قصہ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
عاصمہ حسن
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
سیاسی و معاشی حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ نہ کچھ کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی کچھ کر سکتے ہیں، بس چپ چاپ مہنگائی کی کڑوی گولی نگلنے پر مجبور ہیں جو حلق میں پھنس کر رہ گئی ہے، اب حالت یہ ہے کہ سانس لینا بھی دشوار ہو گیا ہے۔
ٹیکس پر ٹیکس ادا کر رہے ہیں لیکن اتنی جسارت نہیں رکھتے کہ پوچھ سکیں کہ میری حق حلال کی کمائی جو خون پسینے اور قربانیوں سے رنگی ہوئی ہے، کہاں استعمال ہو رہی ہے۔
اس غریب ملک کے حکمران ”اپنی لاچار اور غریب عوام کو اُن کی بنیادی ضروریات میں الجھا کر“ اِن کو بلوں اور پٹرول کے ہوشربا اضافے کے بوجھ تلے دفنا کر خود اپنی قبر کو بھول گئے ہیں۔
ایک عام آدمی کے منہ کا نوالہ چھین کر کیسے وزراء کی نسلیں سنواری جا رہی ہیں۔ ان کا علاج دیار غیر میں اور میرے ملک کے باشندے اپنے ہی وطن کے معالجوں کی فیس ادا کرنے کے قابل نہیں، قطار میں پرچی بنوا کر اپنی باری آنے سے پہلے ہی اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں۔ یہ ان حکمرانوں کا ملک ہے جہاں دوائیاں بھی جعلی ملتی ہیں۔
آخر ہمارے ساتھ یہ ناروا سلوک کیوں کیا جا رہا ہے وہ بھی اُس قوم پر جس نے صدیوں سے صرف جی حضوری کرنا ہی سیکھا ہے۔ آخر ان کا خون کس کے سر پر ہو گا؟
آخر یہ حکمران اپنے بہن بھائیوں ان کی اولادوں کو روتا، بھوک و افلاس سے بلکتا،ننگ دھڑنگ دیکھ کر اپنے محلوں جیسے گھروں میں کیسے سکون کی نیند سو سکتے ہیں۔
وطن ِعزیز جس کی بنیادوں میں ہی خون ہے جسے آباؤ اجداد نے اپنی جان و مال، عزت کی قربانیوں اور تاریک رات کے بعد نئی چمکتی صبح کی امید لیے اس زمین پر سجدہ کیا اور اِس کی مٹی کو آنکھوں پر مل کر چوما تھا۔
آج اُسی سرزمین کی عورت کو مجبور ہو کر اپنا جسم بیچ کر اپنے بچوں کے منہ میں نوالا ڈالنا پڑ رہا ہے۔ اِس ظلم کا ذمہ دار کون ہے؟ وہ جو یہ ظلم برداشت کرنے پر مجبور ہے یا وہ جو پالیسیاں بناتے ہیں، بیرون ممالک سے اِس ملک کی عوام کے نام پر جھولی پھیلا کر قرض مانگتے ہیں اور اس پر اپنی خواہشات کے مینار کھڑے کرتے ہیں، اور اپنی پیاس مِٹاتے ہیں۔کھلی آنکھوں سے حالت زار دیکھتے ہیں جھوٹے وعدے کرتے ہیں اور مکاری کی ہر حد پار کر جاتے ہیں۔
میرے ملک کے حکمرانو! ظلم اتنا کرو جتنا کہ کل اپنے مالکِ کائنات کے سامنے برداشت کر سکو۔ آخر تمہیں کس نے حق دیا ہے کہ میرے کھیتوں کھلیانوں کو بنجر کر دو اس زمین کو قبرستان بنا دو۔اِس ملک کے باسیوں کے لیے دو گز کی زمین تنگ کر دو، سانس لینا دوبھر کر دو، اے وقتِ حکمراں قصہ درد اللہ کے حضور سنانے پر مجبور نہ کر