متوسط طبقے کی مت ماری گئی
احمد خان
لگے تین چار سالوں میں سیاسی عدم استحکام اور حکومتی کر م فرمائوں کی عوام مفاد سے لا تعلقی نے متوسط اور غریب طبقات کے چودہ طبق روشن کر دئیے ہیں ، پہلے پہل تیل مصنوعات کی قیمتوں کو پر لگا کر عام طبقات کیلئے مشکلات میں اضافہ کیا گیا ، خدا خدا کر کے تیل مصنوعات کی قیمتیں برائے نام حد تک کچھ کم ہو ئیں تو حکومت کے کھٹور دل قدردانوں نے بجلی اور گیس کی قیمتوں کو چوکا ہاتھ لگا نے کی ٹھانی اور تواتر سے یہ سلسلہ جانقاں جاری ہے ، ہر ماہ حکومت کے ہاتھوں بجلی کی فی یونٹ قیمت میں اضافے کی خوش خبر ی عوام کو یوں دی جاتی ہے جیسے بجلی کے نرخ کے بڑھا وے کا سن کر عوام کے چہرے مارے مسرت کے کھل اٹھیں گے ، پہلے مزدور اور کم آمدن کے حامل گھرانوںکیلئے بل ادا کر نے سوہان روح تھے اب تھو ک کے حساب سے بجلی کی قیمتوں میں آئے روز بڑھوتری نے اچھے بھلے آمدن کے حامل گھرانوں کو بھی بجلی کے بلو ں نے عاجز کر دیا ہے ، کچھ ایسی صورت حال گیس کی ہے ، بھلے وقتوں میں حکمران قدرتی گیس کے باب میں خود کفیل ہونے کے دعوے بڑے طمطراق سے کیا کر تے تھے ، اب اسی قدرتی گیس کے بل متوسط اور لاچار طبقات کیلئے ادا کر نا ایک ڈرائونا خواب بنتے جا رہے ہیں ، چند ہزار کمانے والوں کے گیس کے بل ان کی آمدن سے چار گنا زائد آرہے ہیں ، زمینی حقائق کو پر کھیں تو متوسط اور لاچار طبقات کی قریب قریب ساری مہینے کی خون پسینے کی کمائی بجلی اور گیس کے بلو ں کی نذر ہو جاتی ہے ، کیا متوسط اور غریب طبقات کی گزر اوقات صرف اورصرف گیس اور بجلی پر ہے ، ہر ذی شعور سمجھتا ہے کہ ہر گھر کے بجلی اور گیس کے علاوہ بیسیوں اخراجات ہوا کرتے ہیں ، امیر ہو یاغریب دال دالیا ہر گھر کی بنیادی اور اہم ضرورت ہے ، اب متوسط طبقات بجلی اور گیس کے بھا ری بھر کم بل ادا کر یں ، گھر کے ماہانہ راشن کا بندوبست کر یں یا اپنے بچوں کی ضروریات پوری کریں ، ایک طرف حکومت دانستہ متوسط اور غریب طبقات کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال رہی ہے ، دوسری جانب کا تماشا بھی ملا حظہ کر لیجیے ، حکومت اور حکومتی ادارے قانون کی ناقص حکمرانی میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے میں مصروف دکھا ئی دیتے ہیں،اشیاء ضروریہ کے نرخ کچھ حکومتی ناقص پالیسیوں کی بدولت پہلے ہی سوا سیر کے درجے پر ہیں دوم بازاروں میں نرخوں کو قابو کرنے کی ذمہ داری جن حکومتی اداروں کے ہاتھ ہے وہ حکومتی ادارے اپنے فرائض کی ادائیگی میں کامل طور پر ناکام دکھائی دیتے ہیں ، تلخ سچ یہ ہے کہ جن حکومتی اداروں کے سر اشیاء ضروریہ کی قیمتوں پر ’’عقاب‘‘کی نظر رکھنے کا فر ض عائد ہے ان اداروں کے اہل کار اول تو اپنے فرائض منصبی کو ادا کر نا شجر ممنوعہ گردانتے ہیں یہ صاحبان بازاروں میں دکان داروں اور تاجروں کی جانچ کر نے کے بجا ئے اپنے دفاتر کو آباد کر نے کو ہی اپنا سرکاری فر ض سمجھتے ہیں ، اس معاملے میں ’’ اوپر کی کما ئی ‘‘ کا کردار الگ سے گرانی میں اہم تر ہے ، اشیاء ضروریہ کی قیمتوں کو ناک کی سیدھ میں رکھنے والے اداروں کے اہل کار دکان داروں اور تاجروں سے ’’ مک مکا ‘‘ کر کے انہیں عوام الناس کو لوٹنے کی آزادی دئیے ہوئے ہیں ، سیاسی ہڑ بونگ حکومت کی جانب سے گرانی کے پے در پے بم اور پھر حکومتی اداروں کی ’’ ڈنگ ٹپائو ‘‘ پا لیسیوں ‘‘ نے گرانی کو خود ساختہ گرانی میں بدل دیا ہے ، اس صورتحال سے ریڑھی بان سے لے کر بڑے بڑے تاجر خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں اور دو نوں ہاتھو ں سے متوسط اور لا چار طبقات کی جیبوں پر دن دیہاڑے ہاتھ صاف کر رہے ہیں ، حکومت اور حکومتی اداروں کی اس مجرمانہ غفلت اور عوام کے مسائل سے کامل بے نیازی نے متوسط اور غریب طبقات کی مت مار دی ہے ، جس طر ح سے ملک سیاسی ابتری کا شکار ہے جس طر ح سے ملک کی معیشت قر ض در قرض پر چل رہی ہے جس طر ح سے کاروبار مندی کا شکار ہے ، اس کے نتائج عام انتخابات نہیں ، بہت سے احباب کے خیال میں عام انتخابات کا مر حلہ طے ہو نے کے بعد حالات کی فوری بہتری کی خوش خبری سرعام کی جاری ہے بظاہر لیکن ایسا لگتا نہیں، عام انتخابات کے نتیجے میں جو بھی سیاسی
جماعت اقتدار سنبھالے گی وہ سابق حکومتوں کی طرح اپنے مخصوص ایجنڈے پر عمل پیرا ہو گی ، جہاں تک عوام کے مسائل کا تعلق ہے جس طر ح سے گزشتہ حکومتوں نے محض عوام کو لولی پاپ پر ٹر خایا ، آثار یہی ہیں کہ آنے والی حکومت بھی ملک کی خستہ معیشت اور خزانہ خالی ہے کو نعرہ مستانہ بنا کر عوام پر مزید بوجھ لادنے کی کوشش کرے گی ، سوال آخر یہ ہے مالی طورپر آسودہ تر حکمران غریب عوام کیلئے کب آسانیاں پیدا کر نے کی طرف قدم بڑھا ئیں گے ، اس سوال کا جواب نہ اس عاجز کے پاس ہے اور نہ قارئین کے پاس سو غربت سے خود لڑنے کا حوصلہ اپنے اندر پیدا کیجیے اور اپنی زندگی کے دن پوری کیجیے۔