سیاست دانوں کی تاحیات نااہلی ختم
سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کا فیصلہ سناتے ہوئے سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی ختم کر دی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مختصر فیصلہ خود پڑھ کر سنایاجو براہ راست نشر کیا گیا۔ تاحیات نااہلی سے متعلق یہ فیصلہ 1-6 کی اکثریت سے سنایا گیا، جسٹس یحییٰ آفریدی نےفیصلے سے اختلاف کیا، عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن ایکٹ کے تحت نا اہلی کی مدت 5 سال، آرٹیکل 62 ون ایف میں درج نہیں کہ کورٹ آف لاء کیا ہے، ایسا کوئی قانون نہیں جو واضح کرے کہ نااہلی کا طریقہ کار کیا ہوگا۔ ملک کے نامور وکلا نے اِس فیصلے کی تائید و توصیف کی ہے، سپریم کورٹ کے اِس فیصلے کے نتیجے میں میاں محمد نوازشریف اور جہانگیر ترین سمیت کئی وہ سیاست دان عام انتخابات میں حصہ لے سکیں گے جنہیں تاحیات نااہل قراردیا گیا ہے۔ اگرچہ اِس قانون سے فوری طور پر میاں محمد نوازشریف اور جہانگیرترین وغیرہ کو فائدہ پہنچا ہے جو اِس سے قبل عام انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے تھے، لیکن وسیع النظر میں کوئی بھی سیاست دان اِس کی زد میں آکر تاحیات نااہل قرار پاسکتا تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سیاسی قیادت کو آئین وقانون کا سہارا لیکرمخالف سیاست دانوں کے خلاف ایسے دائو پیچ لڑانے سے مکمل طور پر گریز کرنا چاہیے کیونکہ ہماری سیاست میں بہت ہی کم ایسی روایات ملتی ہیں جب سیاست دان ایک پیج پر اکٹھے ہوئے ہوں اور کسی معاملےپرمتفق ہوں۔ پھر اِدھر اُدھر منہ مارنے کی روش بھی ایسےہی گُل کھلاتی ہے اور کبھی خود پر بھی ایسا وقت آجاتا ہے بلکہ سیاسی تاریخ تو بھری پڑی ہے کہ سیاست دانوں نے اقتدار کے دوران مخالفین کو کچلنے کے لئے جو حربے استعمال کئے وہی سود سمیت اقتدار جانے کے بعد اُن کے آگے آئے اور انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بننا پڑا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم مہذب ممالک کی طرح اچھی جمہوری روایات کو اپناتے مگر ہم نے جمہوری عمل میں اپنے سیاسی انتقام اور کئی ایک خامیوں کی آمیزش کرلی ہے، یہی وجہ ہے کہ ملک و قوم کودرپیش مسائل سنگین سے سنگین تر ہوتے جارہے ہیں مگر سیاست دانوں کے آپس کے معاملات ہی ختم نہیں ہوتے جن کا واحد مقصد مخالف قیادت کو دباکر ختم کردینے کے سوا کچھ نہیں ہوا، چاہے اِس کے لئے غیر جمہوری طاقتوں اور حربوں کا ہی سہارا کیوں نہ لینا پڑے۔ کیا یہ آسان نہیں ہے کہ کوئی بھی حکمران جماعت اپنی تمام مخالف جماعتوں کی قیادت کے خلاف ریفرنسز اور ایف آئی آرز کے انبار لگاکر اُنہیں اُلجھا دے اور خود اپنے اقتدار کو طوالت دیتی رہے۔ بنگلہ دیش میں اِن دنوں سیاسی عدم استحکام عروج پرہے، اتوار کے روز بنگلہ دیش میں عام انتخابات ہوئے اورخالدہ ضیا بھاری اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں کیونکہ انہوں نے تمام مخالف سیاسی جماعتوں کی قیادت کو جیل میں ڈالا ہوا ہے، اِن کے کارکن جیلوں میں بند ہیں، لہٰذا خالی میدان میں ایک طرح سے وہ بلامقابلہ وزیراعظم منتخب ہوجائیں گی مگر بنگلہ دیش کی تمام حزب اختلاف کی جماعتوں نے اُن کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ تو ہے بنگلہ دیش کا معاملہ، لیکن کیا ہمارے یہاں ایسا نہیں ہوتا؟ کیا پتا اُنہوں نے بھی ہمارے سیاست دانوں سے یہی گُر سیکھا ہو کہ مخالفین کو جیل میں ڈال کر انتخابات لڑیں اور کامیابی حاصل کریں جیسا کہ خالدہ ضیاء نے کیا ہے۔ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں ہمارے یہاں کیا ہوا تھا؟ میاں محمد نوازشریف پر کیا کیا اور کس کس نوعیت کے الزامات لگے تھے اور مسلم لیگ نون کی قیادت کو کیسے جیلوں میں رکھا گیا تھا، اِس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ سیاسی قیادت کو یہ طرز بدلنا چاہیے، وگرنہ ملک میں کبھی سیاسی استحکام نہیں آئے گا، اور اِسی کے نتیجے میں معاشی اور معاشرتی عدم استحکام بھی گہرے سے گہرے ہوتے جائیں گے۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ سیاست دان ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں اور بھلے تنہائی میں ایسے کاموں اور حربوں سے گریز کا اعادہ کریں، مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے کی روش نہ تو پہلے قابل تحسین تھی، نہ اب ہے اور نہ ہی آئندہ ہوگی کیونکہ ایسے کاموں سے سیاسی عدم استحکام بڑھتا ہے، آئین میں ترامیم ملک و قوم کے مفاد میں ہونی چاہئیں نہ کہ اپنی بچت اور مخالفین کو کچلنے کے لئے، اور اگر کوئی غیر جمہوری طاقت ایسا کرتی ہے تو فوراً ایسے قوانین کو ختم کرنا چاہیے، سبھی کا مقصد ملک و قوم کی خدمت ہونا چاہیے ، یہ اپنی ذات سے باہر نکلنے کا وقت ہے، غلطیوں کو سدھارنے کا وقت ہے۔