حکیم سعید کی خدمات پر نظر
ساجدہ صدیق
عظیم انسان روز روز پیدا نہیں ہوتے۔مادر گیتی ان کو روز روز جنم نہیں دیتی۔تاریخ کو ایسے شخص کے لئے مدتوں محوِ منتظر رہنا پڑتا ہے۔تب جاکر کوئی ایسا شخص پیدا ہوتا ہے جو تاریخ کے معیار پر پورا اُترتا ہے اور تاریخ اس شخص پر رشک کرتی ہے اور ہمیشہ کے لئے اپنے اندر جذب کر لیتی ہے۔ محمد سعید 9 جنوری 1920 کو دہلی میں پیدا ہوئے، وہیں طب کی تعلیم حاصل کی۔ 1948 میں اپنا گھر، دواخانہ اور کاروبار چھوڑ کر پاکستان آئے۔ آرام باغ کے ایک چھوٹے سے کمرے میں مطب قائم کیا۔ جس مکان کو اپنا مسکن بنایا تھا، مرتے دم تک اسی میں مقیم رہے۔ نصف صدی میں جو کچھ کمایا، خلقِ خدا کے لئے وقف کردیا۔ اپنے نام کوئی اثاثہ نہیں رکھا۔ نصف کروڑ کے قریب مریضوں کا طبی معائنہ کیا، کسی سے کوئی پیسہ نہیں لیا۔ حکیم حافظ محمد سعید 1993 سے 1996 تک سندھ کے گورنر رہے اس دوران بھی وہ باقاعدگی سے اپنے مریضوں کو دیکھتے تھے، آخری مریض کو دیکھے بغیر نہیں جاتے تھے۔ وہ جلدی سوتے اور جلدی جاگتے تھے۔ جب انھیں گورنر بنایا گیا اور اس کی اطلاع دینے کے لئے ان کے گھر فون کیا گیا تو وہ سورہے تھے، حکام کو بتایا گیا کہ حکیم صاحب سورہے ہیں، صبح تہجد میں اٹھیں گے، اس سے قبل بات ممکن نہیں ہے۔ ان کے تعلیم سے لگائو کا یہ حال تھا کہ اپنی گورنری کے مختصر ترین دور میں 4 یونیورسٹیز کی منظوری دی۔ بارہ روپے سے ہمدرد کےادارے کی بنیاد رکھی، بیوی کا زیور بیچ کر اس کی ترقی و ترویج کی اور اسے وقف برائے پاکستان کردیا۔ حکیم صاحب ایک درویش صفت انسان اور پکے پاکستانی تھے۔ طب اور تعلیم ان کے بنیادی ہدف تھے۔دو سو سے زائد کتابیں اور ریسرچ پیپرز لکھے، شام ہمدرد
کے ذریعے آگہی پھیلائی۔ ہمدرد رسائل و جرائد کے ذریعے فکر و عمل کی دعوت دی۔ہمدرد فائونڈیشن شاید پاکستان کا واحد ادارہ ہے جہاں ادارے کے سربراہ سے لے کر چپڑاسی تک تمام خط و کتابت، دفتری اور انتظامی امور اردو میں سر انجام دیتے ہیں۔حکیم صاحب ہر خط کا جواب خود تحریر کرتے تھے۔جہاں دوست، جواناں امروز، ہمدرد مجلسِ شوریٰ، بزمِ ہمدرد نونہال کے ذریعے علم و آگہی پھیلائی۔
کتابیں اور کتب خانے ان کی شناخت تھیں۔ مدینۃ الحکمت میں سب سے پہلے بیت الحکمت لائبریری تیار کرائی گئی جو پاکستان کی بڑی جدید اور سائنٹیفک لائبریری ہے۔حکیم صاحب کا ادنیٰ و اعلیٰ سے ایک جیسا رویہ تھا، انھیں ستارۂ امتیاز اور نشانِ امتیاز جیسے تمغوں سے بھی نوازا گیا لیکن ان تمغوں نے ان کی نہیں بلکہ حکیم صاحب کی شخصیت نے انھیں توقیر و افتخار بخشا۔ہمدرد پاکستان اور ہمدرد یونیورسٹی ان کے قائم کردہ اہم ادارے ہیں جو آج تک پاکستان کی خدمت میں پیش پیش ہیں۔ حکیم محمد سعید بچوں سے بے انتہا پیار کرتے تھے۔ بچوں کے ساتھ سٹول پر بیٹھ جایا کرتے تھے۔ بچوںکے لئے 1953 میں ہمدرد نونہال جیسا معلوماتی رسالہ جاری کیا جو اب تک جاری ہے۔ نصف صدی سے زیادہ اس کےمدیر رہنے والے مسعود احمد برکاتی صاحب نے بتایا ایک بار ہمدرد کی انتظامی میٹنگ جاری تھی۔ اکائونٹینٹ کے پاس ایک موٹی سی فائل رکھی تھی۔ حکیم صاحب نے اسے مخاطب کیا اور پوچھا، اس فائل میں کیا ہے۔ اکاؤنٹینٹ نے فائل حکیم صاحب کو پیش کی اور بولا: ہم نے ہمدرد نونہال کی آمدنی اور خرچ کا دس سالہ گوشوارہ بنایا ہے ، اس کے سٹاف کی تن خواہیں اور دیگر اخراجات کروڑ سے تجاوز کرچکے ہیں جبکہ آمدنی صرف چند لاکھ ہے۔ یہ رسالہ مسلسل خسارے میں ہے اس لئے ہماری تجویز ہے کہ اسے بند کردیا جائے، حکیم صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ اُبھری اور اکائونٹینٹ کو مخاطب کرکے بولے: اس رسالے سے جو منافع ہوتا ہے اسے سمجھنا آپ کے بس کی بات نہیں۔ آگے چلئے۔ راوی:عقیل عباس جعفری
تراجم سمیت مختلف علمی و تحقیقی موضوعات پر کتابیں اور مجلے شائع کئے جاتے ہیں۔ 17اکتوبر 1998 کی صبح بھی وہ آرام باغ میں واقع اپنے مطب پہنچے ہی تھے کہ دہشت گردوں نے فائرنگ کرکے شہید کردیا۔ حکیم سعید کو انہی کی قائم کردہ ہمدردیونیورسٹی میں سپرد خاک کیا گیا۔ ایک بات بعد میں یاد آئی۔ ہمدرد نونہال میں قلمی دوستی کے لئے تعارف چھپتے تھے۔ جن بچوں نے اپنا مشغلہ ٹکٹ جمع کرنا لکھا ہوتا تھا، حکیم صاحب انہیں ذاتی خط لکھتے ، ٹکٹ جمع کرنے کے مشغلے کے فائدے بتاتے کہ ٹکٹوں سے یہ یہ معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ ساتھ ہی کچھ غیر ملکی ٹکٹوں کا تحفہ ہوتا۔ مجھے خود دوبار ان سے یہ تحفے ملے ۔ ہمدرد کے بچوں کے ٹانک کے ساتھ ایک کارڈ ہوتا تھا، جس پر بچے کے کوائف لکھ کر بھیجنا ہوتا تھا۔ پھر اس بچے کی ہر سالگرہ پر حکیم صاحب کا مبارک باد کا کارڈ ملتا رہتا تھا۔