وراثتی سیاست اور جمہوریت
قاسم مغیرہ
وراثتی سیاست کے حق میں دی جانے والی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ بچے عموماً اپنے والدین کا پیشہ اختیار کرتے ہیں۔ جس طرح ڈاکٹر کا بیٹا ڈاکٹر ، انجینئر کا بیٹا انجینئر ، استاد کا بیٹا استاد اور فن کار کا بیٹا فن کار بنتا ہے، اسی طرح سیاست دان کا بیٹا سیاست دان بن جاتا ہے۔ کچھ دانش وروں کا یہ کہنا ہے کہ وراثتی سیاست نے جمہوریت کو سنبھالا دے رکھا ہے۔ بہ نظر عمیق اس دلیل کا جائزہ لیا جائے تو اس دلیل کی کم زوریاں واضح ہوتی ہیں۔
پہلی کم زوری یہ ہے کہ اس میں یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ بچے لازماً اپنے والدین کا پیشہ اختیار کرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ایک زمانے میں ایسا ہوتا تھا کہ بچے اپنے والدین کا پیشہ اختیار کرتے تھے لیکن وہ دور گزر گیا ہے۔ بالفرض آج بھی یہ ریت برقرار رہے تو بھی ایسا نہیں ہے کہ ایک پیشے میں ترقی کرنے والے نے دوسروں کو وہ پیشہ اختیار کرنے سے روک رکھا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کوئی پیشہ کسی شخص کا ذریعہ آمدن ہوتا ہے۔ اس طرح سیاست سے اس کا تقابل نہیں بنتا۔ سیاست ذریعہ آمدن نہیں ہے۔ کوئی شخص اپنے بچے کو اپنے پیشے کی کمان یوں ہی نہیں سنبھالنے دیتا۔ یہ مرحلہ تربیت کے بعد آتا ہے۔ سیاست کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ کوئی سیاست دان اپنے بچے کو جب سیاست کے میدان میں اتارتا ہے تو اس کے پیش نظر کوئی اصول، آدرش یا نظریہ نہیں ہوتا بلکہ سیاست کے میدان میں اترنے والے شخص کے پیش نظر صرف یہ نشہ ہوتا ہے کہ وہ اقتدار کے لئے پیدا ہوا ہے۔ بے نظیر بھٹو کے بہ قول Bhuttos are born to rule
ایسی سوچ کے تحت پروان چڑھنے والے سیاست دان کے پیش نظر صرف ایک ہی بات ہوگی کہ وہ حاکم ہے، دوسرے اس کے محکوم۔
وراثتی سیاست کے حامیوں کا یہ کہنا کہ وراثتی سیاست نے جمہوریت کو سنبھالا دے رکھا ہے، ایک شدید غلط فہمی ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ وراثتی سیاست، جمہوریت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ وراثتی سیاست پر یقین رکھنے والا ایک سیاست دان یہ کبھی نہیں چاہے گا کہ جماعت کا کوئی دوسرا شخص اس کے یا اس کے بچوں کے مقابل آ کھڑا ہو، کسی کا قد کاٹھ اس کے بچوں کے قدو قامت سے بڑھ جائے، کوئی سیاست دان کتنا ہی صاحب فہم و ذکا ہو قائد جماعت کے بچوں سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ وراثتی سیاست نے وہ تمام دروازے جن سے متبادل قیادت سامنے آسکتی ہے، بند کر رکھے ہیں۔ انٹرا پارٹی الیکشنز ، سٹوڈنٹ یونین اور لوکل گورنمنٹ الیکشن متبادل سیاسی قیادت میسر آنے کے تین بڑے ذرائع ہیں۔ وراثتی سیاست کے لئے یہ تینوں ذرائع شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس طرح وراثتی سیاست جمہوریت کے تحفظ کے بجائے، جمہوریت کے قتل کا باعث ہے۔
ایک ایسی سیاسی قیادت جو اپنی جماعت میں جمہوری روایات کی پاس داری نہ کرے، جماعت میں داخلی جمہوریت کو پروان نہ چڑھنے دے، سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ملک میں جمہوریت متعارف کروائے گی، عبث ہے۔وراثتی سیاست کا ایک بڑا نقصان یہ بھی ہوا کہ بڑی سیاسی جماعتیں اپنا وفاقی رنگ کھوبیٹھیں اور ایک مخصوص لسانی یا صوبائی گروہ کی نمائندہ قرار پائیں۔ اب پیپلز پارٹی سندھیوں اور مسلم لیگ ن پنجابیوں کی جماعت سمجھی جاتی ہے۔
سیاسی جماعتیں انٹرا پارٹی الیکشنز کے نام پر نام زدگیاں تو کرلیتی ہیں، لیکن حقیقی جمہوری اقدار سے ان کا دور ،دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اسی طرح سیاسی جماعتیں اپنی جماعت کے محنتی کارکن کو ترقی دینے کے بجائے کسی پیراشوٹر الیکٹیبل کو ترجیح دینا پسند کرتی ہیں۔ محسن بھوپالی کے بہ قول
نیرنگی سیاست دوراں تو دیکھیے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
سیاسی جماعتوں میں داخلی جمہوریت نہ ہونے اور ایک خاندان کی اجارہ داری ہونے کے سبب خود احتسابی اور خود تنقیدی کے بجائے خوشامد پروان چڑھتی ہے۔ نتیجتاً جماعت کے سنیئر ارکان جن کا سیاسی تجربہ، سیاسی قیادت کے بچوں کی عمر سے بھی زیادہ ہے ، نعرے بازی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
بلاول بھٹو قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔
آصفہ بھٹو قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں
بختاور بھٹو قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔
مریم نواز قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔
ساڑھے تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ ہوا کہ سٹوڈنٹ یونین پر پابندی ہے۔ بلدیاتی انتخابات سیاسی جماعتوں کی ترجیح نہیں بنتے۔ ایک بااختیار میئر ایم این اے اور ایم پی کے لئے ناقابل قبول ہے۔ ایم این؍ ایم پی اے اور میئر کے درمیان اختیارات کی جنگ اختیار کے غلط استعمال کا نتیجہ ہے۔ صوبائی اور قومی اسمبلی کے اراکین کا کام قانون سازی کرنا ہے جب کہ میئر کا کام ترقیاتی کام کرانا۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ میئر کے نہ ہونے کے باعث ایم این اے ترقیاتی کاموں، جو درحقیقت اس کا کام نہیں ہے، کی بنیاد پہ ووٹ مانگتا ہے۔
اس طرح سیاسی جماعتیں وراثتی سیاست اور محدود مفادات کا تحفظ کرتے کرتے سمٹ کے رہ گئی ہیں۔ پیپلز پارٹی اب اندرون سندھ کی ایک جماعت بن گئی ہے۔ مسلم لیگ ن پنجاب کے چند شہروں تک محدود ہے۔ سیاسی جماعتوں نے وقتی فائدے کے لئے جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ اپنی بقا کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔
یہ شدید غلط فہمی ہے کہ وراثتی سیاست جمہوریت کی بقاء کی ضامن ہے۔ جماعت اسلامی نے وراثتی سیاست کے بغیر وطن عزیز کی سب سے زیادہ جمہوری اور منظم جماعت بن کے دکھایا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے بارے میں غیر جانب دار اداروں کے سروے داخلی جمہوریت کے اعتبار سے جماعت اسلامی کو ہمیشہ اول نمبر پہ رکھتے ہیں۔ انتخابات میں حوصلہ افزا کارکردگی نہ دکھانے کے باوجود جماعت اسلامی کبھی شکست و ریخت اور توڑ پھوڑ کا شکار نہیں ہوئی۔ جماعت اسلامی میں ایک کارکن اپنی محنت کے بل بوتے پر جماعت کا امیر بن سکتا ہے۔ دیگر سیاسی جماعتوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ اسی طرح اسلامی جمعیت طلبہ میں 76 برس سے باقاعدگی سے انتخابات ہورہے ہیں۔ جماعت اسلامی نے داخلی جمہوریت کی یہ روایات اسی ملک میں قائم کی ہیں جہاں بار بار مارشل لاء لگا۔ کسی سیاسی جماعت کے پاس جمہوری روایات برقرار نہ رکھنے کا کوئی معقول عذر نہیں ہے۔
سیاسی جماعتیں اگر واقعتاً جمہوری مزاج رکھتی ہیں تو انہیں اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے داخلی جمہوریت کی طرف سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم قدم باقاعدگی سے انٹرا پارٹی الیکشن کا انعقاد ہے۔ محض نام زدگی ، بلامقابلہ انتخاب اور تاحیات صدر ؍ چیئرمین بنانے کے بجائے رائے شماری کو فروغ دے کر جمہوریت کو زیادہ شمولیتی بنائیں۔
بار بار وفاداریاں بدلنے والوں پر سیاسی جماعتیں اپنے دروازے بند کرکے عام آدمی کے لئے سیاست کا رستہ ہموار کریں۔ ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے میں ذات برادری کے بجائے میرٹ کو ترجیح دیں۔
سٹوڈنٹ یونین بحال کریں۔ ان کے عہدے داران کے لئے باقاعدگی سے انتخاب کرائے جائیں۔ نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کے لئے بلدیاتی انتخابات کا باقاعدگی سے انعقاد کرائیں۔ گراس روٹ لیول تک اختیارات کی منتقلی ہی جمہوریت کا حسن ہے۔
ان اقدامات سے عوام میں سیاسی جماعتوں کی جڑیں مضبوط ہوں گی اور نتیجتاً جمہوریت زیادہ پائیدار بنیادوں پر استوار ہوگی۔ سیاسی جماعتوں میں داخلی جمہوریت کے فروغ سے وفاقیت کو بھی فروغ ملے گا۔ یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ یہ قدم قوم سازی کے عمل کا نکتہ آغاز ہوگا۔