آج کے کالمایم یوسف بھٹی

درباری سیاست

ایم یوسف بھٹی

 

آخری مغلیہ شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کو اردو شاعری کا بہت شوق تھا۔ ان سے پہلے کے بادشاہ بھی شاعری کے رسیا تھے جن کے ادوار میں ‘ملک الشعرا ایک شاہی خطاب تھا اور ایک عہدہ بھی، جو بادشاہوں کی طرف سے ان کے پسندیدہ شاعروں کو دیا جاتا تھا۔ ملک الشعرا کے لغوی معنی شاعروں کا بادشاہ کے ہیں۔
مثال کے طور پر جلال الدین محمد اکبر کے دربار سے ملک الشعرا کا خطاب فیضی کو ملا۔ طالب آملی نور الدین جہانگیر کے دربار کا اور کلیم کاشانی شاہجہاں کے دربار کا ملک الشعرا تھا۔ چونکہ بہادر شاہ ظفر خود بھی ایک مایا ناز شاعر تھے لہٰذا انہوں نے اپنے دربار کا ملک الشعرا کا خطاب اپنے پسندیدہ شاعر محمد ابراہیم ذوق کو دیا۔’’جھوٹ بر گردن راوی‘‘کہا جاتا ہے کہ بہادر شاہ ظفر کی شاعری اور غزلیں ذوق لکھا کرتے تھے۔
اس کے باوجود بہادر شاہ ظفر سے منسوب شاعری اور ان کی اکثر غزلوں سے حد درجہ اداسی، غم اور پژمردگی جھلکتی ہے جن میں سے ایک غزل کا مطلع ہے:
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
بہادر شاہ ظفر کی نگاہ دور نے اپنی مایوسی اور اداسی کو چھپانے کے لئے شاید ہمارے موجودہ سیاسی حالات کو بھی مدنظر رکھا تھا جہاں گزشتہ تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے درباری سیاست کا دور دورہ ہے اور جو بھی جماعت اور سیاست دان مقتدرہ کے پسندیدہ ٹھہرتے ہیں’’ملک السیاسعہ‘‘ کا تاج انہی کے سر پر رکھا جاتا ہے۔ حالیہ الیکشن کے نتائج جو بھی نکلیں اور شہنشاہی کا سہرا جن کے سر پر بھی سجایا جائے موجودہ سیاسی صورتحال کی نزاکت کے حوالے سے آئندہ انتخابی نتائج اور امکانی سیاسی صورتحال کی پیش گوئی کرنا انتہائی مشکل ہے۔ پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا جیسا سیاسی ماحول اب پیدا ہوا ہے۔ لگتا ایسا ہے کہ یہ مخدوش اور کشیدہ سیاسی صورتحال کی فضا تب تک قائم رہے گی جب تک پی ٹی آئی کو 8فروری کے الیکشن سے پہلے ریلیف دے کر برابری کی سطح پر پلیئنگ فیلڈ نہیں دیا جاتا۔
کچھ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ میاں محمد نواز شریف نے ابھی تک سیاسی مہم کا آغاز کیا ہے اور نہ ہی مینار پاکستان والے استقبالیہ جلسے کے علاوہ کوئی دھماکہ خیز سیاسی جلسہ کیا ہے:
الٹی ہی چال چلتے ہیں دیوانگان عشق
آنکھوں کو بند کرتے ہیں دیدار کے لئے
درون خانہ یہ بھی خبر گرم ہے کہ میاں صاحب نے ملک سے باہر جانے کی دو دفعہ کوشش کی مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اس بناء پر کچھ سیاسی بذلہ سنجوں کا یہ بھی خیال ہے کہ الیکشن کے دوران اور اس کے بعد عوام کے تصادم سے بچنے اور امن و امان کو قائم رکھنے کے لئے عمران خان کو جلد رہا کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ روز شاہ محمود قریشی کے کاغذات نامزدگی منظور کر لئے گئے اور عمران خان کی درخواست پر سماعت دم تحریر جاری ہے اور تحریک انصاف کے لئے بلے کا نشان بھی بحال ہونے کا امکان ہے، حالانکہ یہ معاملہ زمینی حقائق کے برعکس ہے۔
گو کہ عمران خان نے فوج کے خلاف زہر اُگلنے کی انتہا کئے رکھی اور بیرون و اندرون ملک پاک فوج کے خلاف نفرت پھیلائی، ماردھاڑ، گالی گلوچ اور سیاسی فسطائیت کو فروغ دیا مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ 9مئی کے ملک دشمن واقعات کے باوجود عوام میں عمران خان کی مقبولیت اور تحریک انصاف کا ووٹ بنک ہرگز کم نہیں ہوا بلکہ کچھ بڑھا ہی ہے۔ یوں سنہ 2024 بہت مشکل سال نظر آ رہا ہے کیونکہ بعض معاملات ابھی سے متنازعہ ہو گئے ہیں ان تنازعات میں وقت کے ساتھ اضافہ بھی ہو سکتا ہے جس کی کچھ مثالیں پولیس گردی، تحریک انصاف کے ورکروں کی پکڑ دھکڑ اور تحریک انصاف کے دعویٰ کے مطابق نوے فیصد امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی نامنظوری ہے۔
2018 کے سیاسی حالات و واقعات مختلف تھے تب عمران خان نے عوام کے سیاسی شعور میں اتنی ہلچل برپا نہیں کی تھی جتنا ان کی وزارت عظمیٰ سے رخصتی اور بعد میں ان کے سلاخوں کے پیچھے جانے سے عوام کے ذہنوں میں ایک خاموش طوفان پیدا ہوا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ سنہ 2018ء نہیں بلکہ 2024ء ہے۔ اب وقت اور حالات بہت تبدیل ہو چکے ہیں۔ یہ تاثر بھی درست نہیں کہ کسی سیاسی قوت کو اقتدار دلانے کے لئے کسی دوسری سیاسی قوت کو طاقت سے دیوار سے لگایا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں جنرل ضیاءالحق نے پیپلزپارٹی اور بھٹو خاندان کو طاقت سے ختم کرنے کی کوشش کی مگر جونہی بہاولپور کا حادثہ پیش آیا حالات و واقعات نے ثابت کر دیا کہ سیاست میں کسی سیاسی جماعت کو جتنا نیچے کی طرف دبایا جاتا ہے وہ سپرنگ کی مانند اتنا ہی دوبارہ اوپر کی جانب اچھلتی ہے۔ یہ تو الیکشن کے نتائج سے معلوم ہو گا کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ 2018 میں مسلم لیگ نون کے کچھ قائدین اور امیدواران کے خلاف بھی اس سے ملتے جلتے مقدمات تھے جو اس وقت پی ٹی آئی کے قائدین اور امیدواروں کے خلاف قائم کئے گئے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ مسلم لیگ نون نے فوجی تنصیبات پر حملے کئے تھے اور نہ ہی شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کی تھی جو کہ ایک کھلی دہشت گردی اور ریاست مخالف اقدامات ہیں۔ البتہ نون لیگ نے شہباز شریف کی قیادت میں سپریم کورٹ پر ضرور حملہ کیا تھا مگر الیکشن لڑنے کے لئے اسی شہباز شریف کے کاغذات منظور کر کے اسے’’گو اے ہیڈ‘‘دے دیا گیا ہے۔ کیا انصاف اور حکمرانی کرنے کا طریقہ اور آداب یہی ہیں؟ اگر اس معیار کے ساتھ برسراقتدار لیڈران کو میدان میں اترنا ہے تو اقتدار میں اترنے سے پہلے یا بعد میں ان کو حکمرانی کرنے اور گڈ گورننس دینے کے کچھ اصول و ضوابط ہی سیکھا دیئے جائیں۔ نون لیگ کے مقابلے میں تحریک انصاف کو دیکھا جائے تو اس کا دامن بھی صاف نہیں ہے۔ یہ دعویٰ کرنا تو بالکل غلط ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ ناانصافی کی جا رہی ہے یا اس جماعت کو طاقت کے زور پر زبردستی ختم کیا جا رہا ہے۔ بلکہ حیران کن سوال یہ ہے کہ اتنے سنگین الزامات اور مقدمات کے باوجود ابھی تک بلواہ کرنے والوں کو قانون کے مطابق سزائیں کیوں نہیں دی گئی ہیں؟
اس پس منظر میں تو خود نون لیگ شش و پنج کا شکار ہے کہ جتنا ریلیف پی ٹی آئی کو دیا جا رہا ہے اس کا کیا جواز ہے؟ اس کے باوجود پی ٹی آئی کے ساتھ زیادتی کا واویلا ایک بالکل عجیب منطق ہے کہ ایک چور اور دوسرا مچائے شور والی بات ہے۔ اس پر مستزاد مسلم لیگ نون، پیپلزپارٹی یا دیگر غیر مقبول سیاسی جماعتوں میں سے کسی جماعت کے پاس بھی ایسا کوئی معاشی پلان یا جادو کی چھڑی نہیں ہے کہ وہ برسر اقتدار آنے کے بعد ملک کے معاشی حالات کو یکسر بدل کر رکھ دے گی جس کی ایک مثال تحریک انصاف کی چھٹی کے بعد پی ڈی ایم کی متحدہ حکومت ہے جس کے آنے سے ملک کی معاشی ابتری پاتال میں پہنچ گئی تھی کہ مہنگائی کی چکی میں پسے ہوئے غریب لوگ آٹے کے ایک ایک تھیلے کی خاطر اپنی جانیں قربان کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔
اس وقت کوئی ایک بھی ایسی سیاسی جماعت موجود نہیں جو آئندہ انتخابات میں حصہ لینے جا رہی ہے جس کا بنیادی منشور و مقصود مہنگائی کا خاتمہ، روزگار کی فراہمی یا کاروباری مواقع پیدا کرنا ہو کہ جس سے آگے چل کر ملک میں خوشحالی آ جائے۔ اس وقت کی متحرک سیاسی جماعتوں کا ایک اولین مقصد صرف اور صرف درباری سیاست کر کے اقتدار کی کرسی تک پہنچنا ہے۔
ان سب سیاسی جماعتوں کو عوام بارہا آزما چکی ہے۔ آج کے اقتدار کے بھوکے ان تینوں جماعتوں کے بڑے سیاست دان اور الیکشن کے امیدوار حقیقتاً درباری سیاست دانوں کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ عوام نے پیپلزپارٹی اور نون لیگ کے ادوار دیکھے اور پھر پی ٹی آئی کا دور بھی دیکھ لیا۔ یہاں تک کہ پی ٹی آئی نے کرسی کے جاتے ہی ملک کے دفاعی اور قوم کے محافظ اداروں پر حملے کر کے اپنا اصل چہرہ بھی دکھا دیا۔
چلو مان لیتے ہیں کہ جمہوریت ہی دنیا کا بہترین نظام حکومت ہے اور عام انتخابات کروانا بھی لازم ہیں لیکن سوچنا چاہیے کہ ان جمہوری جماعتوں میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ تو جمہوری نہیں بلکہ وراثتی جماعتیں ہیں جن کی ہر دفعہ اصل منزل جمہوریت اور الیکشن کا ڈھونگ رچا کر اقتدار کی راہداریوں تک پہنچنا ہوتا ہے۔
بلاشبہ موجودہ جمہوریت اور جماعتیں نہ تو ملک میں کوئی مقام رکھتی ہیں اور نہ ہی ان کے پاس کوئی قابل عمل معاشی فارمولا ہے کہ ان میں سے کوئی جماعت برسراقتدار آ جائے تو ملک میں معاشی انقلاب آ جائے گا اور امن وامان کے حالات میں بھی بہتری قائم ہو جائے گی۔ اس وقت بھی چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر اور ان کے رفقاء جس طرح دن رات ملکی معیشت کی بہتری کے لئے کام کر رہے ہیں ماضی میں اس کی کوئی مثال ملنا مشکل ہے۔ فوج بیرونی ممالک سے رابطوں کے علاوہ ملک میں زراعت کی ترقی اور معدنیات سے ملکی معیشت میں بہتری کے لئے بھرپور کوشش کر رہی ہے۔
اس وقت جو سیاسی آثار نظر آ رہے ہیں کوئی بھی ایسی جماعت نہیں ہے کہ وہ اکثریت حاصل کر سکے۔ اگر الیکشن ہوئے بھی تو نئی حکومت چوں چوں کا مربہ ہو گی جو ماضی کے برعکس اپنی معینہ جمہوری مدت پوری نہیں کر سکے گی۔ اگر پاک فوج سرزمین وطن کے لئے اتنا کر رہی ہے تو آئندہ الیکشن کے بعد برسراقتدار آنے والی حکومت کو مذاکرات سے یا طاقت سے آداب حکمرانی بھی سکھا دے کہ کیسے اپنی بہتر گورننس سے ملک کی تقدیر بدلنی ہے؟ الیکشن پر قومی خزانے سے عوام کا اربوں روپیہ ضائع ہونے سے بچانا ہے تو اس بار حافظ صاحب قوم و ملک پر اتنا احسان کر دیں کہ وہ اگلی حکومت سے جمہوری مدت بھی پوری کروائیں اور جیسے تیسے کر کے اس سے بہترین کارکردگی بھی نکلوائیں۔
اگر پاکستان کو ترقی کروانی ہے تو اسٹیبلشمنٹ کے ارباب حل و اختیار کو برسراقتدار سیاست دانوں کے پرانے انداز ہائے سیاست کو بدلوانا ہو گا۔ پرانا یا موجودہ سیاسی مائنڈ سیٹ نہیں چلے گا۔ مانا کہ دنیا بھر کی سیاست میں ایجنسیوں کا کسی نہ کسی صورت میں کوئی رول ہوتا ہے۔ لیکن ترقی یافتہ ممالک کی اسٹیبلشمنٹ سیاست کی شطرنج پر مستقبل کی منصوبہ بندی کے مطابق اپنی چالیں بدلتی ہیں۔ ہماری بادشاہ گر مقتدرہ سیاست دانوں کے لئے اقتدار کی کہانیاں لکھتی ہے تو اس میں تھوڑی گڈ گورننس بھی لکھ دیا کریں۔ کہتے ہیں کہ قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے۔ یونہی ہماری تقدیر لکھتے رہیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں مگر دھیرے دھیرے سہی کبھی تو حالات سنور جائیں گے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اول ہمارے ہاں رائج مغربی جمہوریت کے پتوار میں اعلی پائے کے متبادل سیاست دان نہیں ہیں اور اگر ہیں بھی تو انہیں موجودہ جمہوری طریقے اور چناو سے کرسی تک پہنچانا مشکل ہے۔ لھذا ہماری اسٹیبلشمنٹ کیا کرتی ہے کہ وہ بار بار انہی مقبول گھوڑوں کو انتخابات کی ریس میں اتارتی ہے جو یا تو مخلص نہیں ہوتے اور یا پھر وہ اس قدر نااہل ہوتے ہیں کہ وہ الیکشن جیت کر اور اقتدار میں آکر بھی ملک و قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button