سوشل میڈیا،تضادات کا سرچشمہ!
انور گریوال
جی ہاں! سردی کا سو سالہ ریکارڈ ٹوٹنے کو ہے، آنے والے دنوں میں پاکستان کی تاریخ کا سو سالہ ریکارڈ ریزہ ریزہ ہو جائے گا۔ عین ممکن ہے کہ اگلے پچاس سال بعد پاکستان کی تاریخ کا دو سو سالہ ریکارڈ بھی ٹوٹ جائے۔ سردی اِس قدر پڑنے والی ہے کہ میدانوں میں برف باری ہوگی،جو لوگ برف باری کا نظارہ کرنے کے لئے مری وغیرہ جانے کی سکت نہیں رکھتے وہ اپنے اپنے علاقوں میں ہی مری دیکھ سکیں گے۔ آسانی یہ بھی ہوگی کہ نہ سفر کا خرچہ نہ سفر کی صعوبت، ہاں البتہ میدانی علاقوں میں پہاڑوں کے مناظر نہیں دیکھے جا سکیں گے، کہ سوشل میڈیا والوں نے ابھی اُن کا انتظام نہیں کیا۔پنجاب کے لوگ برف کو دیکھ کر پریشاں نہ ہوں، اِسی لئے سوشل میڈیا نے ’’بریکنگ نیوز‘‘ قوم کو دے دی ہے، تاکہ تب تک وہ لنڈے سے موٹے اور گرم کپڑے خرید لیں، باہر کے کام نمٹا لیں، کیونکہ جب تک برفباری ہوتی رہے گی، گھروں کے اندر پابند ہی رہنا پڑے گا۔
اگر کسی کے ذہنِ دور اندیش میں یہ خیال آتا ہے کہ پاکستان کو سو سال تو قائم ہوئے ابھی نہیں ہوئے، سردی کا سو سالہ ریکارڈ کیسے ٹوٹ سکتا ہے؟ یہ سوشل میڈیا کی کرشمہ سازی ہے، وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ تضادات کا بحرِ بیکراں ہے، جو سوشل میڈیا میں موجزن ہے، جس کے دل میں جو بات آتی ہے، وہ کر گزرتا ہے، سچ جھوٹ اللہ جانے، ’پوسٹ‘ حاضر ہے۔ ستم تو یہ بھی ہے کہ کسی بھی غلط بیانی کے بعد بہت کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ معذرت کے دو بول یا الفاظ ادا کر لئے جائیں۔ جو بات ایک مرتبہ کر دی، سو کردی۔ حیرت تب ہوتی ہے کہ سوشل میڈیا پر بیٹھے یار لوگ اتنی جلدی میں ہوتے ہیںکہ کسی بھی پوسٹ پر غور کرنے پر اپنا قیمتی وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ اُدھر سے کوئی بھی پوسٹ جاری ہوئی، اِدھر سے حمایت اور مخالفت میں قوم خُم ٹھونک کر میدان میں اُتر آئے۔
سردیوں کی چھٹیوں کا معاملہ بھی اِسی نوعیت کا ہے، اوّل تو حکومت آنکھیں بند کر کے انگریز بہادر کی روایت پر عمل کرتی ہے، دسمبر کے اواخر میں انگریز سردیوں کی چھٹیاں کر کے کرسمس اور نیوائیر مناتے تھے، بہانہ سردی کا تھا۔ اب موسم بدل چکا ہے، سردی تاخیر سے شروع ہوتی ہے، اصل لہر جنوری میں آتی ہے، مگر مجال ہے کہ انگریز سرکار کی ذرا سی بھی حُکم عدولی ہو نے پائے۔ نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ جنوری کے آغاز میں چھٹیوں میںاضافہ کرنا پڑتا ہے، لہر مزید تیز ہو جائے تو مزید اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ اِس دوران سوشل میڈیا اپنا کام دکھاتا ہے، ہر دوسرے روز ایک عدد نوٹیفکیشن جاری کر دیا جاتا ہے، جس کے مطابق چھٹیوں میں اضافہ دیکھنے میں آجاتا ہے۔ یوں قوم اصلی اور جعلی نوٹیفکیشن کے پرکھنے میں اپنی توانائیاں صرف کرتی رہتی ہے، توانائیاں صرف کرنے کے لئے یہ میڈیا بہترین پلیٹ فارم ثابت ہو رہا ہے، حتیٰ کہ وقت خود اصل اور نقل کو الگ الگ کر کے رکھ دیتا ہے۔
مذہب اور سیاست کو بھی سوشل میڈیا نے کھیل تماشا بنا کر رکھ دیا ہے، سازشی ذہن رکھنے والوں کے لئے امکانات کی وسیع دنیا موجود ہوتی ہے، ایسے ایسے فتوے سامنے آتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، ایسی ایسی احادیث منظر عام پر آتی ہیں کہ سُنی نہ پڑھیں۔ ایسے ایسے اقوال سامنے آتے ہیں کہ حیرت زدہ کر جاتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت علی ؓ کے اقوال و واقعات سے سوشل میڈیا کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ اخلاقیات کا درس دینے والوں کی عملی زندگی جاننے والے ششدر رہ جاتے ہیں کہ جس کی زبان وعمل سے کبھی اخلاق کا اظہار نہ ہوا وہ بہترین درس دے رہا ہے۔ ایمانداری کا سلیقہ وہ سکھاتے ہیں جو کاروبارِ دنیا میں کبھی اِس صفت کے قریب سے نہیں گزرے۔ کسی کے ہاتھ کوئی اچھی بُری ویڈیو آئی ، اُس نے نئے جوش و جذبے کے تحت جاری فرما دی، خواہ وہ تین برس پرانی ہی کیوں نہ ہو؟
تسلیم کہ سوشل میڈیا آگاہی اور شعور کا اہم ذریعہ ہے، مگر یہ دونوں صفات بہت پیچھے رہ گئی ہیں، اب جھوٹ کے گہرے بادلوں میں سے روشنی کی کوئی کِرن ہی سامنے آتی ہے، جسے سچ کہا جا سکے۔ یہاں علّامہ اقبالؒ کو بھی معافی نہیں ملتی، کہ سطحی قسم کے اشعار اُن کی تصویر کے ساتھ لکھ دئیے جاتے ہیں، ستم بالائے ستم اُس وقت ہوتا ہے جب یہ کام کچھ معقول اور باخبر لوگ بھی کر گزرتے ہیں۔ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ اصلاح کرنے والے کہیں دب کر رہ جاتے ہیں اور وہ فضول پوسٹ مسلسل شیئر ہو رہی ہوتی ہے۔ شعور کا دعویٰ کرنے والے سوشل میڈیا پر عدم برداشت اور گالی کا کلچر عام ہو گیا ہے، کسی کے ہاتھوں کسی کی عزت محفوظ نہیں۔ صحافت و ادب اور دیگر شعبوں کے بڑے معزز نام بھی دشنام طرازی پراُتر آتے ہیں اوراپنے اس عمل کو حق گوئی ہی قرار دیتے ہیں۔
شعور اور آگاہی کا عالم یہ ہے کہ اگر کسی نے قرآن پاک کی آیت کا ترجمہ بھی لکھ دیا تو اکثریت مفسّر بن کر نمودار ہو جاتے ہیں، ایسی ایسی تشریح کریں گے کہ خود علماء بھی حیرت زدہ رہ جائیں گے۔ بہت اچھی باتوں کی مخالفت کرنا، اُن پر نکتہ چینی کرنا اور اُن پر تنقید کرنا بھی بہت اہم فیشن بن چکا ہے۔ بہت سے بے عمل لوگ بھی بہت معزز اور علمائے دین کی توہین کرنا ثوابِ دارین ہی جانتے ہیں۔ کسی بھی مذہبی سکالر یا سیاسی رہنما کے بارے میں تبصرہ کرتے وقت ذرا بھی تامل نہیں ہوتا۔ البتہ کوئی پوسٹ جس قدر سازشی یا شرارتی مزاج کی ہوگی، اُس کو اُسی قدر زیادہ پذیرائی ملے گی ، اُسے شیئر کیا جائے گا، زیر بحث لایا جائے گا اور خوب پھیلایا جائے گا۔ سوشل میڈیا ایک وباء کی صورت ہر گھر میں داخل ہو چکا ہے، یا یوں کہئے کہ ایک ایسا نشہ ہے جو دو تین برس کے بچے سے لے کر آخری عمر کے بوڑھے تک کو لگ چکا ہے۔کسی حد تک تعلیم یافتہ بابوں نے بھی خود کو اِسی خدمت کے لئے وقف کر رکھا ہے، بقول غالب؛
گوہاتھ کو جُنبش نہیں، آنکھوں میں دم تو ہے
رہنے دو ساغر و مینا میرے آگے
گویا سوشل میڈیا پر آنے والی بریکنگ نیوز تضادات کے مجموعہ کے علاوہ کچھ نہیں، اگر کوئی بات سچی آ جائے تو وہ بھی مشکوک ہو جاتی ہے۔ اکثر اوقات خبر پڑھ کر خون کھولنے لگتا ہے، اِس مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ دِل و دماغ کو اچھی طرح سمجھا لیا جائے کہ ہر بات پر فوری یقین کر کے ردّ ِ عمل ظاہر کرنے کی بجائے کچھ دیر انتظار کیا جائے تاوقتیکہ حقیقت سامنے آجائے۔