آج کے کالمآصف رفیق

ہرجگہ مافیاز کا راج

آصف رفیق

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے درست کہا ہے کہ قوم کےساتھ مل کر ہر قسم کے مافیا کی سرکوبی کریں گے اور یہ بات درست ہے کہ اگر سیاستدان اور پوری پاکستانی قوم پاک فوج کےساتھ ملکر کام کریں تو وطن عزیز کو درپیش تمام مسائل سے نکالا جاسکتا ہے ہماری سیاسی قیادت کوکرپٹ اور جرائم پیشہ افراد اور مافیا کا ساتھ چھوڑنا ہوگا محض سیاسی برتری حاصل کرنے کیلئے جرائم پیشہ افراد کا استعمال ملک وقوم کے مفاد میں نہیں اور نہ ہی کوئی مہذب معاشرہ اس قسم کے اقدام کو قبول کرسکتاہے۔پاکستان میںمہنگائی اور بے روزگاری سمیت تمام مسائل کی ذمے دار نہ کوئی ایک پارٹی ہے اورنہ کوئی ایک شخص،بلکہ 24کروڑ عوام پاکستانی معاشی بدحالی اور سیاسی اور اخلاق عدم استحکام کے ذمے دار ہیں، جیسے ظلم کےخلاف خاموش رہنا بھی ظلم کے زمرے میں آتاہے اسی طرح مہنگائی اور بے روزگاری کے باوجود ووٹوں کے ذریعے اپنے اوپر نااہل اور مفاد پرست لوگوں کو مسلط کردینا بھی اپنے پیروں پرکلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔سیاستدانوں کا کام تو سیاست کرناہے جو وہ صحیح انداز میں نہیں کررہے لیکن عوام کا کام صرف بیانات سن کر، بڑے و بانگ دعوے کرنےوالوں سے متاثر ہونااور شخصیت پسندی کی وجہ سے انہیں ووٹ دینا نہیں ہوتابلکہ عوام کاکام اپنے لئے صحیح نمائندوں کا انتخاب کرناہوتاہے ان کی اہلیت جانچنا ہوتاہے لیکن وطن عزیز میں ایسا نہیں ہوتا یہاں شخصیت پسندی اور پارٹی کی فیور میں ووٹ کاسٹ کیا جاتا ہے جو غلط طریقے کار ہے، اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ عام انتخابات میں پرانی غلطیوں سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف وطن عزیز میں مہنگائی اور بے روزگاری کے ذمے دار وں میں بیورو کریسی، مافیاز،سمگلرز اور مختلف سیاسی و صنعتی شخصیا ت شامل ہیں، پاکستان میں مہنگائی اور بے روزگاری ایک سو چی سمجھی پلاننگ ملک کو معاشی طور پر مفلوج کرنے کی گھناؤنی سازش ہے۔ پاکستان میں مافیا چین سسٹم کے تحت کام کرتی ہے اور ان کی سرپرستی کرنےوالے رشوت اور کمیشن کے چکر وں میں 24کروڑ عوام کو بدترین مہنگائی اور بے روزگاری میں مبتلا کئے ہوئے ہیں۔ یہ مافیا ز کمال ہوشیاری سے عوام کی تمام تر توجہ ملک کو درپیش اصل مسائل سے ہٹاکر انہیں روزگار کی تلاش اور مہنگائی سے لڑنے پر لگا دیتے ہیں،غربت اور مفلسی سے دوچار غریب عوام میں اتنی ہمت ہی باقی نہیں رہتی کہ وہ اس فرسودہ اور ظلم وبربریت پرمبنی نظام کےخلاف آواز بلند کرسکیں، اس معاملے میں سیاسی جماعتوں کاکردار ہے بھی زیادہ مختلف نہیں ہے۔
مزید براں افسوس تو اس بات کا ہے کہ بعض سیاسی جماعتیں اس فرسودہ نظام کو درست کرنے کی کوشش نہیں کرتی کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ ان کا اقتدار اسی فرسودہ نظام کاہی کمال ہے ۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ پرانے ناکارہ اور مفاد پرست سسٹم میں رہتے ہوئے پاکستان میں مثبت تبدیلی نہیں آسکتی، کیونکہ بیورو کریسی کا اس معاملے میں بہت بڑا رول ہے، اس لئے وہ اپنے آپ کو فائدہ پہنچانے کیلئے نت نئے طریقے دریافت کرتی رہتی ہے اورعوام اور حکمرانوں کو بے قوف بنانے کے مختلف طریقہ رائج کرتی رہتی ہے۔ حکمرانوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے جو لوگ ملک، عوام اور اداروں سے مخلص ہی نہیں ہیں وہ دوسروں سے کیسے مخلص ہوسکتے ہیں؟ ملک میں سخت ترین احتسابی نظام رائج کرنے کی ضرورت ہے، قانون سب کیلئے برابر ہونا چاہیے، جب اوپر سے لیکر نیچے تک تمام لوگوں کیلئے یکساں تعلیم وتربیت اورروزگار کے مواقع میسر ہونگے تو حالات بہتر ہوجائیں گے ۔یوں سمجھ لیں کہ جب ایک ہی گھاٹ میں شیر اور بکری اکھٹے پانی پینا شروع کردینگے جبھی یہ ملک ترقی کرسکتاہے ورنہ موجودہ نظام میں رہتے ہوئے معاشی حالات بہتر ہونا مشکل ہیںکیونکہ جس طرز حکمرانی کو یہاں رائج کیا گیاہے وہ کوئی مسئلہ حل نہیں کرسکتی۔
ملک میں ڈالرمافیاکس طرح کام کررہاہے؟ سمگلرز کس طرح کام کررہے ہیں؟ لینڈ مافیا کس طرح کام کررہاہے؟بجلی اور گیس مافیا ؟سرکاری اداروں پر مافیا کا راج ہے، سرکاری زمینوں اور پارکوں مافیا قابض ہے،کراچی سے خیبر تک ہر سرکاری زمین پر مافیا قابض ہے،کون ہیں جو ایسے مافیا ز کی سرپرستی کررہے ہیں؟ پاکستان کی پوری 76سالہ تاریخ مختلف مافیاز کے گرد گھومتی ہے جس سے باہر نکلنے کیلئے نہ تو سیاسی جماعتیں کوشش کررہی ہیں اور ناہی وہ ادارے اس کے خلاف کارروائی کررہے جن کی ذمے داری ہے۔ ہمارا پورا عدالتی نظام ایک مخصوص دائرہ کار میں چل رہاہے، یہاں ایک عام آدمی کے کیس کافیصلہ ہوتے ہوتے کئی برس بیت جاتے ہیں لیکن بڑے لوگوں کے فیصلے رات12بجے عدالتیں کھول کر بھی کردیئے جاتے ہیں، یہ سب اس فرسودہ نظام کا ہی کمال ہے کہ یہاں مہنگائی، بے روزگاری، قتل غارت گری، چوری ڈکیتی‘ چھینا جھپٹی ودیگر مافیاز تو 24گھنٹے حرکت میں رہتے ہیں لیکن افسو س کہ سرکاری ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں ڈاکٹر ز جنہیں 24گھنٹے الرٹ رہنا چاہیے وہ 24گھنٹے حرکت میں نظرنہیں آتے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں کوئی ایک بھی سرکاری ادارہ یا محکمہ نہیں ہے جس پر عوام کو مکمل اعتماد ہو، ہر جگہ رشوت، سفارش، کرپشن، کمیشن نظر آتا ہے۔ یہاں میرٹ کی جگہ رشوت اور سفارش نے لی ہے۔ سرکاری و پرائیویٹ دونوں سطح پر حالات انتہائی ناقابل بیان ہیں۔تعلیمی ادار وں، صحت کے مراکز، کھیلوں کے میدان،ٹرانسپورٹ اور سڑکوںکا حال،بجلی، سوئی گیس کی حالت، پینے کے پانی اور گٹرنالوں کی حالت،پاکستان ریلوے، پی آئی اے، سٹیل ملز، کمپنیوں، فیکٹریوں،آفس، دکانوں، گوداموں، نادرا، محکمہ پاسپورٹ، پولیس اور ٹریفک پولیس، پٹرول، ڈیزل، ایل این جی سمیت تمام اشیائے خورونوش کے حالات دیکھ لیجئے۔ ان تمام محکموں،اداروں کو دیکھنے کے بعد یوں محسوس ہوتاہے ہم کسی ملک میں نہیں بلکہ کسی جیل یاپھر کسی طاقتور شخص یا ملک کی غلامی میں جی رہے ہوں، جہاں سانس بھی ان کی مرضی کے بغیر لینا ممکن نہیں، خدا کیلئے ان چیزوں پر غور کریں اور ایک محکمہ یا ادارہ ہی ایسا بنادیں جس کی مثال دی جاسکے کہ فلاں چیز یہاں بہت اچھی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button