چیف جسٹس پاکستان کا صائب خطاب
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اسلام آباد کی فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں ہر معاملہ سیدھا سپریم کورٹ لے جانے کا رجحان بن چکا، سسٹم کو بچانے کے لئے اس تصور کو ختم کرنا ہو گا۔ من گھڑت قسم کے مقدمات لانے والوں کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی اور ایسے مقدمات لانے والوں پر ہرجانے عائد ہونے چاہئیں۔ عام لوگوں میں اعتماد بحال کرنا ضروری ہے کہ انصاف ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدلیہ کے ساتھ اختلاف رائے رکھنا ہر شہری کا حق ہے۔ اختلافِ رائے کے باوجود ادب اور احترام ضروری ہے۔ انصاف صرف ہونا نہیں چاہیے، ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے، تمام فریقین کے ساتھ مساوی سلوک کریں۔ بلاشبہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا خطاب صواب و راستی پر مبنی خطاب ہے کیونکہ نظام انصاف ہی قوموں کی ترقی اور زوال کا باعث بنتا ہے، بالخصوص دین اسلام میں انصاف کی اہمیت پر جتنا زور دیا گیا ہے اور نبی کریم ﷺ نے انصاف کی ایسی مثالیں قائم کی ہیں جن کی پہلے کبھی نظیر ملی اور نہ ہی قیامت تک ملیں گی۔ ریاست اور عام شہری کی زندگی کا کوئی بھی پہلو انصاف کے بغیر مکمل نہیں ہوتا جو انسان اپنا احتساب کرتا ہے وہ کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کرتا اس کے برعکس جو انسان اپنے ساتھ انصاف نہیں کرتا وہ کسی دوسرے کے ساتھ بھی انصاف نہیں کرسکتا اس لئے اِس سے انصاف کی توقع قطعی نہیں کی جاسکتی۔ مہذب اقوام میں انصاف ہوتا ہوا بھی نظر آتا ہے لہٰذا کوئی بھی ادارہ ہو یا فرد انصاف کے معاملے میں بے فکر نظر آتا ہے کیونکہ اسے انصاف کی توقع ہوتی ہے لیکن جن معاشروں میں انصاف کاحصول مشکل ترین اور مشکوک ہوتا ہے وہ معاشرے ہر لحاظ سے پیچھے بھی رہ جاتی ہیں اور بالآخرتباہی کے دہانے پر بھی پہنچ جاتے ہیں۔ اِس لئے نظام انصاف کو ایسا مثالی ہونی چاہیے کہ دنیا دیکھے اور عش عش کراُٹھے، بلاشبہ جو حق پرہوگا وہ انصاف ملنے پرخوش ہوگا اور جو ناحق ہوگا وہ فیصلے پرتنقید کرے گامگر انصاف کامعیار ایسا ہونا چاہیے کہ عامۃ الناس مطمئن ہوں اور انہیں یقین ہو کہ وہ ریاست یا کسی بھی فردکی طرف سے ناانصافی پر عدالت سے رجوع کرکے انصاف حاصل کرلے گا۔ ہمارے سامنے بھارتی عدلیہ کی مثال ہے جو حکومت اور اداروں کی نہ صرف تابع ہے بلکہ انصاف کا کئی بار خون کرکے عالمی سطح پر اپنی ساکھ کو خاک میں ملاچکی ہے، بابری مسجد کامعاملہ ہو یا پھرمقبوضہ کشمیرپر بھارتی پارلیمنٹ کی آئینی ترمیم، ایسے بے شمار واقعات ہیں جن میں انصاف کا خون نظر آتاہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ریاست کاکوئی بھی بندہ حصول انصاف کے لئے عدالت کی چوکھٹ پرجائے تو اِس کو پورا پورا یقین کامل ہونا چاہیے کہ اِسے انصاف ملے گا۔ بلاشبہ آج بھی ہمارے معاشرے میں پڑھے لکھے لوگ حصول انصاف کے لئے عدالت جانے کااعلان کرتے ہیں اور ازخود ایک دوسرے کے خلاف کسی بھی تنہاپرپہنچنے سے گریزکرتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ عدالت سے انصاف ملے گا۔ عوام تو نظام انصاف پریقین رکھتے ہیں مگر افسوس کہ اشرافیہ اورحکمران طبقہ بلکہ سیاست دانوں کی پوری برادری کایہ وطیرہ رہاہے کہ وہ من پسندفیصلوں پرتو بغلیں بجاتے ہیں مگر اپنے خلاف آنے والے فیصلوں کو بلکہ فیصلوں سے قبل ہی معاملے کو متنازعہ بنادیتے ہیں کیونکہ انہیں بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ عدالت کے روبرو سارامعاملہ چوپٹ ہوجائے گااسی لئے وہ فیصلے سے پہلے ہی اسے متنازعہ بنانے کے لئے گردانیں گھڑ لیتے ہیں جو افسوس ناک کےساتھ ساتھ شرمناک عمل بھی ہے کیونکہ اِس سےعامۃ الناس جو نظام انصاف پر صد فیصد اعتماد کرتے ہیں وہ بھی متاثرہوتے ہیں۔ حالیہ دنوںمیں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت کا معاملہ چل رہاہے اوراِس فیصلے کو عدالتی قتل قرار دیاجارہاہے، ہم نہیںجانتے کہ بھٹو کے معاملے میں انصاف کے تقاضے پورے ہوئے تھے یانہیں لیکن جب ’’عدالتی قتل‘‘ کی گردان کی جاتی ہے تو اس سے نہ صرف نظام انصاف پراُنگلیاں اُٹھتی ہیں ہیں بلکہ عوام بھی گمراہ ہوتے ہیں۔ ہم مسلمان ہیں اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ عدل کرنا خدائے بزرگ و برتر کا وصف ہے۔ منصف کی مسند پر براجمان شخص کاتب تقدیر یعنی خدا کا نائب ہوتا ہے اِس لئے اس کافیصلہ حق و انصاف پرمبنی ہونا چاہیے، بلکہ یہاں تک کہاجاتاہےکہ حق و انصاف پر مبنی فیصلہ ساٹھ سالہ عبادت کے برابر ہوتا ہے۔ مگرشاید بعض لوگ دبائو یا کسی وابستگی کی وجہ سے کچھ ایساکرجاتے ہیںکہ نظام انصاف سارے کاسارامشکوک ہوجاتاہے، سائل چاہے عام شہری ہویاکوئی بھی غیرملکی، اِس کو انصاف ملناچاہیے اور جتنا بڑامعاملہ ہو، اتناہی فیصلہ طاقت کے ساتھ آناچاہیے اوراِس پرعمل درآمد بھی ہوناچاہیے، کسی ادارے یافرد کی جرأت نہیںہونی چاہیے کہ وہ عدالتی فیصلے کے خلاف ہرزہ سرائی کرے اورعوام کو نظام انصاف سےبدظن کرے، ہم جناب چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خطاب کو راست اورصواب پرمبنی خطاب قرار دیتے ہیںاسکےبعد کہنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔