دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انساں کو
شکیل امجد صادق
انسان کون ہے؟ انسان کیا ہے؟ انسان کیسے ہے؟ انسان کیوں ہے؟ انسان کب سے ہے؟ اور کب تک رہے گا؟ انسان ہونا کیا ہوتا ہے؟ یہ تمام سوالات انسان کے ہی پیدا کردہ ہیں۔ مگر ان سوالوں کے جواب کون دے گا؟ کیا انسان ہی انسان کے پیدا کردہ سوالات کے جوابات دے سکتا ہے‘ یا انسان سے وسیع یا ماورا کوئی وجود ان سوالوں کے جوابات دے گا۔ اس موضوع پر انسانی فکری تاریخ میں کئی نظریات پائے جاتے ہیں۔ کسی نے سمجھا کہ خود انسان بس انسان کے سوالوں کے جوابات دینے کا اصل اہل ہے اور کسی نے سمجھا کہ ماورا سے کوئی و جود جو کہ ان کے خیال سے انسان کا خالق ہے۔ وہی ان سوالوں کے حقیقی جوابات دینے کی اہلیت رکھتا ہے۔ کسی نے درمانی صورت نکالنے کی کوشش کی۔ اذیت ناک بات یہ ہے کہ آج تک کوئی فکر کوئی مکتب انسان کے اٹھائے گئے ان سوالات کا قطعی جواب نہیں دے پایا۔ گو کہ اپنے اپنے دائرہ عمل میں ہر فکرنے قطعیت کا دعویٰ کیا، انسانی وجود کا سنگین المیہ یہی ہے کہ ساری انسانی فکری تاریخ بس انہیں سوالات کے مختلف جوابات کی تاریخ ہے۔ یہی سوالات بار بار انسان کو تنگ کرتے رہے اور انہی سوالات کے قطعی جوابات کی خواہش انسان کو فکر کرنے پر مجبور کرتی رہی۔ ہر فکر اپنے دور میں کسی حد تک اپنے مخصوص زمان و مکان میں ان سوالات کے جوابات دے پائی مگر کلی طور پر یہ سعی ناکام رہی کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فکر بھی گزر گئی مگر دو بنیادی مکاتب مختلف صورتوں میں ہمیشہ رہے ایک مادہ پرست اور ایک غیر مادہ پرست،مگر انسان کو غیر مادہ پرست ہونا ہی اس کیلئے دونوں جہاں کیلئے فائدہ مند ہے۔
ایک درویش ،فقیر نے پوچھا تم چاہتے کیا ہو؟
میں نے عرض کیا: کیا آپ کو واقعی سونا بنانا آتا ہے؟فقیر نے خالی خالی آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور ہاں میں سر ہلاکر بولا:ہاں میں نے جوانی میں سیکھا تھا۔میں نے عرض کیا: کیا آپ مجھے یہ نسخہ سکھا سکتے ہیں؟فقیر نے غور سے میری طرف دیکھااور پوچھا: تم سیکھ کر کیاکرو گے؟میں نے عرض کیا: میں دولت مند ہوجائوں گا۔ فقیر نے قہقہہ لگایا، وہ ہنستا رہا، دیر تک ہنستا رہا۔ یہاں تک کہ اُس کا دم ٹوٹ گیا اور اُسے کھانسی کا شدید دورہ پڑ گیا۔ وہ کھانستے کھانستے دُھرا ہوا اور قریباً بے حالی کے عالم میں دیر تک اپنے ہی پائوں پر گرا رہا وہ۔ پھر کھانستےکھانستے سیدھا ہوا اور پوچھا: تم دولت مند ہوکرکیا کرو گے؟
مں نے جواب دیا: میں دنیا بھر کی نعمتیں خریدوں گا۔
اُس نے پوچھا: نعمتیں خرید کر کیاکرو گے؟
میں نے جواب دیا: میں خوش ہوں گا، مجھے سکون ملے گا۔
تب اُس نے میری طرف دیکھا اور کہا: گویا تمہیں سونا اور دولت نہیں سکون اور خوشی چاہیے۔ میں نے خاموشی سے اُس کی طرف دیکھا، اُس نے مجھے جھنجھوڑا اور پوچھا: کیا تم سکون اور خوشی کی تلاش میں ہو ؟
میں اُس وقت نوجوان تھا اور دنیا کے ہر نوجوان کی طرح دولت کو خوشی اور سکون سے زیادہ اہمیت دیتا تھا۔ مگر فقیر نے مجھے کنفیوزکردیا تھا۔ اور میں نے اُسی کنفیوژن میں ہاں میں سرہلا دیا۔ فقیر نے ایک اور لمبا قہقہہ لگایا اور اس قہقہے کا اختتام بھی کھانسی پر ہوا۔ وہ دم سنبھالتے ہوئے بولا: بیٹا میں تمہیں سونے کی بجائے انسان کو بندہ بنانے کا طریقہ کیوں نہ سکھادوں؟میں تمہیں دولت مند کی بجائے پرسکون اور خوش رہنے کاگُر کیوں نہ سکھادوں؟ میں خاموشی سے اُس کی طرف دیکھتا رہا۔ وہ بولا: انسان کی خواہشیں جب تک اُس کے وجود اور اُس کی عمر سے لمبی رہتی ہیں۔ وہ اُس وقت تک انسان رہتا ہے۔ تم اپنی خواہوں کو اپنی عمر اور اپنے وجود سے چھوٹا کرلو، تم خوشی بھی پائو گے اور سکون بھی۔ اور جب خوشی اورسکون پاجائو گے تو تم انسان سے بندے بن جائو گے۔ مجھے فقیر کی بات سمجھ نہ آئی۔ فقیر نے میرے چہرے پر لکھی تشکیک پڑھ لی۔ وہ بولا: تم قرآن مجید پڑھو! اللہ تعالیٰ خواہشوں میں لتھڑے لوگوں کو انسان کہتا ہے اور اپنی محبت میں رنگے خواہشوں سے آزاد لوگوں کو بندہ۔ فقیر نے اُس کے بعد کامران کی بارہ دری کی طرف اشارہ کیا اور بولا: اس کو بنانے والا بھی انسان تھا۔ وہ اپنی عمر سے لمبی اورمضبوط عمارت بنانے کے خبط میں مبتلا تھا۔ وہ پوری زندگی دولت ہی جمع کرتا رہا۔ مگر دولت اور عمارت نے اُسے سکون اور خوشی نہ دی۔ میں نے بےصبری سے کہا: اور میں بھی۔
اُس نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا: نہیں تم نہیں۔
تم جب تکم تانبے کو سونا بنانے کا خبط پالتے رہوگے تم اُس وقت تک خوشی سے دور بھٹکتے رہوگے۔ تم اُس وقت تک سکون سے دور رہو گے۔ فقیر نے اُس کے بعد زمین سے چھوٹی سی ٹہنی اُٹھائی۔ اور فرش پررگڑ کربولا: لو میں تمہیں انسان کو بندہ بنانے کا نسخہ بتاتا ہوں۔ اپنی خواہشوں کو کبھی اپنے قدموں سے آگے نہ نکلنے دو! جو مل گیا اُس پر شکر کرو! جو چھن گیا اُس پر افسوس نہ کرو! جو مانگ لے اُس کو دے دو! جو بھول جائے اُسے بھول جائو! دنیا میں بے سامان آئے تھے۔ بے سامان جائو گے۔ سامان جمع نہ کرو۔ ہجوم سے پرہیز کرو۔ تنہائی کو ساتھی بنائو۔ مفتی ہو تب بھی فتویٰ جاری نہ کرو! جسے خدا ڈھیل دے ہا ہو، اُس کا کبھی احتساب نہ کرو! بلاضرورت سچ فساد ہوتا ہے۔ کوئی پوچھے تو سچ بولو! نہ پوچھے تو چپ رہو! لوگ لذت ہوتے ہیں اور دنیا کی تمام لذتوں کا انجام بُرا ہوتا ہے۔ زندگی میں جب خوشی اور سکون کم ہو جائے تو سیر پر نکل جائو! تمہیں راستے میں سکون بھی ملے گا اور خوشی بھی۔ دینے میں خوشی ہے اور وصول کرنے میں غم۔ دولت کو روکو گے تو خود بھی رک جائو گے۔ چوروں میں رہوگے تو چور ہو جائو گے۔ اللہ والوں سے لو لگائو گے تو متقی و پرہیز گار بنو گے۔ تو اللہ پاک راضی ہوگا اگر اللہ پاک ناراض ہوگا تو نعمتوں سے خوشبو اُڑ جائے گی۔ تم جب عزیزوں، رشتے داروں، اولادوں اور دوستوں چڑنے لگو تو جان لو اللہ پاک تم سے ناراض ہے اور تم جب اپنے دل میں دشمنوں کیلئے رحم محسوس کرنے لگو تو سمجھ لو تمہارا خالق تم سے راضی ہے۔ اور ہجرت کرنے والا کبھی گھاٹے میں نہیں رہتا۔
فقیر نے ایک لمبی سانس لی۔ اُس نے میری چھتری کھولی، میرے سرپر رکھی اور فرمایا: جائو تم پر رحمتوں کی یہ چھتری آخری سانس تک رہے گی۔ بس ایک چیز کا دھیان رکھنا، کسی کو خود نہ چھوڑنا، دوسرے کو فیصلے کا موقعہ دینا۔ یہ اللہ پاک کی سنت ہے۔ اللہ پاک کبھی اپنی مخلوق کو تنہا نہیں چھوڑتا۔ مخلوق اللہ کو چھوڑتی ہے اور دھیان رکھنا! جو جارہا ہو اُسے جانے دینا، مگر جو واپس آرہا ہو اُس پر کبھی اپنا دروازہ بند نہ کرنا! یہ بھی اللہ پاک کی عادت ہے۔ اللہ پاک واپس آنے والوں کیلئے ہمیشہ اپنا دروازہ کھلا رکھتا ہے۔ تم یہ کرتے رہنا! تمہارے دروازے پرمیلا لگارہےگا۔