تو ان کے اعدادوشمار کا پتہ چلانے میں بہت آسانی تھی۔ اس وقت دیکھا جائے تو حکومت پاکستان کو بھی افغان مہاجرین کی صحیح تعداد بارے پورا علم نہیں ہے۔ افغان مہاجرین کے قیام سے ہمارے ہاں معاشی مسائل کے علاوہ اور بھی بہت سے مسائل نے جنم لیا ہے۔ پاکستان میں ہونے والے بم دھماکوں میں افغان مہاجرین ملوث رہے ہیں۔ لاہور اور فیصل آباد میں ہونے والے بم دھماکوں کے مجرمان دو عشروں سے زیادہ عرصہ جیلوں میں رہنے کے بعد رہا ہونے کے باوجود پاکستان میں قیام کئے ہوئے ہیں۔ دونوں ملکوں کے مفادات اپنی جگہ لیکن غیر قانونی پناہ گزینوں کو فوری طور پر ان کے وطن واپس بھیجنے کی اشد ضرورت ہے ورنہ روز بروز غیر قانونی افغانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا جس سے ہمارے ملک کے معاشی حالات مزید خراب ہو ں گے۔یہی نہیں افغانی جو پاکستانیوں کے وسائل میں برابر کے شراکت دار بنے ہوئے ہیں ان کی وطن واپسی سے بھی نظام یعنی سٹرکچر پر بڑا فرق پڑے گا۔ لہٰذا اس فیصلے پر من و عن اور فوری عمل کرانے کی ضرورت ہے اور مستقبل میں ایسی غلطی سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ دنیا میں کہیں ایسی مثال نہیں ملتی کہ کوئی غیر ملکی نسل در نسل غیر قانونی طور پر دوسرے ملک میں مقیم رہے، کاروبار کرے اور جائیدادیں خریدے اور وہاں کے شہریوں کے وسائل میں برابر کا حصہ دار بنے۔