آج کے کالمایم یوسف بھٹی

سلطان صلاح الدین ایوبی اور یروشلم کی تاریخ

جوزف علی

کہتے ہیں کہ سچی تاریخ 100سال گزر جانے کے بعد لکھی جاتی ہے جب حالات و واقعات کے اصل کردار فوت ہو چکے ہوتے ہیں۔ بیت المقدس 583ہجری بمطابق 1187ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں صلیبیوں کی شکست کے ساتھ فتح ہوا، جب صلاح الدین ایوبی نے جنگ حطین میں کامیابی حاصل کر کے یروشلم کو فتح کیا۔ تب اہل یورپ صلاح الدین ایوبی کو’’خون کا پیاسہ‘‘ اور’’شیطان‘‘ کہتے تھے۔ لیکن 20ویں اور 21ویں صدی میں یہی سلطان صلاح الدین ایوبی مسلمانوں کے لیے’’ہیرو‘‘ کا درجہ اختیار کر گیا۔ یہ 2اکتوبر 1187ء کی تاریخ اور جمعہ کا دن تھا جب دنیا کے ’’ مذہبی دارالحکومت‘‘ اور سب سے’’متنازع‘‘سمجھے جانے والے شہر یروشلم میں قریباً 90سال کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں ایک بار پھر مسلمانوں کی حکمرانی کا دور شروع ہوا تھا یعنی ٹھیک 833برس قبل جب 2اکتوبر کی رات نبی مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم مسجد اقصی سے معراج پر تشریف لے گئے تھے۔
دراصل یروشلم جنگ کے نتیجے میں نہیں بلکہ ایک محاصرے کے بعد فتح ہوا تھا جب شہر کے مسیحی منتظمین اور صلاح الدین ایوبی کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا تھا جس کے بعد شہر کو مسلمانوں کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ شہر کا ہر باسی معاہدے میں طے کی گئی رقم ادا کر کے آزادی سے کسی دوسرے مسیحی علاقے میں جا سکتا تھا۔ 2اکتوبر کے دن اور آنے والے کئی ہفتوں تک شہر سے لوگ رقم ادا کر کے جاتے رہے۔ جو لوگ رقم نہیں ادا کر سکتے تھے وہ مدد مانگتے رہے اور ان میں سے ہزاروں کی مدد خود سلطان صلاح الدین ایوبی اور ان کے بھائی سیف الدین نے کی تھی۔
اسی بناء پر مؤرخ جانتھن فلپس نے سلطان صلاح الدین کی زندگی پر اپنی کتاب ’’دی لائف اینڈ لیجنڈ آف سلطان سلاڈن‘‘ (صلاح الدین) میں لکھا کہ یروشلم کے مسیحی شہریوں کو کچھ ایسا دیکھنے کو نہیں ملا جس کی وہ توقع کر رہے تھے ۔ فلپس لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے محاصرے کے دوران یروشلم کی خواتین نے اپنے بال کٹوا دیئے تھے کہ وہ فاتح فوج کے سپاہیوں کی نظروں میں نہ آئیں لیکن یروشلم پر قبضہ مکمل کرنے کا مرحلہ طے کرنے کے بعد سلطان صلاح الدین نے خاص طور پر عورتوں کے معاملے میں رحم دلی کا مظاہرہ کیا جس کے لیے وہ پہلے ہی مشہور تھے۔
یوں یروشلم کی فتح کے موقع پر سلطان صلاح الدین ایوبی نے ان تمام اندازوں کو غلط ثابت کیا جو شاید ماضی میں اس شہر میں ہونے والے ظالمانا واقعات کی بنیاد پر قائم کیئے گئے تھے اور یہی وجہ ہے کہ اسی یورپ میں جہاں انھیں اپنے زمانے میںخون کا پیاسا اور شیطان کہا گیا تھا، وہاں 20ویں اور 21ویں صدی میں وہ ہیرو کا درجہ پا گیا۔ کیونکہ سنہ 1099 میں یروشلم کی فتح کے بعد صلیبیوں کے یروشلم میں داخلے کے وقت یہاں پر ہر طرف لاشیں تھیں اور مرد، عورتیں اور بچے کوئی بھی فاتحین کی تلواروں سے محفوظ نہیں تھا۔ سنہ 1187 میں یروشلم کی فتح سے تیسری صلیبی جنگ میں اس کے کامیاب دفاع کا باب قریباً پانچ برسوں پر محیط تھا، وہ صلیبی جنگ جس میں مغربی یورپ کے بڑے بڑے بادشاہ خود شریک ہوئے اور یورپ بھر سے لوگوں کو جنگ میں شرکت پر مائل کرنے کے لیے سلطان کی بدترین سے بدترین شبیہ پیش کی لیکن جنگ کے لیے آنے والے نہ صرف یروشلم حاصل کرنے میں ناکام رہے بلکہ سلطان کی ایک مختلف تصویر لے کر واپس گئے جو تمام تر پراپیگنڈے کے باوجود آج تک قائم ہے۔ مثال کے طور پر 2020ء کے بعد سے ناروے میں سیلاڈن ڈے (یوم صلاح الدین) متواتر منایا جا رہا ہے۔
آج یورپ میں اس شخص کو جس نے 800سال پہلے مغرب کو شکست دے کر یروشلم کو فتح کیا تھا ایک مثالی کردار کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ اس کے پیش نظر برطانیہ کی رائل نیوی نے پہلی عالمی جنگ کے دوران ایک جنگی جہاز کو ایچ ایم ایس سیلاڈن کا نام دیا اور پھر سنہ 1959 اور 1994 کے درمیان برطانوی فوج نے سیلاڈن کے نام سے ایک بکتر بند گاڑی بھی بنائی جو انگلستان کے نورفوک ٹینک میوزیم میں آج بھی موجود ہے۔
یہ وہی برطانیہ ہے جہاں سے انگلینڈ کے بادشاہ رچرڈ شیر دل نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف تیسری صلیبی جنگ میں مسیحی فوج کی قیادت کی تھی۔
جانتھن فلپس لکھتے ہیں کہ’’میں کہوں گا کہ تاریخ میں کوئی اور ایسی مثال تلاش کرنا ناممکن ہے جس میں ایک شخص نے کسی قوم اور مذہب کے ماننے والوں کو اتنی چوٹ پہنچائی ہو اور وہ پھر بھی ان میں مقبول ہو گیا ہو‘‘۔
آج اسرائیل حماس کے حملے کو بہانا بنا کر فلسطینیوں کو جس طرح خاک و خون میں نہلا رہا ہے اور امریکہ سمیت پورا یورپ اسرائیل کو مظلوم ثابت کرنے کے لیے اس کی پشت پر کھڑا ہے کل جب مورخ سچی تاریخ لکھے گا تو وہ اسی اسرائیل کو خون کا پیاسا اور شیطان جبکہ فلسطینی عوام کو مظلوم لکھے گا، جس کو اہل یورپ اور اہل امریکہ بھی ماننے پر مجبور ہونگے۔

جواب دیں

Back to top button