مفت کتابیں اورPEF
جب سردی کی چھٹیاں ابھی نہیں ہوئی تھیں، پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ سید محسن نقوی بہت سے سکولوں کے معائنہ پر نکل جاتے تھے، وہاں بچوں کے ساتھ کچھ وقت گزارتے، وہاں پر سہولتوں اور حالات کا جائزہ لیتے، اساتذہ کی صورت ِحال دیکھتے اور جو نتیجہ برآمد ہوتا اُس کے مطابق احکامات جاری کرتے تھے۔ اُن کے معائنے کی روشنی میں پنجاب بھر کے سکولوں میں صفائی، بچوں اور اساتذہ کی حاضری اور دیگر سہولتوں بارے ہلچل مچی رہی، سکولوں کے اچانک معائنہ کا دور بھی چلا، محکمانہ افسران نے بھی اپنی کرسیوں کو چھوڑ کر سکولوں تک پہنچنا شروع کیا۔ یقیناً بہت سے معاملات تو صرف بھر پور توجہ اور محنت سے ہی حل ہو جاتے ہیں، جس قدر افرادی قوت موجود ہوتی ہے، اُسے اگر مناسب طریقے سے استعمال کر لیا جائے تو بہت سے مسائل کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ اور جب خود حکمران ہی میدان میں اُتر آئے تو کوئی کمی باقی نہیں رہ جاتی۔ وزیراعلیٰ کے سکولوں کے دورے بلاشبہ نہایت مفید ثابت ہوئے۔
نیا سال طلوع ہونے پر چونکہ بہت سی رپورٹیں سامنے آتی ہیں، کچھ سال ختم ہونے پر اور کچھ مالی سال کے نصف گزرنے پر ۔ حکومت کی کارکردگی یا مسائل بھی میڈیا کی زینت بن رہے ہیں، پاکستان چونکہ مشکل معاشی حالات میں سے گزر رہا ہے اس لئے اُن میں سے بہت سی باتیں قاری کے لئے پریشانی کا موجب بن رہی ہیں۔ ایک خبر یہ بھی اخبارات میں شائع ہوئی ہے کہ سکولوں کو مالی سال کے گزشتہ نصف میں فنڈز کی بہت زیادہ کمی کا سامنا رہا ہے، پہلی سہ ماہی کے فنڈ نہیں مل سکے، اور دوسری کے بھی بہت تاخیر سے ملے ہیں۔ جس کی وجہ سے نہ تو کسی سکول میں کوئی نیا بلاک تعمیر ہو سکا ہے اور نہ ہی خطرناک یا کمزور یا خراب عمارت کی مرمت کا سلسلہ شروع ہو سکا، اور یہ بھی کہ نگران حکومت میں سکولوں کے لئے بجٹ بھی محدود رکھا گیا ہے۔ سب سے خطرناک بات یہ کہ ڈیڑھ کروڑ بچوں کے لئے مفت کتابوں کے لئے پرنٹنگ کا آرڈر نہیں دیا جاسکا، کیونکہ فنڈ دستیاب نہیں۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کے فنڈز میں بھی بے حد تاخیر ہوئی ہے اور بجٹ میں کٹ بھی لگایا گیا ہے۔
پاکستان کا آئین حکومت پر بچوں کی مفت تعلیم کی ذمہ داری ڈالتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ بھی چونکہ صوبوں کے حوالے کر دیا گیا ہے، مرکزی حکومت محض مشاورت اور سرپرستی کا فریضہ نبھا سکتی ہے۔ مفت تعلیم کے ضمن میں سالہا سال سے میٹرک تک بچوں کی فیس معاف ہے اور کتابیں مفت فراہم کی جارہی ہیں۔ مگر یہ پہلا سال ہے کہ کتابوں کی چھپوائی کے لئے ابھی آرڈر نہیں دیا جا سکا۔ تعلیم کا عمومی بجٹ اپنے ہاں پہلے ہی قابلِ رشک نہیں رہتا، جبکہ تعلیم پر بہتر بجٹ کے استعمال سے ہی بچوں اور قوم کا مستقبل روشن کیا جا سکتا ہے، پاکستان میں تعلیم کے لئے مختص کیا جانے والا بجٹ افسوسناک حد تک کم ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومتوں کی اپنی منصوبہ بندی ہوتی ہے، وہ اپنے طور پر بہتر جانتی ہے کہ کہاں زیادہ خرچ کرنا ضروری ہے؟
سرکاری سکولوں پر نگاہ ڈالی جائے تو زیادہ تر پرائمری سکول دو کمروں پر مشتمل نظر آئیں گے، حالانکہ خود اضلاع میں قائم ایجوکیشن اتھارٹیاں جو کہ نجی سکولوں کی رجسٹریشن کی ذمہ دار ہوتی ہیں، اُن کے قانون کے مطابق بھی پرائمری سکول کے لئے چھ کمرے ہونا لازم ہیں، (یہ قانون حکومت پر لاگو نہیں ہوتا) ۔ چھ کلاسوں پر مشتمل سکول میں دو کلاس روم بہت ہی ناکافی ہیں، اُنہی کی مناسبت سے سکول میں اساتذہ بھی دو یا تین ہی ہوتے ہیں۔ یہ مضحکہ خیز صورتِ حال تعلیمی زوال کی اہم وجہ ہے۔ اِس امر سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اپنی حکومتیں عام بچوں کی تعلیم میں کس قدر سنجیدہ ہیں؟ دوسری طرف اکثر والدین مفت کتابوں کی وجہ سے بھی بچوں کو سکول بھیج دیتے تھے، کہ چلیں بیٹھنے کی جگہ تو جیسے کیسے بنے گی، بچہ کچھ نہ کچھ پڑھ لکھ ہی لے گا۔ اب جبکہ بچے کو کتابیں خرید کر دینی پڑیں گی تو بہت سے والدین کتابوں کی عدم دستیابی کو جواز بنا کر اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے، یوں ناقابلِ تلافی نقصان کا سامنا ہوگا۔
پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن تعلیمی میدان میں حکومتِ پنجاب کا ایک بہت معاون ادارہ ہے، سرکاری سکولوں کے اخرجات کی نسبت بہت ہی کم خرچ پر بچوں کو نسبتاً بہتر تعلیم کا بندوبست کر رہا ہے۔ کورونا کے بعد سے اب تک حالات سنبھلنے نہیں پائے۔ بہت حد تک سابق وزیر تعلیم مُراد راس نے اِس ادارے کو کمزور کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ موصوف کے اقدامات کچھ اِس انداز میں راسخ ہوئے کہ اب تک یہ ادارہ پہلے والی پوزیشن پر نہیں آسکا۔ پورا پاکستان اِس کی مثال دینے سے قاصر ہوگا کہ کسی ادارے میں دس برس میں ایک روپیہ بھی پے منٹ میں اضافہ نہ ہوا ہو ، ہاں یہ پیف ہی ہے، جہاں مڈل اور اَپر پرائمری کلاسوں میں اب اِس قدر اضافہ کیا گیا ہے، جسے اونٹ کے منہ میں زیرہ بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اوّلین چار کلاسوں کی پے منٹ دس برس سے 550روپے فی بچہ ہے۔ واضح رہے کہ سرکاری سکول کے ایک بچے پر ڈھائی ہزار روپے اوسطاً خرچ اٹھتا ہے۔
پنجاب سرکار کے اِس نیک نام خود مختار ادارے کی چولیں بھی ہلنے لگی ہیں، جس کی وجہ سے ذرائع کے مطابق بہت سے ادارے’ پیف‘ سے اپنا الحاق ختم کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ مارچ اپریل میںنئے داخلے کے وقت سابقہ تعداد پوری نہیں کرنے دی گئی ، اگر سو بچے داخل کرنے تھے تو پچاس پر روک دیا گیا، باقی نصف کی اجازت چھٹیوں کے بعد دی گئی۔ مارچ اپریل والوں کے بقایا جات اب جنوری میں دیئے گئے ہیں۔ ایک طرف دو ماہ کی پے منٹ ابھی نہیںملی، دوسری طرف جو بچے ستمبر میں داخل کئے گئے، اُن کے بقایا جات نہ جانے کب ملیں گے؟ تیسری اہم بات یہ کہ پے منٹ کی کمی اور تاخیر کے باوجود بہت ہی معمولی باتوں پر بھاری جرمانے عائد کرکے کٹوتیاں کر لی جاتی ہیں۔ وزیراعلیٰ سید محسن نقوی جہاں نہایت متحرک شخصیت کے طور پر سامنے آئے ہیں اور کسی بھی طرح کسی منتخب وزیراعلیٰ سے کم سرگرم نہیں ہیں، اُن سے درخواست ہے کہ براہِ کرم سرکاری سکولوں کے فنڈز کے اجراء، کمروں وغیرہ کی تعمیر ، دیگر سہولتوں کی دستیابی کا نوٹس لیں، مفت کتابوں کا بندوبست بہت سے گھروں کے مستقبل روشن کرنے کا ذریعہ بنے گا ۔ خاص طور پر پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے معاملات کا بہت گہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔اُمّید ہے کہ ’’مُحسن سپیڈ‘‘ اپنی توجہ کا رُخ ایک مرتبہ پھر محکمہ تعلیم اور ’پیف‘ کی طرف موڑیں گے اور اصلاحِ احوال کے ذریعے سے اُن کا نام تاریخ میں رقم ہو جائے گا۔