ویلکم میاں نوازشریف

پاکستان مسلم لیگ نون کے قائد میاں محمد نوازشریف نے مینار پاکستان کے وسیع و عریض پنڈال میں خطاب کرتے ہوئے قوم کو مستقبل کے لیے لائحہ عمل پیش کردیا ہے۔ چار سال کے بعد وطن واپسی اور قوم سے خطاب میں میاں محمد نوازشریف نے زیرک شخصیت کے طور پر قومی مسائل اُجاگر کیے جن میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام پر انہوں نے مفصل گفتگو کی اور اِس کے لیے اپنا لائحہ عمل بھی پیش کیا، بلاشبہ میاں نوازشریف کا شمار وطن عزیز کے اُن انتہائی سنجیدہ اور ذمہ دار سیاست دانوں میں ہوتا ہے جو ہر طرح کے حالات کو قابوکرنا چاہتے ہیں، ماضی میں وہ ہر قدم پر ایک نئی مشکل کا سامنا کرچکے ہیں، ان کے خاندان کے افراد بھی زیر عتاب رہے، کبھی جلاوطنی اور کبھی پابند سلال، لیکن میاں نوازشریف نے استقامت کے ساتھ حالات پر قابو پایا اور معاملہ فہمی کا مظاہرہ کرکے سب کو ساتھ لیکر چلے، یہاں تک کہ انہوں نے اپنی سیاسی حریف شہید بینظیر بھٹو کے ساتھ میثاق جمہوریت بھی کیا، اس میں قطعی دو رائے نہیں ان خوبیوں والی شخصیت ہی قائدانہ صلاحیت رکھتی ہے اور میاں نوازشریف اپنے تجربے اور فہم و فراست کے ساتھ ساتھ سیاسی معاملہ فہمی پر بھی مضبوط گرفت رکھتے ہیں، ماضی میں جب بھی وہ برسراقتدار آئے، انہوں نے وفاق کا نظم سنبھالا جبکہ میاں محمد شہبازشریف نے سب سے بڑے صوبے کی خدمت کواپنا شعار رکھا، لیکن پچھلے پانچ سال میں جو کچھ ہوا، وہ کسی سے اوجھل نہیں ہے مگراِس ”سب کچھ“ کے نتیجے میں عوام کا مہنگائی اور بے روزگاری نے کچومر نکال دیا ہے، میاں نوازشریف کی وطن واپسی کی تاریخ کے اعلان کے بعد عوامی سروے میں لوگوں کی کثیر تعداد نے انہیں مسیحا اور مسائل سے نجات دہندہ قرار دیا اورامید ظاہر کی کہ میاں نوازشریف واپس آکر عوام کو مہنگائی اور بے روزگاری سے نجات دلائیں گے، شہر ایک بار پھر روشن ہوجائیں گے، انڈسٹری کا پہیہ پھر رواں ہوگا اور روزگار کے نئے نئے مواقع پیدا ہوں گے، چونکہ ابھی عام انتخابات بھی قریب آرہے ہیں اگر عوام اپنے ووٹ کے ذریعے مسلم لیگ نون کو حکومت بنانے کا موقعہ دیتے ہیں تو پھر مسلم لیگ نون کی قیادت کے لیے لازم ہوگا کہ وہ عوام کو ریلیف دے کیونکہ اب میاں نوازشریف وطن واپس پہنچ چکے ہیں، وہ اندرون و بیرون ملک سرمایہ کاری لانے کا فن خوب جانتے ہیں، سرمایہ کار اُن پر بھرپوراعتماد کرتے ہیں، پڑوسی ممالک خصوصاً عرب ممالک کے ساتھ پاکستان، خصوصاً شریف خاندان پر اعتماد کرتے ہیں کیونکہ جب بھی مسلم لیگ نون برسر اقتدار آئی، انہوں نے بیرونی سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے اپنے تعلقات استعمال کیے۔ جیسا کہ میاں محمد نوازشریف نے سیاسی استحکام پر زور دیا اور عزم ظاہر کیا کہ وہ سیاسی استحکام کے لیے بھرپور کوشش کریں گے، ہم سمجھتے ہیں کہ سیاسی استحکام اور معاشی بحران یہ دونوں فوری توجہ طلب معاملات ہیں، عوام توقع رکھتے ہیں کہ میاں نوازشریف اقتدار کے بغیر بھی معاشی معاملات کو اپنے فہم و فراست کے ساتھ سلجھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، صنعت کار اور تاجر برادری بھی اُن سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں پس اب لمحہ بہ لمحہ تمام شعبہ ہائے زندگی بالخصوص عامۃ الناس ریلیف کے لیے منتظر رہیں گے چونکہ عوام کی اُمیدیں میاں نوازشریف سے وابستہ ہیں لہٰذا میاں نوازشریف کو ماضی کی طرح عوام کے زخموں پر مرہم رکھنا پڑے گا۔ ایک روز قبل بھی ہم نے ان ہی دونوں مسائل کو بڑے مسائل گردانا تھا اور بلاشبہ عامۃ الناس کی اکثریت ان ہی مسائل کی وجہ سے شدید مشکلات میں ہے۔ میاں نوازشریف سے عوام کی اُمیدیں وابستہ ہیں کیونکہ پچھلے پانچ سال میں پاکستانی عوام نے نت نئے بحران دیکھے اور ان کو جھیلا، لہٰذا بہت ضروری ہے کہ میاں نوازشریف عوام کی داد رسی کریں، اس وقت کوئی خاص طبقہ متاثر نہیں بلکہ کم و بیش تمام شعبے ہی توجہ اور ریلیف مانگتے ہیں، بجلی، پٹرول، گیس کی قیمتیں آسمان کو چھُو رہی ہیں، اجناس کی قیمتیں کئی گنا بڑھ چکی ہیں، کاروباری سرگرمیاں مخدوش ہونے کی وجہ سے بے روزگاری کا عفریت منہ پھاڑے ہوئے ہے، ایک طرف مہنگائی ہے تو دوسری طرف بے روزگاری، تصور کرنا چاہیے کہ جس گھر کا فرد بے روزگار ہو یعنی آمدن کا ذریعہ کوئی نہ ہو اس کو تاریخ کی بلند ترین مہنگائی کا سامناکرنا پڑے تو وہ کیا کرے گا۔ میاں نوازشریف کی عوام دوست اور تاجر دوست پالیسیوں کی وجہ سے ہی کاروباری طبقہ اور غربت کی لکیر سے نیچے لوگ اُن پر مکمل اعتمادکرتے ہیں اور اُنہیں اپنا مسیحا سمجھتے ہیں، لہٰذا پچھلے سولہ ماہ میں اصلاحات کے نام پر جو کچھ ہویا اور پچھلے ساڑھے تین سال میں جیسی بھی حکومت رہی، عوام کی پریشانی اورمسائل میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ جہاں تک سیاسی استحکام کی بات ہے تو میاں نواز شریف ملک کے تین بار وزیراعظم منتخب ہوچکے ہیں، وہ تجربہ کار سیاست دان ہیں، ماسوائے چند ایک سیاسی مخالفین کے سبھی جماعتیں اور ان کی قیادت میاں نوازشریف پر اعتماد کرتی ہیں، لہٰذا بہت ضروری ہوگا کہ موجودہ سیاسی ہیجان کو ختم کرنے کے لیے میاں نوازشریف آل پارٹیز کانفرنس کی طرز پر ایک بڑی بیٹھک بلائیں جس میں سیاسی بے یقینی کو ختم کرنے کے لیے میثاق جمہوریت جیسا معاہدہ کیا جائے اور پھر اِس کی پوری طرح پاس داری کی جائے۔ یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ ہمارے پڑوسی ممالک دیکھتے ہی دیکھتے چاند تک پہنچ گئے ہیں وہ بڑی معاشی طاقتیں بن چکے ہیں لیکن ہم ابھی تک سیاسی ہیجان کا شکار ہوکر تنزلی کی طرف جارہے ہیں، شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے بعد اب ساری ذمہ داری میاں نوازشریف کے کندھوں پر ہے کہ وہ اپنی زیرک نظری سے اِس عدم استحکام کو کتنا جلد ختم کرتے ہیں۔