سیاسی قوتیں تصادم کا راستہ ترک کریں!

رائو غلام مصطفی
2013ء اور 2018ء کے عام انتخابات میں عوام نے بھر پور شرکت کی اور انتخابی ماحول میں گرم جوشی بھی تھی 8 فروری 2024ء کو عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں، الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابی شیڈول بھی جاری کر دیا ہے امیدواروں کے پاس اپنی انتخابی مہم کے لئے صرف ایک مہینہ ہے لیکن اس وقت ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے قومی و صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کے90 فیصد کاغذات نامزدگی مسترد ہو چکے ہیں پاکستان تحریک انصاف کے جن امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے وہ اپیلوں میں چلے گئے ہیں اب ان اپیلوں پر کیا فیصلہ ہوتا ہے یہ کہنا قبل از وقت ہے لیکن تحریک انصاف پر پنجاب اور پختون خوا میں غیر علانیہ پابندی کے سائے بدستور منڈلا رہے ہیں۔ پشاور ہائیکورٹ کے سنگل بنچ نے الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست منظور کرتے ہوئے حکم امتناع واپس لے لیا اور یوں پاکستان تحریک انصاف ایک بار دوبارہ انتخابی نشان”بلا“سے محروم ہو گئی۔ماضی کے ایسے تجربات شاہد ہیں کہ انتخابی نشان واپس لینے سے سیاسی جماعتوں کو ختم نہیں کیا جاسکتا یہ تجربہ پاکستان پیپلز پارٹی کو دیوار سے لگانے کے لئے بھی کیا گیا تھا کیا پاکستان پیپلز پارٹی ختم ہو گئی؟ایم کیو ایم آج بھی ایک سیاسی قوت ہے جسے ہر نئی آنے والی سیاسی حکمران جماعت اپنی اقتداری کشتی میں سوار کرتی ہے۔ اب وہ وقت گزر گیا اور نہ ہی ایسے حالات ہیں کہ زمینی حقائق کو مسخ کیا جا سکے۔سینیٹ سے بھی انتخابات کے التواء کی قرار داد منظور ہو چکی ہے جس کے پس پردہ محرکات بھی جلد آشکار ہو جائیں گے کہ یہ کس کی خواہش کی تکمیل کے لئے پیش کر کے منظور کروائی گئی ہے۔ایسے حالات میں اگر انتخابات مقررہ وقت پر ہو بھی جاتے ہیں تو ان انتخابات میں گہماگہمی نہیں ہو گی۔جب سے سیاستدانوں نے اقتدار اور اختیارات حاصل کرنے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کا سہارا لینا شروع کیا اس وقت سے سیاسی جماعتوں کے اندر سے جمہوریت ختم ہو کر رہ گئی۔ اب تو حالات ایسے ہیں کہ سیاستدانوں کے نزدیک ووٹرز اور پارٹی ورکر کی اہمیت بھی ختم ہو چکی ہے صرف انتخابات کے موسم میں سیاسی ورکر کو سیاسی جماعتوں کی جانب سے آکسیجن فراہم کی جاتی ہے جس سے وہ پھولے نہیں سماتے۔
دنیا میں جہاں بھی جمہوریت مضبوط اور سیاسی استحکام ہے، اس کا کریڈٹ وہاں کی سیاسی جماعتوں کو جاتا ہے۔ اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ پاکستان میں اگر جمہوریت مضبوط نہیں ہو سکی اور سیاسی استحکام نہیں آسکا تو اس کی ذمہ داری سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اپنی اس ناکامی کو قبول کرتے ہوئے تاریخی تجربات کی روشنی میں اپنے کردارکا ازسر نو تعین کرنا چاہیے۔ صرف پاکستان ہی نہیں، دنیا بھر میں سیاسی قوتوں اور ریاستی اسٹیبلشمنٹ کے مابین اختیارات کی رسہ کشی ہوتی ہے، جو اب بھی ہے۔ مضبوط اور مستحکم جمہوری نظام جہاں بھی ہے، وہ سیاسی قوتوں کی فتح گردانا جاتا ہے اور اس فتح کو برقرار رکھنا بھی ایک جہد مسلسل ہے۔جس میں سیاسی قوتوں کو نہ صرف تدبر سے کام لینا ہوتا ہے بلکہ اپنے اندر بھی جمہوری رویوں کو مضبوط کرنا ہوتا ہے۔المیہ ہے سیاسی جماعتوں کے اندر ایسا کوئی ادارہ موجود نہیں ہے جو سیاسی کارکنان کے سیاسی شعور کی پختگی کے لئے کام کرتا ہو۔مخالف سیاسی جماعتوں کے ساتھ اختلافات اور سیاسی لڑائیوں کو بھی جمہوری اصولوں کے دائرے میں رکھنا چاہیے جیسے ہی سیاسی جماعتیں اس دائرے سے نکلتی ہیں، وہ کمزور ہو جاتی ہیں۔ کیونکہ اس رسہ کشی میں صرف ملکی سیاسی قوتیں اور اسٹیبلشمنٹ ہی شامل نہیں ہوتی بلکہ اس میں بین الاقوامی طاقتیں بھی ملوث ہوجاتی ہیں۔ اب یہ بات ہر ایک پر عیاں ہو چکی ہے کہ یہاں قیام پاکستان سے ہی سیاسی قوتیں بوجوہ اپنی گرفت مضبوط نہ کر سکیں اور حقیقی اقتدار نو آبادیاتی خصوصیات کی حامل ملٹری اور سول بیورو کریسی کے ہاتھوں میں چلا گیا۔ پاکستان بنانے والی سیاسی جماعت مسلم لیگ کی قیادت کے پاس قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد کوئی سیاسی پروگرام نہیں تھا، یہاں تک کہ اس کے پاس یہ روڈ میپ بھی نہیں تھا کہ ملک میں کونسا نظام حکومت ہو گا۔ مسلم لیگ کی قیادت ہی اندرونی سازشوں اور دھڑے بندیوں کا شکار ہو گئی اور ہر دھڑا اقتدار کی خاطر سول اور ملٹری بیورو کریسی کی حمایت حاصل کرنے میں مصروف ہو گیا۔ اس طرح بطور سیاسی جماعت مسلم لیگ نہ صرف کمزور بلکہ ختم ہو گئی اور ریاست پر اسٹیبلشمنٹ کی گرفت مضبوط ہو گئی۔ سیاست کو کمزور کرنے اور حقیقی سیاست دانوں کو سیاست سے باہر کرنے کی کوشش کے خلاف جو تھوڑی بہت مزاحمت ہوئی اسے آسانی سے کچل دیا گیا۔ ملکی اسٹیبلشمنٹ نے سیاست کا توڑ سیاست سے کیا اور کنگز پارٹیاں یا سیاسی اتحاد بنانے شروع کئے۔ پیپلز پارٹی کے خلاف پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کی تشکیل اسی منصوبے کے تحت ہوئی یوں پاکستان میں سیاسی کشیدگی کا آغاز ہوا، جو آج تک جاری ہے۔پی این اے کا کردار ختم ہوا تو جنرل ضیاء الحق کے دور میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں مسلم لیگ کے نام سے کئی جماعتیں بنائی گئیں اور بالآخر مسلم لیگ (ن) ایک بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری۔ 1977 ء سے 1999ء تک سیاسی جماعتوں کی کشمکش عروج پر رہی، جس سے اسٹیبلشمنٹ نے سیاست کو اپنے قابو میں کر لیا۔ایک مرحلہ ایسا بھی آیا جب پیپلز پارٹی بھی اقتدار کیلئے اسٹیبلشمنٹ میں اپنی لابنگ پر کام کرنے لگی۔ پرویز مشرف کے دور میں جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے مابین میثاق
جمہوریت ہوا اور دونوں نے ماضی کی کشمکش کو اپنی غلطی تسلیم کیا تو ایک تیسری سیاسی قوت کی اسٹیبلشمنٹ کو ضرورت پڑی۔ پاکستان تحریک انصاف کے بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آنے سے سیاسی کشمکش پھر عروج پر پہنچ گئی۔ اس کشمکش میں پھر ساری سیاسی قوتوں نے اقتدار کیلئے اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں نے اپنی سیاست، اپنے عوام اور اپنے کارکنوں پر انحصار کم کر دیاہے۔ سیاسی طاقت کے عوامی مظاہرے صرف بارگیننگ پوزیشن حاصل کرنے کیلئے ہوتے ہیں۔ سیاسی پیش قدمی کے لئے نہیں۔موجودہ حالات متقاضی ہیں کہ ملک میں سیاسی استحکام اور معشیت کو پٹڑی پر لانے کے لئے سیاسی قوتیں تصادم کا راستہ ترک کریں۔ ملک میں سیاسی استحکام لانے اور معاشی بحران کے خاتمے کے لئے کسی وسیع ایجنڈے یا چارٹر پر متفق ہوں۔وقت اپنی چال چل رہا ہے اگر اب بھی سیاسی قوتوں نے وقت کے تقاضوں کی نبض کو سمجھنے میں دیر کر دی تو سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔