آج کے کالمساجدہ صدیق

قصہ ایک صدی کا

ساجدہ صدیق

 

ڈاکٹر نذیر صاحب 1960 میں گورنمنٹ کالج لاہور کے دبنگ پرنسپل تھے۔ ان کے پاس صرف دو سوٹ تھے، ایک لانڈری میں ہوتا تھا، اور دوسرا وہ پہن لیتے تھے۔ سلیپنگ سوٹ وہ باتھ روم میں لٹکائے رکھتے تھے۔ جوتا وہ چار پانچ سال کے لئے خریدتے تھے۔ خراب ہو جاتا تو اس کی مرمت کرا لیتے تھے۔ زیادہ خراب ہو جائے تو مجبوری میں نیا خرید لیتے تھے۔ اور جب تک وہ بھی مکمل طور پر جواب نہیں دیتا وہ اس کا استعمال بھی جاری رکھتے تھے۔یہ 1960کی دہائی میں گورنمنٹ کالج کے پرنسپل اور ملک کے بڑے دانشور کا لائف سٹائل تھا اور وہ ایسے پرنسپل تھے جو صدر ایوب خان کو بھی امتحان کے دنوں میں کیمپس آنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج کی تین اطراف کی سڑکوں پر ہارن بجانے پر پابندی لگائی اور یہ پابندی 30 سال قائم رہی تھی۔ لیکن آپ اس شخص کی سادگی دیکھیں، اس کے کمرے میں وارڈروب نہیں تھی، اب سوال یہ ہے کیا ڈاکٹر صاحب سادگی کے سلسلے کے واحد مجدد تھے؟
جی نہیں، دنیا کا ہر بڑا انسان اور بڑا معاشرہ ڈاکٹر صاحب کی طرح سادہ ہوتا ہے، کیوں؟
کیوں کہ سادگی ذہانت کا آخری درجہ ہوتا ہے۔ انسانی ذہانت کے پانچ درجے ہوتے ہیں۔ پہلے درجے کے انسانوں کو سمارٹ کہا جاتا ہے، دوسرے درجے میں ذہین لوگ آتے ہیں۔ یہ (Intelligent) ہوتے ہیں۔ تیسرے درجے میں بریلینٹ (Brilliant) آتے ہیں۔ چوتھا لیول جینئس یعنی آئن سٹائن قسم کے لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ جب کہ انسانی ذہانت کا آخری درجہ سادگی ہوتا ہے۔سادگی ذہانت کی پیک (peak) ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے دنیا کے تمام نبی، اولیاء کرام، سائنس دان اور بین الاقوامی لیڈر سادہ تھے۔ یہ چھوٹے چھوٹے کمروں میں انتہائی ضرورت کی چیزوں کے ساتھ زندگی گزارتے رہے۔ بڑے معاشرے بھی سادہ ہوتے ہیں۔ میں اس سلسلے میں جاپان، چین اور جرمنی کی مثالیں دوں گی۔ یہ تینوں دنیا کی بڑی معیشتیں ہیں، لیکن ان کے لوگ انتہائی سادہ اور عاجز ہیں۔ آپ ان سے راستہ بھی پوچھیں گے تو یہ ہاتھ جوڑ کر آپ کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے۔ چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں اور کم سے کم وسائل میں زندگی گزارتے ہیں۔ ہمارے شہروں میں آج بھی لنڈے کے کپڑے بکتے ہیں، یہ کپڑے امیر ملکوں کے عوام کے گفٹ ہوتے ہیں۔یورپین لوگ ہر سال اپنے فالتو کپڑے این جی اوز کے حوالے کرتے ہیں اور این جی اوز انہیں تیسری دنیا کے ملکوں میں بھجوا دیتی ہیں۔ آپ کو یہ سادگی دنیا کے بڑے لوگوں میں بھی ملتی ہے۔ مرار جی ڈیسائی بھارت کے وزیراعظم تھے۔ ان کے بارے میں مشہور تھا ان کے پاس دو پاجامے اور تین کُرتے تھے۔ یہ برسوں یہی کپڑے پہنتے رہے۔ جب وہ پھٹ گئے تو ان کی بیگم نے کرتے کاٹ کر رومال بنا دیے۔ اور ڈیسائی صاحب باقی زندگی وہ رومال استعمال کرتے رہے۔
ایپل کمپنی کے بانی اور مالک سٹیو جابز نے پوری زندگی جینز کی سستی پینٹ اور دس ڈالر کی سیاہ شرٹ پہنی۔ اس کے کمرے میں فرنیچر بھی نہیں تھا۔ وہ فرش پر سوتا تھا اور انتہائی تھوڑی اور سستی خوراک کھاتا تھا۔
مرنے کے بعد اس کی وارڈروب سے تین جوتے، دو پینٹس اور پانچ گھسی ہوئیں سلیولیس شرٹس ملیں۔
بل گیٹس کے کپڑے بھی سادہ اور سستے ہوتے ہیں۔ آپ اسے تین رنگوں کے سستے سوٹ میں دیکھیں گے اور یہ سوٹس بھی برسوں استعمال ہوتے ہیں۔
وارن بفٹ آج بھی پرانے گھر میں رہتا ہے، پرانے سوٹس پہنتا ہے اور صرف پانچ ڈالر کا میکڈونلڈ کا برگر کھاتا ہے۔
دنیا کے اس وقت کے امیر ترین شخص ایلون مسک نے اپنے تمام گھر (مالیت 134 ملین ڈالر) بیچ دیے ہیں اور اب اس کا کوئی ملکیتی گھر نہیں ہے۔یہ آفس کے چھوٹے سے کمرے میں رہتا ہے، اور اس کا لائف سٹائل عام مڈل کلاس امریکی سے بھی نیچے ہے۔
فیس بک کے بانی مارک زکر برگ کو بھی دیکھا ایک ہی شرٹ میں دیکھا۔ پتہ نہیں اس کے پاس کوئی دوسری شرٹ ہے بھی یا نہیں۔
آپ اکثر پڑھتے رہتے ہونگے کہ فلاں یورپی ملک کا وزیراعظم اپنا منصب چھوڑنے کے بعد کرائے کے گھر میں منتقل ہو گیا۔ فلاں ملک کا وزیراعظم کرائے کے ایک کمرے کے فلیٹ میں رہتا یے۔ فلاں یورپی ملک کے صدر یا وزیراعظم کے پاس کوئی ملازمہ تک نہیں۔ یہ سادگی کی اعلیٰ مثالیں ہیں۔
پاکستان کے اندر بھی ایسے بے شمار لوگ ہیں۔ عبدالستار ایدھی صاحب نے پوری زندگی مُردوں کے جوتے اور کپڑے پہنے۔ ان کی ٹوپی کی مالیت بھی دو روپے ہوتی تھی۔ لیکن اس شخص نے دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس بنا ڈالی۔
زندہ لوگوں میں سید بابر علی کمال انسان ہیں۔ یہ 97 سال کی عمر میں بھی لمز میں ایسے ڈیپارٹمنٹس بنا رہے ہیں، جو دس سال بعد مکمل ہوں گے لیکن آپ ان کے کپڑے اور جوتے اتنے سادہ اور سستے ہیں کہ آپ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے۔ یہ گاڑی بھی سستی استعمال کرتے ہیں۔
میں ریڈ فائونڈیشن کے بانی محمود صاحب سے بہت متاثر ہوں۔ اس شخص نے ملک میں چار سو سکول اور کالج بنائے، اس وقت بھی ان کے سکولوں میں ڈیڑھ لاکھ طالب علم پڑھ رہے ہیں۔ مگر آپ اس شخص کی سادگی دیکھیں تو حیران رہ جائیں۔انھوں نے 30 سال بعد بھی وہی سویٹر پہنا ہوا تھا، جو انھوں نے پہلے سکول کے افتتاح پر پہنا تھا۔ ان سے جب وجہ پوچھی گئی تو ان کا جواب تھا کہ سویٹر کا کام سردی روکنا ہوتا ہے، اور اگر میرا سویٹر یہ کام کر رہا ہے تو پھر مجھے نیا خریدنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس سے رقم بھی ضائع ہوگی، اسے محفوظ رکھنے کی کوفت بھی اٹھانی پڑے گی اور کسی ایسے شخص کی حق تلفی بھی ہوگی جس کے پاس سویٹر نہیں ہے۔ یہ سن کر میرا دل چاہا میں آگے بڑھ کر ان کا سویٹر چوم لوں۔میں نے ایک بار حساب لگایا، پتا چلا سردیوں کے صرف تین ماہ ہوتے ہیں اور ان میں بھی شدید سردی صرف 20 دن پڑتی ہے، عموماًان میں دو جیکٹس پہنی جاتی ہیں ،ایک ہلکی سردی کے دوران اور دوسری شدید سردی میں، اس کے بعد اگلا سوال تھا پھر اتنے سویٹر اور جیکٹس کیوں ہیں؟
میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا، یقیناً میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوں، جن کی ذہنی افلاس ختم نہیں ہو سکی اور یہ وارڈروبز کو ناک تک بھر کر خود کو رئیس سمجھتے ہیں اور’’وارڈروب بھرو‘‘ کے اس کھیل میں یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ بھرے ہوئے وارڈروبز والے لوگ بڑے نہیں ہوتے۔ بڑے وہ ہوتے ہیں جن کے کمروں میں ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کی طرح وارڈ روبز نہیں ہوتیں، یہ جانتے ہیں ضرورتیں محدود ہوتی ہیں، لیکن ہوس کی کوئی حد نہیں ہوتی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button